تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد ۔۔۔ لندن
ضمیر جاگ ہی جاتا ہے اگر زندہ ہو اقبال
کبھی گناہ سے پہلے تو کبھی گناہ کے بعد
جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو کبھی کبھارکالی آندھی آتی تو لوگ پریشان ہو جاتے
اور خدا کریم سے توبہ استغفار کرتے تھے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کا کہنا تھا
کہ کالی آندھی طلاق کی نشانی ہوتی ہے اس کا مطلب ہے کہ اس لفظ میں کتنی
ہولناک تپش تھی کہ آب و ہوا بھی نہیں برداشت کر سکتی تھی لیکن آج کل تو
بالکل اس کے برعکس تصویر نظر آ رہی ہے اب تو آب و ہوا میں وہ تپش ہی نہیں
رہی کہ آندھی کا سبب بنے اور آندھیاں بھی تھک چکی ہیں کہ انسانوں میں تو
احساس ہی نہیں تو پھر ہمارے چلنے کا کیا فائدہ
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ
آنچل بھی اسی تار سے بنتا ہے اور کفن بھی
یہ تو حقیقت ہے کہ کسی بھی رشتے میں احساس کو ختم کر دیا جائے تو باقی کچھ
نہیں بچتا یہی صورت حال آج کل ہمارے معاشرے میں چل رہی ہے ہم میں اتنی
خودغرضی آ چکی ہے کہ ہمیں دوسروں کا خیال تک نہیں رہتا ہم اپنی خوشیوں کو
حاصل کرنے کے لئے دوسروں کی خوشیوں کو کھا جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم
تنقید کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اس کی
بنیادی وجہ کیا ہے نہیں نا۔اس مثال سے آپ کو واضح ہو جائے گاگاوئں میں
زیادہ تر لوگ کاشت کاری کرتے ہیں مختلف قسم کی فصلیں اگاتے ہیں لیکن اچھی
پیداوار بہت ہی کم لوگوں کی ہوتی ہے سب لوگ تقریباً ایک جیسی چیزیں استعمال
کرتے ہیں تو پھر یہ کیوں ہوتا ہے کیونکہ سچی لگن اور محنت ہی پیداوار میں
اضافے کا سبب بنتی ہے۔
اسی طرح والدین کی اچھی تعلیم و تربیت اچھی پیداوار کی طرح ضانت ہوتی ہے ہم
ہر وقت معاشرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن ہم برائی کو خود پیدا کرتے
ہیں
بچے پیدا کرنا ہی ہمارا فرض نہیں ہے بلکہ اپنے بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت
کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار ماحول دینا بھی ہمارا فرض ہے ان کی جائز ضروریات
کا خیال رکھنا اور ان کے اندر ایک دوسرے کا احساس پیدا کرنا تاکہ مستقبل
میں وہ معاشرے میں باعزت زندگی گزار یں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں ان سب
چیزوں کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی تعلیم کا ہونا ایک اچھی شخصیت اور اچھی
پرورش کی نشانی ہے لیکن آج کل تو نفسا نفسی کا دوردورہ ہے زیادہ تر لوگ
اپنے بچوں کو وقت دینے کے بجائے ان کو زندگی کی وہ تمام سہولیات دے دیتے
ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچے برائی کی
طرف راغب ہو جاتے ہیں بچے پھول کی طرح نازک ہوتے ہیں جس کی بہت احتیاط کرنی
پڑتی ہے کیونکہ برائی والا راستہ دلکش ہوتا ہے اس لئے وہ اس کی طرف مائل
ہوجاتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہ دلکشی عارضی ہوتی ہے بچے کو اچھی
تعلیم و تربیت دے دو اگر وہ اچھے ہونگے تو سب کچھ بنا لیں گے اگر برے ہونگے
تو بنا ہوا بھی ضائع کر دیں گے جب ہم بچوں کو توجہ نہیں دیں گے تو وہ بڑے
ہو کر بگاڑ پیدا کریں گے اور مختلف قسم کی برائیوں کا سبب بنیں گے تو اس
وقت ہمارا چیخنا اور چیلانا بے سود ہے اور ہم سسٹم کو برا کہتے ہیں حالانکہ
برائی ہم نے خود پیدا کی ہے اور الزام دوسروں کو دیتے ہیں-
ہمارے معاشرے میں اس وقت طلاق اور بچیوں پر زیادتی کا سلسلہ بہت زیادہ ہے
کیونکہ ہم اپنے بچوں کو قرآن و حدیث کے مطابق تعلیم نہیں دیتے اور ہمارے
میں لالچ بھی حد سے زیادہ ہے ہم رشتوں کو بنانے کے بجائے جہیز اور دولت کو
بنانے کی کشمکش میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں
جس کی وجہ سے ان میں احساس تک ختم ہو جاتا ہے جس سے ایک دوسرے کی عزت و
آبرو محفوظ نہیں رہتی والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو قرآن پاک کی سورت
القیامتہ کی آخری آیات سے آگاہ کریں جس میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کی اصیلیت
واضع کی ہے کہ انسان کی بناوٹ کیسے اور کس طرح سے ہوئی ہے ہم اپنی اصیلیت
کو جان کر بھی انجان ہیں کیونکہ ہم حقیقت سے ڈرتے ہیں اور ہم قرآن و حدیث
سے دور ہوتے جا رہے ہیں جس سے معاشرہ تباہی کی طرف راغب ہو رہا ہے اور ہم
انسان ذلیل و خوار ہو رہغ ہیں ہمارے میں احساس ختم ہوتا جا رہا ہے -
آجکل تو ہر گھر میں جہیز کا دور دورہ ہے اور اسی کی وجہ سے غریب کی بیٹی
گھر میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہے لوگ انسانوں کی نسبت دولت کو زیادہ اہمیت
دیتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دولت سے ہر چیز کو خریدا جا سکتا ہے لیکن
ہم بھول جاتے ہیں کہ کچھ چیزیں انمول ہوتی ہیں جیسے جوہری کو ہیرے کی پہچان
ہوتی ہے اسی طرح انمول چیزوں کو جاننے کے لئے ہمارے میں انسانیت کا ہونا
ضروری ہے اور ان کو دولت سے نہیں خریدا جاسکتاہمارے معاشرے میں طلاق تو دن
بدن عام ہوتی جا رہی ہے اس کی پہلی بنیادی وجہ والدین کی تعلیم و تربیت میں
کمزوری اور دوسرا ناپسند کی شادی جب والدین بچوں کی ناپسند سے شادی کریں گے
تو ازدواجی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ایک دوسرے کا احساس ختم ہو
جاتا ہے چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھی بڑے پیمانے پر اجاگر کیا جاتا ہے اور
بات لڑائی جھگڑے پر آ جاتی ہے تقریباً ساٹھ فیصد طلاق پر ختم ہوتی ہیں
تیسری بڑی وجہ جہیز ہے کیونکہ شروع میں سب چیزیں ضرورت سے زیادہ اچھی لگتی
ہیں اور ایک دوسرے کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کی خواہشات کو مد نظر رکھا
جائے اس لئے ہم درمیان میں جہیز کو شامل کر لیتے ہیں لیکن شادی کے بعد بھی
یہ عادت ہو جاتی ہے کہ کچھ مفت کا مال مل جائے لیکن ہر کام کی ایک حد ہوتی
ہے مگر جب جواب آپ کے معیار کے مطابق نہیں ملتا ہے تو پھر آپس میں لڑائی
جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں جو طلاق کا باعث بنتے ہیں چوتھی وجہ میاں بیوی کے
درمیان ایک دوسرے کا احساس کیونکہ بعض دفعہ انسان کا مقدر چکر میں آ کر
زوال کا شکار ہوجاتا ہے تو اس وقت میاں بیوی کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے
لیکن بعض لوگ تو اس وقت اپنا اصلی چہرہ سامنے لے آتے ہیں جب دوسرا مشکل میں
ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف بھاگنے کی کوشش
کرتے ہیں لیکن یہ روشنی ان کی زندگی میں اندھیرا کر دیتی ہیں کسی نے کیا
خوب کہا ہے کہ دو انسان زندگی بھر نہیں بھولتے ایک جو مشکل وقت میں ساتھ
چھوڑ دیں اور دوسرا جومشکل میں آپ کے ساتھ ہوں آخر میں سب سے اہم وجہ جس کی
وجہ سے گھروں کی خوشیوں کو تباہ ہوجاتی ہیں بعض لوگ شادی کے بعد دوسروں کی
طرف رحجان کرتے ہیں جس سے ایک دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیں اس
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ہم کسی کو کچھ وقت یا کچھ گھنٹوں کے لئے ملتے
ہیں تو اس کے مثبت مزاج کو ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کے برعکس میاں بیوی ایک
دوسرے کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مثبت اور منفی دونوں پہلووں
جانتے ہیں لیکن دوسروں کے منفی پہلوں ہمیں نہیں پتہ ہوتے جس کی وجہ سے
دوسرے ہمیں اچھے لگتے ہیں اگر ہم گھر والوں اور باہر والوں دونوں کے مزاج
کے دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھیں تو اس برائی سے باآسانی اپنے آپ کو بچا
سکتے ہیں در اصل آج کل ہم دنیوی رنگنیوں میں اتنا گم ہوچکے ہیں کہ ہمیں
لگتا ہے کہ یہی دنیا ہمارا آخری ٹھکانہ ہے اور ہم نے حقیقت سے منہ پھر لیا
ہے جس کی وجہ سے ہم دن بدن زوال کی طرف جا رہے ہیں ہمیں اپنے آپ کو بدلنا
ہوگا اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ زندگی عارضی ہے ہمارے معاشرے
میں موجود اس برائی کو ہم اچھے طریقے سے اسلامی اصولوں کے مد نظر ختم کر
سکتے ہیں اس کے لئے ہر انسان کو اپنی ذمہ داریاں کو اچھے طریقے سے نبھانا
چاہیے اس میں والدین ۔ میاں بیوی اور معاسرہ سب کی برابر کی ذمہ داری ہے ہم
میں صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کی کمی ہے قرآن و حدیث کے مطابق اپنی زندگی
بسر کریں تو ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی اور ہم میں ایک دوسرے کا احساس
ہوگا رشتوں کا احترام ہوگا اور ہم ایک دوسرے کی عزت و آبرو پامال نہیں ہوگی
مت دیکھ کسی کو حقارت کی نگاہ سے
ہر چہرہ کسی کا محبوب ہوتا ہے |