روز اول سے جو بھی انسان اِس جہان سنگ خشت میں آیا اس کی
ترجیح اول اپنی ذات کی پرورش تھی انسان اقتدار شہرت دولت عروج طاقت حاصل کر
نے کے لیے لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا نے سے بھی گریز نہیں کر تا انسان
کی یہ فطری کمزوری ہے کہ اسے اپنے علا وہ کو ئی اور نظر ہی نہیں آتا اپنی
تسکین کے لیے وہ دوسرے انسانوں کو کیڑے مکوڑے کی طرح روندتا آیا ہے اور قیا
مت تک یہ سلسلہ اِسی طرح رواں دواں رہے گا لیکن ما دیت پرستی خو دپر ستی کے
اِس جنون میں غرق انسانوں کے درمیان کو ئی ایسا واقعہ بھی تواتر سے ہو تا
آرہا ہے جب انسان کسی دوسرے کو خو د پر تر جیح دیتا ہے کسی کے آبروئے چشم
پر اپنی زندگی تک ایک لمحے میں سوچے سمجھے بغیر وار دیتا ہے انسان جس کی
جبلت میں خو دپرستی اور دوسرے کو نیچا دکھا نا ہے اسی انسان میں کبھی کبھی
ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب وہ دوسروں کو یا کسی دوسرے انسان کو خو د پر ترجیح
دیتا ہے کسی دوسرے کی خو شی آرام کے لیے وہ اپنی خو شی آرام تیاگ دیتا ہے
وہ کسی کے ایک ادنی سے اشارے پر یا کسی کو پا نے کے لیے اپنا مال و دولت جا
ئیداد حتی کہ تخت با دشاہت تک کو جوتے کی نو ک پر رکھ کر ہوا میں اڑا دیتا
ہے یہ جذبہ کبھی کبھی یا خا ص مو قعوں پر بیدار ہو تا ہے یہ جذبہ چنگا ری
بن کر ہر انسان میں کہیں نہ کہیں مو جو دہو تا ہے اور جب یہی چنگا ری سلگ
اٹھتی ہے تو یہ چنگا ری آگ کے بھا نبھڑ میں تبدیل ہو کر نفس کے رزائل کو
ایک لمحے میں راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے اِس کا ئنات کی تخلیق میں بھی یہ
جذبہ تخلیق میں بھی یہ جذبہ تھا اگر خا لق کا ئنات نے اِس خوبصورت ترین
گلیکسی کو بنا یا ہے تو اِس کے پیچھے بھی یہی جذبہ ہے اِس جذبے کو اگر
انسانوں سے نکال دیا جائے تو یقینا انسان جا نور کا روپ دھا ر لے ۔ خو ش
قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جن کے اندر خالق کا ئنات اِس جذبے کو زیا دہ مقدار
میں رکھ دیتا ہے اِس جذبے جنون کا نام ہے عشق ۔تا ریخ کے اوراق لاکھوں ایسے
واقعات سے بھرے پڑے ہیں جب عشق کے مظاہر کو دیکھ کر اہل دنیا عالم حیرت میں
غرق ہو گئے عشق اور سوز عشق سے دنیا کی کو ئی چیز خا لی نہیں ہے یہ ہو بھی
نہیں سکتا کیونکہ دنیا کی تخلیق بھی اِسی جذبے عشق ہی کے بھر پور جذبے کی
کرشمہ سازی ہے عشق کے معنی کسی چیز کو نہا یت دوست رکھنا ، یا محبت جب حد
اعتدال سے تجا وز کر جا ئے تو اسے عشق کا نام دیا جا تا ہے ۔حکیموں کی نظر
میں عشق ایک مر ض ہے جنون کی قسم ہے جو کسی حسین شے کو دیکھنے سے پیدا ہو
تا ہے یہ لفظ عشق لفظ عشقہ سے بھی منسوب کیا جا تا ہے یہ جس درخت سے لپٹی
ہے اس کو خشک بے جان کر دیتی ہے یہی حالت عاشق کی بھی ہو تی ہے جس کو ہو تا
ہے اس کو خشک اور ویران کر دیتا ہے ابو العاس احمد سے جب عشق و محبت کے با
رے میں پوچھا گیا کہ محبت اور عشق دونوں میں سے کون زیادہ قابل تعریف ہے تو
انہوں نے کہا محبت کیوں عشق میں انسان حد اعتدال سے تجا وز کر جا تا ہے
امام غزالی فرماتے ہیں محبت نام ہے پسندیدہ چیز کی طرف میلان طبع کا اگر یہ
میلان شدت اختیار کر جا ئے تو اسے عشق کہتے ہیں حضرت با یزید بسطامی محبت
کے با رے میں یوں فرماتے ہیں محبت یہ ہے کہ محبوب پر اپنی ہر چیز کو قربان
کر دیا جا ئے اور اپنے لیے کو ئی چیز با قی نہ رہے اور کہتے ہیں دل سے
محبوب کے سوا سب کچھ فنا کر دینے کا نام محبت ہے اور یہی کمال ہے کہ دل میں
غیر کے آنے اور غیر کی محبت رہنے کی جگہ ہی با قی نہ رہے اور عاشقوں کے
سردار منصور حلاج کو جب قید میں اٹھا رہ دن گزر گئے تو جناب شبلی نے ان کے
پاس جا کر پو چھا اے منصور محبت کیا ہے تو منصور نے جواب دیا اِس سوال کا
جواب آج نہیں تمہیں کل دوں گا اور اگلے دن جب منصور کو قید سے نکال کر مقتل
کی طرف لے جا رہے تھے تو منصور نے شبلی کو دیکھ کر کہا محبت کی ابتدا جلنا
اور انتہا قتل ہو جا نا ہے تصوف میں عشق کو بنیا دی مقام حاصل ہے ڈاکٹر
وزیر آغا لکھتے ہیں تصوف میں پہلا درجہ حسن کے ظہور سے متعلق سے عام زندگی
میں بھی بقا ئے نسل کا سلسلہ اِسی جذبے کا مرہون منت ہے جو محبوب کے سراپا
کو دیکھ کر عاشق کے دل میں کروٹ لیتا ہے محبوب کی کشش محض جسم کی حد تک رہے
تو جنبی کشش کہلا ئے گی اور اگر اِس کی تہذیب ہو جا ئے تو محبت کی لطا فت
میں تبدیل ہو جا ئے گی بہت سارے اہل دانش نے عشق ِ مجازی کو عشق حقیقی کا
زینہ بھی قرار دیا ہے یعنی عشقِ حقیقی سے پہلے عشق مجا زی کی لذتوں سے بھی
گزرنا ہو گا عشقِ مجا زی بہت حساس راستہ ہے قدم قدم پر راہنما ئی کی ضرورت
ہو تی ہے تا کہ با طن کا آئینہ بے غبا ررہے اور سالک دائمی مسرتوں سے بھی
ہمکنار ہو جائے اِس خطرے کے پیش ِ نظر اہل حق نے محبت کو دو قسموں میں
تقسیم کیا ہے ایک جنس سے محبت ایسی محبت نفس پرستی بھی کہلا تی ہے اِس وادی
میں طالب محبوب کی ذات کا اسیر ہو جا تا ہے دوسری قسم ایک جنس کی محبت کسی
غیر جنس کے ساتھ ہو اِس محبت میں اپنے محبوب کی کسی ادا پر سکو ن وقرار
حاصل کر نا ہو تا ہے تاکہ وہ آرام و راحت پا ئے ، عاشقوں کے سرتاج جلال
الدین رومی نے عشق مجا زی کو اپنی حکا یت میں اِسطرح بیان کیا ہے ۔ عارضی
حسن معشوق بنا نے کے قابل نہیں ہے عشق اِسی ذات سے ہو نا چا ہیے جو لا زوال
انسان کی ابتدا وہی ہے اور انتہا بھی وہی ہے اﷲ ہی شروع میں پیدا کر تا ہے
پھر وہی دوبا رہ پیدا کر ے گا پھر کم اس کے پاس لو ٹ کر جا ئے گا اﷲ کے وصل
کے بعد پھر کسی معشوق کا منتظر نہ بن وہی ظاہر ہے وہی باطن عاشق خدا احوال
پر حاکم ہو تا احوال کا محکوم نہیں ہو تا جو شخص احوال کے تابع ہے وہ کامل
نہیں فنا کے درجے پر پہنچ کر احوال عاشق کے تا بع ہو جا تے ہیں جس حال کی
اس کو خوا ہش ہو وہ پیدا ہو جا ئے گا وہ چاہے تو موت جیسی تلخ چیز بھی
شیریں بن جا تی ہے اور کانٹے پھول بن جاتے ہیں عشق کیسا جذبہ ہے کہ جب تیر
بن کے کسی کے دل میں پیوست ہو جا ئے تو محبت جب اپنے کمال کو پہنچ جا ئے تو
عاشق محبوب کا قیدی بن جاتا ہے اب تصور محبوب ذکر محبوب کے بغیر اس کا کہیں
بھی دل نہیں لگتا پھر محبوب کے چہرے پر تبسم دیکھنے کے لیے وہ ہر طرح کی
قربا نی کے لیے تیا ر ہو جا تا ہے عزت شہرت مال و دولت اپنی جان تک محبوب
کے قدموں میں نثار کر نے کو تیا ررہتا ہے جس طرح حضرت ذلیخا نے حضرت یو سف
کے عشق میں اپنا حسن جوانی مال و دولت سب قربان کر دی ذلیخا کے پاس ستر
اونٹوں کے وزن کے برابر ہیرے جو اہرات سونے چاندی تھا یہ سارا خزانہ عشقِ
یو سفی میں نثار کر دیا جب بھی کو ئی آکر اسے حضرت یو سف کی اطلا ع دیتا تو
وہ سو نے چاندی جوا ہرات سے نوا ز دیتی یہاں تک کہ کچھ بھی با قی نہ رہا اس
نے ہر چیز کو یو سف کہہ کر پکا ر نا شروع کر دیا تھا اور حضرت یوسف کے علا
وہ سب کچھ بھو ل گئی اسے آسمان یہ چاند ستاروں کی جگہ بھی حضرت یو سف ہی
نظر آتے بلا شبہ کائنات میں ہر طرف عشق و محبت کے جلو ے بکھرے ہو ئے ہیں
کائنات کی ہر چیز میں عشق کا نور نظر آتا ہے یہ نظر کیوں نہ آئے کیونکہ خا
لقِ کائنات نے اپنے محبوب کے لیے اِس جہاں رنگ و بو نظاروں سے سجا دیا اِس
کا ئنات کی تخلیق کے پیچھے بھی یہی جذبہ عشق یہی تو تھا جب خدا نے اپنے
محبوب کے کائنات میں رنگ و نور کے کروڑوں جلوے ہر طرف بکھیر دیے ۔ |