تار ِعنکعبوت

مکڑی کے جالے پرجب ہم بظاہر نظر ڈالیں تو ہمیں لہراتا ہوا بہت ناز ک سا دکھا ئی دیتا ہے جو ہما ری ایک پھونک ایک انگلی کی ذرا سی لرزش سے ٹو ٹ سکتا ہے چودہ سو سال قبل جب قرا ٓن میں اسے ایک کمز ور گھر سے تعبیر کیا گیا اور اس پر پوری ایک سور ۃعنکعبوت کے نا م سے اتاری گئی فر مایا ’’بے شک سب گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہو تا ہے کاش یہ لو گ علم رکھتے ،، بظا ہر اس کی صورت دیکھ کر سب ہی اس صداقت پر یقین رکھتے رہے کہ سب سے بودا گھر وہی ہے مگر ہم سب مسلما نوں کے لئے توقر آن میں کہی گئی ہر بات حرف آخر ہے اس دنیا کو بنا نے وا لے میرے رب نے ہر مثال میں کئی معنیٰ بہت تمثیلیں رکھ چھوڑی ہیں کہ ہے کو ئی جو اسے سمجھے ، غور کر ئے،عبرت لے اور با عمل بن جا ئے جدیدتحقیق کر نے والے سا ئنس دا نوں نے اس بظا ہر ناتواں نظر آنے والے گھر(مکڑی کے جا لے ) کے مکینوں پر بھی ریسرچ کی جس سے معلوم ہو ا کہ ما دہ مکڑی اولاد ہو نے کے بعد اپنے نر مکڑی کو ما ر کر گھر سے با ہر پھینک دیتی ہے اور یہی سلوک بچے بڑے ہو نے کے بعد اپنی ماں ساتھ کر تے ہیں اسے مار کر گھر سے نکال پھینکتے ہیں اف خدایا !اس خا ندانی نظام میں کس قدر دل دہلا دینے وا لی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ مگر ہم نہا یت دکھ کے ساتھ اس بات کو ما ننے پر مجبور ہیں کہ آج کے زمانے میں ایسی بے حسی و خود غرضی ہماری گھریلو زندگیوں میں در آنے لگی ہے بہتر ین سما جی نظام کا طر یقہ کا ر کیا ہونا چا ہئے اسے کیسے درست کیا جا ئے ایک سوالیہ نشان ہے جسے بڑے سے بڑے ما ہر ین بھی حل نہیں کروا پا رہے ۔ ایک مختصر سی زندگی میں ہم وہ سب کچھ حاصل کر لینا چا ہتے ہیں جو دوسروں کے پاس ہے بلکہ کسی سے چھین کر بھی ہمیں مل جا ئے توکچھ مضائقہ نہیں زندگی کو آسان و سہل بنا نے کے بجا ئے معیار زندگی کے اتنے بڑے بت تراش لئے ہیں کہ ہم اپنے آپ سے بچھڑی ہو ئی روح محسوس ہو تے ہیں۔

اس عہد کو ہم گلو بل ولیج یا الیکٹرانک عہد کا نام دیتے ہیں ہر چیز تبدیل ہو رہی ہے ایک نئی تہذیب ابھر کر سا منے آرہی ہے جس میں نئے طور طریقے، رہن سہن اور کا م کاج حتیٰ کہ ہمارے آپسی تعلقا ت اور محبتوں کا معیار بھی تبدیل ہو چکاہے نئے دور کے مطابق ڈھلنے والے پر عزم ہو کر نئے تقا ضے اپنا رہے ہیں اپنا اسٹیس اورمیعا ر زندگی کو اکیسویں صدی سے ہم آہنگ کر نے کی تگ و دو میں مصروف ہیں شہر وں کے پھیلا ؤ میں وسعت آئی ہے معاشی سر گر میاں بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے سما جی آزادی اور معیا ر زندگی بھی تبدیل ہوا ہے اب رشتہ دا روں سے دور رہنا سما جی تعلقات کو بڑھاوا دینے کے لئے ضروری سمجھا جا تا ہے سب ہی رسم رواج کے بندھن کو توڑ کر آگے بڑھنا چا ہتے ہیں نئی نسل کا المیہ یہ ہے کہ تبدیلی کے اس ادوار سے پہلے بھی جو کچھ تھا اس تہذیب و ثقا فت سے اسے نا بلد رکھا گیا اس لئے اسے شعور نہیں کہ وہ کیا گنوا کر آگے بڑھنا چا ہتی ہے وہ بد دلی کا شکار ہے مگر تیز رفتاری کے اس دور میں ہم کتنے تنہا ہو تے جا رہے ہیں مر بوط اور مشتر کہ خاندانی نظام کی روا یات ختم ہو ئی اب ہمارے ہاں ڈے کیئرسینٹر سے لے کر اولڈ ہا وس کھل گئے ہیں ماں باپ اولاد پر بو جھ بن گئے ہیں جن سے جلد از جلد جان چھڑا نے کی کو شش کی جا تی ہے کثیر المنزلہ فلیٹس جنکے چھوٹے چھوٹے کمروں میں ان شجر سا یہ دار بوڑھے والدین کی گنجا ئش کہاں رہی اب ہمیں کسی شاپنگ سینٹر ز یا تفریحی مقام پر فیملی کے ہمراہ کو ئی بزرگ سیٹیزن کم ہی دکھا ئی دیتے ہیں ہما رے پا س ان کے لئے وقت نہیں روز مرہ زندگی کی مصروفیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہما رے پاس اپنے پڑوسیوں کی خیریت جا ننے کا بلکل ٹائم نہیں انسان آگے بڑھ رہا ہے انسانیت پیچھے ہٹ رہی ہے آسائشیں زندگی میں ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں ہماری روح تنزلی کا شکار ہورہی ہے خلیل جبران کا یہ قول اس قدر خوبصورت ہے کہ بد بختی یہ ہے کہ میں اپنا خالی ہا تھ لو گوں کی طرف بڑھا ؤں اور کو ئی اس میں کچھ نہ رکھے اور ما یوسی یہ کہ میں اپنا بھرا ہو اہا تھ لو گوں کی جانب بڑھا ؤں اور کو ئی اس میں سے کچھ نہ لے ۔

مل جل کر رہنا بنیادی انسانی ضرورت ہے زندگی کا سکون گھر سے وا بستہ ہے مگر ہماراخاندانی نظام ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہے ہم دیکھتے ہیں ہمارے آس پاس طلاق کی شرح میں اضا فہ ہو رہا ہے خوشگوار گھریلو زندگی اب ایک خواب بن چکی ہے ٹو ٹتے بکھرتے روشتوں کو جو ڑنے کا وا حد حل برداشت حسن سلوک اور ایک دوسرے کا احترام ضروری ہے جو اب مفقود نظر آتا ہے ہماری زاوال کی بڑی وجہ انسانی اقدار اوراخلا قی تر بیت کی کمی ہے اس دنیا میں ہر انسا ن مل جل کر زندگی گذارنے پر مجبور ہے کسی لیے تنہا زندگی گذارنا ممکن نہیں ایسی حالت میں دوستوں کے سا تھ اپنے تعلقا ت بہتر بنا نے کی کو ششیں کی جا ئیں دوسروں کو جھکا نے کے بجا ئے خود جھک کرملنے کو شش کر یں اس دنیا میں محبت سب سے بڑا ھتیا رہے ایک دوسرے سے اچھے معا ملا ت رکھیں کہ دلو ں کو جیتنے کا یہی طر یقہ ہے اور جب دل جیت لیے جا ئیں تو زندگی سہل ہوجاتی ہے گارشیا مارکیز نے اپنی الوادعی نظم میں چا ہنے والے مدا حوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ’’ اگر خدا مجھے زندگی میں نئی مہلت دیتا ہے ، تومیں کم سوؤں گا ،خواب زیادہ دیکھوں گا ،محبت زیا دہ کرو ں گا ،خوش زیا دہ رہوں گا،،

افسوس کہ آج ہمیں لو ہے سیمنٹ سے بنے مکانوں میں نفرت کی لکیر تارِ عَنکعبوت جیسی نظر آتی ہے نازک آبگینے جنھیں ذراسی ٹھیس چکنا چور کر دے رب تعالیٰ کی بھیجی گئی آخری کتاب میں ہمارے لئے کس قدر معنی پنہاں ہیں کہ بظا ہر کمزور نظر آنے وا لے مکڑی کے گھر اور اسکے مکینوں کی زندگی کتنی نا تواں ہے نجا نے قر آن میں کہی گئی کتنے ہی مفہوموں کی کھو ج ابھی با قی ہے جسے سمجھنا ہے اور کون ہے جوسمجھ کر نصیحت بھی پکڑے۔

Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 146686 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.