بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم:ومن شر حاسد ا ذا حسدط
ترجمہ:’’اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے‘‘(پارہ 30سورۃ الفلق)
شان نزول:یہ سورت فلق کی آیت کریمہ ہے اور یہ اُس وقت نازل ہوئی جبکہ لبید
بن اعصم یہودی اور اس کے بیٹوں نے حضور سید دو عالم ﷺ پر جادو کیا ۔حضور
اکرم ﷺ کے جسم مبارک اور اعضاء ظاہرہ پر اس کا اثر ہوا ۔ قلب و عقل و
اعتقاد پر کچھ اثر نہ ہوا ۔ چند روز کے بعدسیدنا جبرائیل علیہ السلام آئے
اور انہوں نے عرض کیا کہ ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے اور جادو کا جو
کچھ سامان ہے وہ فلاں کنوئیں میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا ہے ۔حضور سید دو
عالم ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو بھیجا انہوں نے کنوئیں کا پانی
نکالنے کے بعد پتھر یا اُس کے نیچے سے کھجور کے گابھے کی تھیلی بر آمد ہوئی
۔ اِس میں حضور اکرمﷺ کے موئے مبارک جو کنگھی سے بر آمد ہوئے تھے اور حضور
اکرم ﷺ کی کنگھی کے چند دندانے اور ایک ڈوریا کمان کا چلہ جس میں گیارہ
گرہیں لگی تھیں اور ایک موم کا پتلہ جس میں گیارہ سوئیاں چبھی تھیں ۔ یہ سب
سامان پتھر کے نیچے سے نکالا اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر کیا گیا ۔
اﷲ تعالیٰ نے دونوں سورتیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نازل فرمائیں ۔
ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیات ہیں ۔پانچ سورۃ الفلق میں اور چھ سورۃ
الناس میں ۔ہر آیت کے پڑھنے سے ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی ۔یہاں تک کہ سب
گرہ کھل گئیں اور تاجدار مدینہﷺ بالکل تندرست ہو گئے ۔ (ترجمہ کنز الایمان
مع حاشیہ خزائن العرفان )
حسد کا مفہوم:حسد کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں کو اچھی حالت میں دیکھ کر جلنا
اور یہ خواہش کرنا کہ اس کی اچھی حالت بری حالت میں تبدیل ہو جائے اور اچھی
چیزیں مجھے حاصل ہو جائیں۔
حسد کا مطلب:حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اﷲ تعالیٰ نے جو نعمت کی
فضیلت یا خوبی عطا کی ہے اِس پر کوئی دوسرا شخص جلے او ریہ چاہے کہ وہ اس
سے سلب ہو کر حاسد کو مل جائے یا کم از کم یہ کہ اِس سے ضرور چھن جائے ۔
معزز قارئین! آپ نے حسد کا مفہوم اور مطلب بغور پڑھا کہ ایک شخص دوسرے شخص
کی چیزوں پر قابض ہونے اور جس پر خدائے ذوالجلال کی طرف سے کوئی خصوصی
عنایت ہو تو حاسد شخص اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ کونسا وقت ہو کہ اس
سے یہ نعمت کھس جائے اور مجھے مل جائے ۔حسد ہزار برائیوں کی جڑ ہے ۔قرآن
پاک اﷲ تعالیٰ کی آخری اور الہامی کتا ب ہے حسد کی مذمت اور حسد کی وضاحت
کے لئے نمونے کے طور چند جگہ سے چند باتیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں
تاکہ پتہ چل جائے کہ حسد نہیں کرنا چاہئے اور گناہوں کو اپنے ذمے جان بوجھ
کر نہیں لینا چاہیے ۔چنانچہ
پہلا قتل حسد کی بنیاد پر:سورۃ المائدہ میں مذکور حضرت آدم علیہ السلام کے
دومشہور بیٹوں (قابیل اور ہابیل)کے قصے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جب
قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی تو اُس نے حسد کی بنا پر اپنے بھائی ہابیل
کو قتل کر دیا اور قتل کا یہ واقعہ دنیا کا پہلا واقعہ تھا ۔ارشاد ربانی
ہوتا ہے :واتل علیھم نبا ابنی اٰدم بالحق اذ قربا قربانا۔۔۔۔ فقتلہ فاصبح
من الخٰسرین۔’’ترجمہ :اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب
دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ
ہوئی ۔بولا قسم ہے میں تجھے قتل کر دوں گا۔ کہا اﷲ اُسی سے قبول کرتا ہے
جسے ڈر ہے بے شک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں
اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں۔ میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو
مالک ہے سارے جہانوں کا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا تیرا گناہ دونوں تیرے
ہی پلہ پڑے تو تو دوزخی ہو جائے اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے تو اُس کے
نفس نے اُسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا تو اُسے قتل کر دیا تو رہ گیا نقصان
میں ۔‘‘(پارہ 6سورۃ المائدہ)
معزز قارئین!آپ نے مطالعہ کیا کہ حسد کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کو قتل کر
دیا ۔یہ دنیائے کائنات کا پہلا قتل تھا جو وقوع پذیر ہوا اور یاد رہے قیامت
تک جتنے بھی لوگ قتل ہوں گے یا قتل کئے جائیں اِن سب قتلوں کا وبال قابیل
پر ہو گا اور حسد کی ابتداء یہاں سے ہی شروع ہوئی ۔
یہود اور مشرکین کا حسد:یہود اور اہل کتاب دونوں نبی اکرم ﷺ سے اس بناء پر
حسد رکھتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفرا ز فرمایا تھا اِن پر
وحی کا نزول ہوتا تھا ۔یہود کا اعتراض یہ تھا کہ جب تمام انبیاء کرام بنی
اسرائیل میں آئے تو آخری رسول بھی اِس خاندان میں آنا چاہئیے تھا جبکہ آخری
رسول کا ظہور بنی اسماعیل میں ہوا اور مشرکین و کفار مکہ کو اعتراض یہ تھا
کہ اﷲ تعالیٰ نے مکہ اور طائف کے سرداروں میں سے کسی کو کیوں نبی نہیں
بنایا اور ایک غریب اور یتیم انسان کو نبوت جیسے عظیم منصب پر مبعوث کیا
گیا ۔ارشاد خدا وندی ہے کہ :وما یود الذین کفروا من اہل الکتاب۔۔۔۔ واﷲ ذو
الفضل العظیم ۔ترجمہ:’’وہ جو کافر ہیں کتابی یا مشرک ۔وہ نہیں چاہتے کہ تم
پر کوئی بھلائی اترے تمہارے رب کے پاس سے اور اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت سے خاص
کرتا ہے ۔جسے چاہے اور اﷲ تعالیٰ فضل والا ہے ۔‘‘(پارہ نمبر1سورۃ البقرہ)
حاسد کا محسود پر ظلم:حضرت یوسف علیہ السلام کے دس بھائی سوتیلے تھے جو ان
سے حسد رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب یوسف علیہ السلام نے نبوت سے متعلق خواب
دیکھاتو اُن کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو
حکماً کہا اور مزید تاکید فرمائی کہ اِس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ
کرنا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جس اندیشے کا اظہار کیا وہ بالکل سچ ثابت
ہوا۔رب العالمین ارشاد فرماتا ہے :’’بے شک یوسف اور اس کے بھائیوں میں
پوچھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں جب بولے کہ ضرور یوسف اور اسکا بھائی
ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں او رہم ایک جماعت ہیں ۔یوسف کو مار
ڈالو یا کہیں زمین میں پھینک آؤ کہ تمہارے باپ کا منہ صرف تمہاری طرف رہے
اور اسکے بعد پھر نیک ہو جانا۔‘‘(پارہ نمبر12سورۃ یوسف)
معزز قارئین :اب تک آپ نے اﷲ تعالیٰ کی لا ریب کتاب سے حسد کے بارے میں
جانا کہ حسد کی ابتداء کہا سے ہوئی اور کس نے کی ۔جس پر فضل خدا وندی ہو
اور دوسرا اُس کا شریک بننا چاہے ۔اس بات کی حسرت کرے کہ یہ چیز جو اس کے
سامنے یا پاس ہے کاش اِس سے چھن جائے اور میرے پاس آجائے ۔قرآن کریم نے حسد
جیسی برائی کو سب سے برا عمل قرار دیا ہے ۔یہی حسد ایک گھر میں بھی ہو تو
سارے کا سارا گھر تباہی و بربادی کے دہانے پر آکھڑا ہوتا ہے ۔اب آپ کے
سامنے فرمودات نبوی ﷺ کی روشنی میں حسد کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں
کہ سرکار مدینہ ﷺ نے حسد کی مذمت کرتے ہوئے کیا کیا ارشادات عالیہ فرمائے
ہیں ۔چنانچہ
حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے :حسد برائیوں کی جڑ ہے ۔ حسدسے نیکیاں برباد ہو
جاتی ہیں ۔ حسد بھائیوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرتا ہے ۔آپس میں بھائی بننے
اور بھائیوں جیسی شیر و شکر ہو کر زندگی گزارنے کے لئے حسدسے بچنا ضروری ہے
۔ اِسی لئے تو تاجدار کائنات ﷺ نے حسد سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔چنانچہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ
سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے کہ حسد سے اپنے آپ کو بچاؤ اس لئے کہ
حسد نیکیوں کو کھاجاتا ہے ۔جس طرح آگ لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔(ابو داؤد شریف
3/538)
حسد ایک بیماری ہے :حسد ایک موذی مرض اور بیماری ہے جس کا نقصان نہ صرف
حاسدکو اٹھانا پڑتا ہے بلکہ اس کے اثرات محسود تک بھی منتقل ہوتے ہیں ۔اِسی
لئے اِسے ایک وبائی مرض اور بیماری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ظاہری طور پر
دین سے وابستگی کے باوجود اس بیماری کی وجہ سے باہم عداوتوں اور نفرتوں کا
سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔مگر حقیقت میں دین سے بڑی دوری ہوتی ہے ۔اِس حسد
والی بیماری کی وجہ سے دین کی شکل و صورت خراب ہو جاتی ہے اور دین کی جڑیں
کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔رسول خدا ﷺ نے امت مسلمہ کو اِس بیماری سے محفوظ رہنے
کا حکم ارشاد فرمایا ۔چنانچہ
حضرت سیدنا زبیر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا پہلی
امتوں کی بیماریاں تم میں سرایت کر گئی ہیں اور وہ بیماریاں حسد اور بغض
ہیں ۔جو مونڈنے والی ہیں میری مراد اِس سے بالوں کا مونڈنا نہیں بلکہ دین
کو مونڈنا ہے ۔ یعنی یہ بیماریاں دین کی جڑکاٹ دیتی ہیں ۔(مشکوٰۃ شریف کتاب
الآداب)
جائز حسد یعنی رشک کرنا باعث رحمت :یوں تو حسد ہر حال میں اور ہر چیز کے
سلسلے میں ناجائز ہے مگر حدیث رسول ﷺ کے مطابق دو چیزوں میں جائز حسد یعنی
رشک جائز ہے ۔چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ کسی
شخص پر حسد کرنا اچھا نہیں مگر دو شخصوں پر ۔ایک تو اُس پر جس کو اﷲ تعالیٰ
نے قرآن یاد کرایا ہو وہ دن اور رات کے اوقات میں اسکو پڑھتا ہے ۔اِس پر
کوئی شخص حسد یعنی رشک کر کے یوں کہہ سکتا ہے کہ کاش مجھ کو بھی یہ نعمت
ملتی تو میں بھی اِسی طرح کیا کرتا۔ دوسرے اُس شخص پر جس کو اﷲ تعالیٰ نے
مال دیا ہے وہ اُس کو نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہئیے خرچ کرتا ہے ۔اِس پر
کوئی شخص یوں حسد یعنی رشک کر سکتا ہے کہ اگر مجھ کو بھی اِس طرح دولت ملتی
تو میں بھی ویسا ہی کرتا جیسے وہ کر رہا ہے ۔(بخاری شریف 1/260)معزز
قارئین! آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بڑی گہرائی سے معلوم کیا کہ حسد
تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ فرمان رسول ﷺ کی رو سے حسد نیکیوں کے ضیاع کا سبب
بن جاتا ہے ۔دوسرے مقام پر فرمان رسول ﷺ ہے کہ یہ دین کو مونڈنے والا ہے
۔یعنی دین کی جڑوں کو کاٹ دیتا ہے ۔ حاسد حسد کی وجہ سے جہاں اپنا نقصان
کرتا ہے وہیں پر وہ محسود کو ہر ممکن تکلیف پہنچانے کی بھی کوشش کرتا ہے
۔الغرض حسد کرنے والے کی دنیا و آخرت تبا ہ و برباد ہو جاتی ہے۔بہر حال
حاسد کا حسد بھی ایک شر ہے۔اِس سے بچنے کے لئے اﷲ تعالیٰ سے پناہ مانگنی
چاہئے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا سہارا لینا چاہیے ۔ (آمین) |