میں جاننا چاہتی ہوں

میں بے قرار روح ہوں جو کائنات کے گرد اپنی خودی میں سفر کرتی ہوں اور میں جاننا چاہتی ہوں میں کیا جاننا چاہتی ہوں ؟ یہ میں آپ کو بتاتی ہوں۔آج سے تقریباً ساڑھے سات سال قبل پندرہ اگست دو ہزار دس کو دو نوجوان بھائی منیب اور مغیث اک بھرے بازار میں درجنوں لوگوں کے درمیان انتہائی ظالمانہ طریقے اور بے دردی سے مارا گیا۔اب تو شاید کسی کو یاد بھی نہیں رہا ہوگا کہ ایسا کچھ واقعہ وقوع پذیر ہوا تھا کیونکہ ہم پاکستانی بہت بھولی بھالی قوم ہیں کسی واقعہ کو بس اتنی دیر تک یاد رکھتے ہیں جب تک میڈیا کی جانب سے ’’چٹ پٹا مصالحہ دار‘‘پکوان کی طرح پیش کیا جاتا رہتا ہے کسی سال کیس التواء کا شکار کرکے لوگوں کے ذہن سے اس واقعہ کو نکال کر ملزمان کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہوگی میں جاننا چاہتی ہوں قصوروار کون؟ میں،آپ یا اْن بھائیوں کا ارزاں خون جو ناحق مارے گئے۔۔میں جاننا چاہتی ہوں 8 جون 2011 کو سرعام کراچی کی مصروف شاہراہ پہ نوجوان سرفراز شاہ کو رینجر کی طرف سے گولیاں ماری گئی مقدمے کے فیصلے میں ایک اہلکار کو سزائے موت اور دیگر چار کو عمر قید کی سزا سْنادی گئی وقت گزرنے کے ساتھ ہم اس بات کو بھولتے گئے اور رحم کی اپیل میں صدر صاحب نے تمام لوگوں کو معافی عنایت کردی کیا یہ قانون ہے کہ آپ سرعام گولیاں چلاتے پھرے اور بعد میں معافی نامہ بھی آپ کو مل جائے مجھے جاننا ہے ایسا کیوں ؟؟ کیا اتنا ارزاں خون ہے میرے ملک میں بسنے والے انسانوں کا۔مجھے وہ وقت بھی یاد آتا ہے جب لودھراں کے ایک بااثر سیاسی خاندان کے بگڑے نواب مصطفیٰ صدیق کانجو نے لاہور میں پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی زین کو اپنی گاڑی اوورٹیک کرنے سے غصے میں آکر اپنی گاڑی سے کچل دیا تھا اور بعد میں اپنا اثررسوخ استعمال کرتے ہوئے اور اس مجبور خاندان کو ڈرا دھمکا کر صْلح کے لیے آمادہ کیا تھا کیا یہی قانون ہے کہ کسی کو کوئی بھی امیر زادہ مار ڈالے اور بعد میں چند پیسے دے کر اپنی خلاصی کرالے۔مجھے اب بھی یاد پڑتا ہے کہ اپنی بہن کو چھیڑنے سے منع کرنے پر کراچی کے شاہزیب کو بااثر اور بگڑے نوابزادے شاہ رخ جتوئی کی جانب سے فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بیچارہ قتل کردیا گیا اس کے کیس کو اتنا طویل کیا گیا کہ اس کا باپ تنگ آکر صلح کرکے اپنے خاندا ن کو لے کر کہیں روپوش ہوگیا کیونکہ ملزمان کی جانب سے ان سب کی جانوں کو بھی خطرہ تھا چھوڑیئے اب جو اس کیس کے حوالے سے ہورہا ہے وہ فقط وقت گزاری اور جان بوجھ کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا کام رہ گیا ہے۔
بس آپ یہ فکر کیجیے کہ ہم کہاں سے کہاں نکل گئے ہیں ہم کس ماحول میں جی رہے ہیں ہمارا جینا تو ایسا نہیں تھا۔ہم تو پیارے ابوبکرؓکے دور والے لوگ ہیں ہم تو عمر فاروقؓ کے رستے پہ چلنے والے لوگ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ اگر عمر فاروق ؓ کی خلافت میں اگر دورپار دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرگیا تو عمر ؓ اْس کا حساب دے گا لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔۔سیل رواں کی طرح خود کی حالت پہ آنسو ہی بہائے جاسکتے ہیں خبردار آپ رتی برابر بھی کوشش نہ کیجیے گا خود کو اور زمانے کو بدلنے کی کیونکہ میں اور آپ سب بے حسی اور بے بسی کی موت مرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔

Maryam Naz
About the Author: Maryam Naz Read More Articles by Maryam Naz: 32 Articles with 29604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.