جوڈیشل ایکٹوازم (Judicial Activism)

 پاکستان میں جوڈیشل ایکٹو ازم بہت بڑھ گیا ہے جسکے محرکات اور اثرا ت کو جاننا ضروری ہے لیکن آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ Judicial Activismسے کیا مراد ہے ؟جوڈیشل ایکٹوازم دراصل ایسی عدالتی روش کا نام ہے جہاں عدالتیں مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین کو آئین سے متصادم ہونے کی بنا پر کالعدم قراردیتی ہیں،اپنی سابقہ روایات اور فیصلوں سے ہٹ کر نئی مثالیں قائم کرتی ہیں اور آئینی نکات کو redefineکرتی ہیں۔ جوڈیشل ایکٹوازم کے مخالف جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے اسے Judicial Restraintکہا جاتا ہے جہاں عدالتیں رائج الوقت قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں ، آئین کی کوئی نئی تشریح نہیں کرتیں اور اپنے سابقہ فیصلوں کو upholdکرتی ہیں ۔

وکلاء تحریک کی کامیابی کے نتیجہ میں بحال ہونے کے بعد افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پاکستانی عدلیہ جوڈیشل ایکٹو ازم کی راہ پر چل نکلی اور انکے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے بھی اسی روش کو اپنایا۔ موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کی سربراہی میں عدلیہ نے اپنے آپ کو مزید expandکیا جس سے ریاست کے تین بنیادی ستونوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو واضح کرنے والی لکیریں کچھ دھندلی نظر آنے لگی ہیں ۔ جوڈیشل ایکٹوازم کے مخالف یہ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ حدود سے تجاوز کر رہی ہے جبکہ حامیوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اور مقننہ کی inefficiencyکی وجہ سے ریاست میں جو خلا پیدا ہو رہا ہے عدلیہ اسے پر کر رہی ہے جبکہ عدلیہ کااپنا concernیہ ہے کہ governanceٹھیک نہیں ہورہی ۔ حکومتیں عام آدمی کے بنیادی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ایسے میں شہری انصاف اور اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدلیہ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ پہلے عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت آمروں کا ساتھ دیتی تھی اب عدالتیں عوامی فلاح کے نظریہ کے تحت عوام کے ساتھ کھڑی ہیں ۔جمہوریت عوامی خدمت کا نام ہے اور اگر عدالتیں بھی اس خدمت میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہیں تو پھر تنقید کیوں ؟عوام کی خدمت دوسرے جمہوری ادارے کریں تو قابل ستائش اور عدالت کرے تو سازش، ایسا کیوں؟

آئینی طور پر طے شدہ امر ہے کہ گورننس حکومت ، قانون سازی مقننہ اور تشریح عدالت کا کام ہے تاہم موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں عدلیہ ایسے معاملات کو take upکر رہی ہے جو یا تو پارلیمنٹ کے اندر طے ہونے چاہیے یا پھر انتظامیہ کو ان پر ایکشن لینا چاہیے ۔ اس پر حکومت اور انتظامیہ کی بہت ساری reservationsہیں اور وہ اسے انتظامی معاملات میں عدالتی مداخلت سمجھتے ہیں مثلا صحت، تعلیم ، روزگار، ٹرانسپورٹ، لاء اینڈ آرڈر وغیرہ انتظامی معاملات ہیں لیکن آئے روز اعلیٰ عدالتیں ان معاملات پر از خود نوٹس لے رہی ہیں ۔ صاف پانی ،مضر صحت دودھ ، ناقص طبی سہولیات ، زینب، اسماء، عاصمہ ، نقیب اﷲ محسود قتل کا مسئلہ ہو یا راؤ انوار کی گرفتاری یہ سارے معاملات عدالت عالیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیئے ہیں ۔ عدالت کی thinkingیہ ہے کہ وہ مفاد عامہ کے کام کر رہی ہے اور public interest litigationکے تحت یہ معاملات ان کے دائرہ کار میں آتے ہیں لہذا وہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کر رہی بلکہ اپنا آئینی اور قانونی اختیار استعمال کر رہی ہے ۔عدالت کا ان معاملات کو take upکر نے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ایک سائل ہر طرف سے مایوس ہو کر عدالت کو انصاف کیلئے پکارتا ہے تو کیا عدالت اسکی پکار پر کانوں میں روئی ڈال لے یا پھر اسے یہ کہہ کر خالی ہاتھ لوٹا دے کہ ہمارے پاس تمہاری فریاد سننے کا اختیار نہیں یا ہم تمہا ری دادرسی نہیں کر سکتے اور اگر عدالت سے بھی مایوس ہوکر وہ فریادی خود سوزی کر لے تو اسکا خون کس کی گردن پر ہوگا ؟انصاف کی فراہمی عدالتوں کا بنیادی کام ہے اسکے لیئے کسی قانون کے تحت عدالت کے پاس اختیار کا ہونا یا نہ ہونا معانی نہیں رکھتا۔ جہاں عدالت کو اختیار نہیں بھی ہوتا لیکن تمام معاملے کی چھان بین کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ سائل کی دادرسی ہونی چاہے تو ساری دنیا کی عدالتی تاریخ یہ کہتی ہے کہ عدالت کو متاثرہ شخص کی داد رسی کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑتا ہے کیونکہ اگر عدالتیں ایسا نہیں کریں گی تو پھر کوئی فریاد لیکر ان کے پاس نہیں جائے گا ۔

جب سے عدالت عالیہ نے عوامی نوعیت کے مسائل پر از خود نوٹس لینا شروع کیا ہے ریاست پاکستان میں ایک کھلبلی سی مچ گئی ہے ۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے وہ طوفان نہیں آیا تھا جو نواز شریف کی نا اہلی سے آیا ہے ۔ نہال ہاشمی کی جیل یاترا نے طاقتور حلقوں کویہ پیغام دیا ہے کہ اب قانون کی حکمرانی نافذ کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ ناقص پانی اور دودھ سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر پابندی سے لیکر غیر معیاری stentsبنانے والوں پر مضبوط ہوتی عدالتی گرفت عوام کو بیوقوف بنانے والی بزنس کلاس کیلئے اشارہ ہے کہ اب وہ مزید عوام کی صحت سے نہیں کھیل سکتے ۔ زینب، اسماء، عاصمہ اور نقیب اﷲ محسود قتل کے معاملات پر نااہل پولیس اور بیوروکریسی کی سرزنش یہ کہتی ہے کہ اب ایئر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کرخانہ پوری کرنے کا وقت گزر گیا۔یہ سب عوامی فلاح اور بنیادی انسانی حقوق کے معاملات ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان معاملات کو take upکرکے عام آدمی کا اعتماد حاصل کیا ہے اور لوگوں کی سپریم کورٹ سے بہت امیدیں وابستہ ہو گئی ہیں ۔ انہیں یہ محسوس ہو نے لگا ہے کہ ایک ایسا فورم موجود ہے جہاں انکی شنوائی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو اسکا ایک مثبت پہلو ہے لیکن منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے سپریم کورٹ اپنے اصل کام سے بڑی حد تک ہٹ گئی ہے اور اسے وہ کام کرنے پڑ رہے ہیں جو بنیادی طور پر ضلعی انتظامیہ کے چھوٹے موٹے افسران کے کرنے کے کام ہیں ۔ مثلا ناقص پانی یا دودھ کا مسئلہ صوبائی یا ضلعی انتظامیہ کو دیکھنا چاہیے وہاں کی لوکل فوڈ یا ہیلتھ اتھارٹیز اس پر کاروائی کرئے ۔ راؤ انوار کی گرفتاری سندھ پولیس کے کسی ایس ایچ او کو کرنی چاہیے ۔ زینب ، اسماء اور عاصمہ کے قاتلوں کی گرفتاری متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او اور ڈی پی اوکی ذمہ داری ہے اور ان پر متعلقہ ضلع کی عدالت میں کاروائی ہونی چاہیے لیکن یہ معاملات سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں اور ایک تھانیدار کا کام سپریم کورٹ کر رہی ہے ۔ ان تمام معاملات کے سپریم کورٹ پہنچ جانے کی وجہ سے وہاں کام کا اتنا بوجھ ہو گیا ہے کہ چھٹی والے دن بھی عدالت لگانی پڑتی ہے ۔ دوسری طرف حکومت اور بیوروکریسی نے یہ طے کر لیا ہے کہ ٹھیک ہے اگر سپریم کورٹ ہمارا کام کر رہی ہے تو پھر ہمیں ہاتھ پیر ہلانے کی کیا ضرورت ہے ۔

دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ ملک کی آخری عدالت ہے ۔ مقدمہ بازی کا اصول یہ ہے کہ مقدمہ ابتدائی عدالت سے شروع ہو کر آخری عدالت میں ختم ہوتا ہے ۔ ابتدائی عدالت وہ ہوتی ہے جسے کسی معاملے میں ابتدائی سماعت کا قانونی اختیار حاصل ہوتا ہے اور آخری عدالت وہ ہوتی ہے جو ابتدائی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حتمی اختیار رکھتی ہے ۔ یہ مقدمہ بازی کا standard procedureہے جسکا فائدہ یہ ہے کہ اگر ابتدائی عدالت غلطی کرئے تو آخری عدالت اسکی درستگی کرکے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔اب ہو یہ رہا ہے کہ مقدمے ابتدائی عدالت سے شروع ہونے کی بجائے آخری عدالت میں شروع ہو کر کچھ وہی ختم ہو رہے ہیں اور کچھ وہاں سے ابتدائی عدالت کو بجھوائے جا رہے ہیں جو کہ مقدمہ بازی کے بنیادی اصول کی نفی ہے اور ایسی صورت میں نہ صرف انصاف کی فراہمی بلکہ ججز کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ انصاف کی فراہمی میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جامع اور واضح عدالتی پالیسی بنائی جائے تاکہ انتظامیہ اور مقننہ سے ٹکراؤکی صورت حال پیدا نہ ہو۔ عدالت کو لازمی طور پر ایک معیارمقرر کرنا ہوگا تاکہ وہی معاملا take upہو جواس معیار پر پورا اترئے ۔
 

Zahid Abbasi
About the Author: Zahid Abbasi Read More Articles by Zahid Abbasi: 24 Articles with 26251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.