آپ کبھی پاکستان کے کسی بھی شہر کا دور ہ کرلیں آپ کو بہت
سے قصائی نظر آئیں گے جو انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔اس ملک کا نظام
دیکھیں کہ آپ کچھ ملے یا نہ ملے انسانی جانوں کو چیڑنے پھاڑنے کا لائسنس
بغیر اجازت مل جائے گا۔آپ آج کوئی بھی دکان کھول لیں اشیاء تیار کریں اس
میں گھٹیا سے گھٹیا مال شامل کریں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔آپ دودھ میں
پانی ملا لیں یا پاوڈر کوئی نہیں پوچھے گا کیوں کہ لوگوں کو چاہیے تو بس
سستی اشیاء یہ نہیں دیکھنا کہ کیا جو چیز ہم خرید رہے ہیں کیا خالص بھی ہے
یا نہیں ؟کیا یہاں صفائی کا نظام بہتر ہے؟کیا یہ بیکری کا سامان تیار کرنے
والامعیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں ؟دکاندار حضرات سوچیں کیا جو چیز ہم
لوگوں کو دینے جارہے کیا یہ محفوظ ہے۔کیا ہم اپنے حقوق ادا کررہے ہیں ۔آپ
پاکستان میں موجود ان تمام مقامی و دیگر بیکریز کا حال دیکھ لیں جو
مٹھائیاں اور میٹھی چیزیں وغیرہ تیار کرتی ہیں۔آپ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ
یہ چیزیں جس برتن میں تیار ہوتی ہیں ان برتنوں میں میل کی تہیں جمی ہوں
گی۔آپ کو سڑکوں میں فٹ پاتھوں پر کئی تعداد میں ریڑھیاں نظر آئیں گی جس میں
ناقص چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔یہاں سیب کو رنگ لگا کرسرخ کیا جاتا ہے۔یہاں پر
گندے پانی سے تیار شدہ سبزیاں نظر آئیں گی۔یہاں مردہ گوشت سے تیار کردہ
کھانے ملیں گے ۔یہاں گلے سڑے آلو سے تیار شدہ جپس ملے گی۔یہاں ریسٹورنٹ میں
کئی دن کا باسی کھانا ملے گا۔حتیٰ کہ ہر انسان یہاں اپنے مفاد کی خاطر
لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے مگرافسوس صد افسوس ان کی روک تھام یقینی
نہیں بنائی جارہی۔ان لوگوں کے پاس کیا اختیارہے کہ یہ لوگ انسانی جانوں سے
کھیلیں۔انہیں کھلی چھٹی اس لیے حاصل ہے کہ ان کا گھیرا ابھی تنگ نہیں کیا
گیا۔میں اکثر یہاں غذائی خرید و فروخت کے حوالے سے جائزہ لیتا ہوں جب یہ
حالتِ زار دیکھتا ہوں توبہت دکھ ہوتا ہے۔آخر اس کے لیے کیوں اقدامات نہیں
کیے جاتے۔میں جانتا ہوں یہاں حکمران صاحبان کو اس کی فکر نہیں کیوں کہ
انہیں سب آسائشیں میسر ہیں انہوں نے یہاں چکر لگا کر نہیں دیکھا کہ یہاں
نچلے درجے کے افراد کیسی غذائیں کھانیں پر مجبور ہیں۔یہاں لوگوں کو صاف
پانی ،صاف کھانا نہیں مل رہا۔ان لوگوں کو انسانوں نے ہی ووٹ دے کر منتخب
کیا ہے۔غریب کا خیال رکھنا، حفاظت و ذمہ داری کا کام انہی حکمرانوں کے سپرد
ہے۔آپ کبھی پاکستان کے دیہاتوں کا وزٹ کرلیں۔دیہاتوں کے چھوڑیں بڑے شہروں
کا وزٹ کرلیں آپ صحت کے معاملات میں حکومتی لاغرضی دیکھ کر پیٹنے پر مجبور
ہوجائیں گے۔یہاں پھل و سبزیاں کیسے محفوظ کر کے فروخت کی جاتی ہیں آپ
دیکھیں۔یہاں سڑکوں کے اردگرد لگے ٹھیلے دیکھیں۔کس طرح دیہاڑی کرنے والے
اپنے ہی لوگوں کو چونا لگاتے ہیں۔آپ ایک ہی دن کسی بھی شہر کارخ کرلیں آپ
کو اسی دن اندازہ جائے گا۔آپ کوہزاروں کی تعداد میں کھانا،سموسہ ،برگرو چپس
وغیر تیار کرنے والی معمولی دکانیں نظر آئیں گی اور آپ کھانا بنانے والے
لوگوں کی حالت زار اور لباس دیکھئے گا ۔
ہم آتے ہیں کہ ان ٹھیلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ۔ان کی تعداد میں مسلسل
اضافے کی کیا وجہ ہے۔اس کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری و غربت ہے جنہیں
روزگار نہیں ملتا وہ عام شہروں ومحلوں میں معمولی دکانیں کھول لیتے ہیں
یاکسی نے ریڑھی پر چپس لگا لی تو کسی نے سموسے اور وہی شخص آپ کو اک دن نظر
آئے گا پھر اس کے بعد کئی ماہ بعد اسی شخص کو سموسے و چپس وغیرہ کی بجائے
اس کے ٹھیلے میں کوئی اور چیز دیکھیں گے ۔آپ کسی جگہ کھانا و ناشتے والی
ایک دکان دیکھیں گے پھر کچھ ماہ بعد دیکھیں گے اس کے ساتھ ہی اس کے مقابلے
میں کوئی ایسی دوسری دکان موجود ہوگی۔آپ کبھی ان پھیری والوں کا جائزہ
لیجئے گا ۔آپ کو پھیری والاگندا جوتا اٹھاتا ہوا نظر آئے گا اور اسی ہاتھ
سے بچوں کو چیزیں دیتا نظر آئے گا۔آپ ان کے لباس پر بھی غور کیجئے گا۔
آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں مل رہا ہے ۔چاہے یہ
لوگ زہر بھی ڈال کر بیچتے رہے تو پھر بھی لوگ ان سے خریدیں گے اور یہ لوگ
اگلے دن آپ کو نظر نہیں آئیں گے ۔صحت کامعاملہ انتہائی سنگین ہے چٹکی بھر
زہر بھی انسان کی جان لے سکتی ہے۔ صفائی کا نظام بہتر سے بہتر بنانا
ہوگا۔جو صفائی کا انتظام نہیں رکھتا اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کوئی دکان
کھولے ۔
میں جانتا ہوں پاکستان میں ایک مسئلہ نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مسائل
ہیں ۔اور یہ سب مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں کیے جا سکتے۔مگر ان کے ساتھ
نمٹنے کے لیے کوئی واضح و ٹھوس حکمت عملی اپنانے کی بجائے بالکل خاموشی
کیوں اختیار کی جاتی ہے۔آج چاروں صوبوں کے وزیراعلیٰ صاحبان کو اس مسئلے کا
حل سوچنا ہوگا۔مقامی حکام کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔مقامی
حکمرانی کا سسٹم انتہائی کمزور ہے جو رشوت و سفارش پر پلابڑھا ہے ان کی
توجہ ان مسائل پر نہیں ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔اس مسئلے کی وجہ سے
ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں زندگیاں خطرے میں ہیں۔جو ناقص غذا کی وجہ سے
اکثر موت کے منہ چلے جاتے ہیں۔اس کے لیے ایک صاف شفاف نظام ترتیب دیا جانا
چاہیے۔یہاں چاہے کوئی معمولی سی دکان کھولنا چاہتا ہے حتٰی کہ وہ ٹھیلہ اور
ریڑھی بھی لگانا چاہتا ہے تو وہ حکومت کی اجازت کے بغیر نہ لگا سکے۔اس کے
لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس کا معائنہ کرے اور دکان دار ہو یا
کوئی سبزی والا چاہے کوئی بیکری والا ہو یا دودھ بیچنے والا یا کوئی بھی
غذا فروخت کرنے والاہو۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک حلف نامہ تیار کی جائے جس
میں تمام شرائط موجود ہوں ۔میں صفائی کاخاص خیال رکھوں گا میں کسی چیز میں
ملاوٹ نہیں کروں گا میں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔میں اپنا
کام دیانت داری کے ساتھ کروں گا۔میں اپنے شعبے کو اپنے مفاد کی خاطر نہیں
استعمال کروں گا۔اگر میں کوئی بھی ملاوٹ کرتا ہوں یا میری کوئی بھی تیارہ
کردہ چیز صحت کے معیار پر پورا نہیں اتری یا کوئی بھی میری تیارہ کردہ چیز
میں خامی دیکھتا ہے تو حکومت میرا اجازت نامہ منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے
سزا کا مرتکب ٹھہرا سکتی ہے۔یہ حلف نامہ ہر دکاندار کے باہر چسپاں کیے
ہو۔اگر کوئی بھی روگردانی کرتا ہے کوئی بغیر حکومت کی اجازت کے بغیر ایک
معمولی سا ٹھیلہ بھی لگاتا ہے اس کے لیے کڑی سے کڑی سزا مقرر ہو۔جس میں قید
اور جرمانہ بھی ہو۔اور یہ کمیٹی ہر پندرا دن بعد یا ہر ماہ بعد تمام دکانوں
کا وزٹ کرے اور تمام انتظامات کی چیکنگ کرے۔کوئی خریدار بھی چیک کرنا چاہتا
ہو تو چیک کر سکے۔یقین مانے اگر اسی طرح صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے اس طرح
دیانت داری و ایمانداری کے ساتھ حکمت عملی اپنائی جاتی ہے تو پاکستان میں
یوں لاکھوں اموات نہ ہو۔یوں پاکستان میں ناقص غذاء کھانے کی وجہ سے لوگ نہ
مریں۔یہاں سرعام ملاوٹ نہ ہو۔یہاں موذی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ نہ ہو۔باقی
معاملات اپنی جگہ مگر غذائی اشیاء کی فراہمی میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت
نہیں ہوسکتی۔کسی کو یوں انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی
جاسکتی۔تمام معاملات بالخصوص صحت کے معاملے میں صفائی ہونی چاہیے ۔تمام
وزراء و مشیر ابھی آج ہی اس معاملے پرسنجیدگی اختیار کریں اور ایک دن اپنے
آرام دہ کمرے سے اٹھے اور یہاں غذائی اشیاء کی عام آدمی تک رسائی کا نوٹس
لیں ایک ہی دن میں اندازہ ہوجائے گا۔ |