حکومتی یونیورسٹیاں اپنی بہترین کارکردگی کے باوجود آج کل
تنقید کا نشانہ ہیں۔لگتا ہے بہانے بہانے سے کچھ لوگ ان یونیورسٹیوں کو
ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں۔پرائیویٹ یونیورسٹیاں اپنی تمام تر نالائقیوں اور ناقص
کارکردگی کے باوجود بہترین قرار پاتی ہیں۔ان یونیورسٹیوں میں کچھ ہو جائے
فوراً کیمو فلاج ہو جاتا ہے۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن اورہائر ایجوکیشن کی
وزارت کی نظر کرم بھی انہی حکومتی یونیورسٹیوں پر ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں
جہاں نظر رکھنے کی ضرورت ہے ، شتر بے مہار ہیں ۔ مگر اس کے باوجود وہاں کسی
کی نظر نہیں جاتی۔ پنجاب یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی ،بہاؤ الدین ذکریا
یونیورسٹی اور دیگر سرکاری یونیورسٹیاں آئے دن خبروں کی زینت ہوتی ہیں۔
ملتان میں ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا۔ واقعہ گھٹیا اور شرمناک تھا۔مگر
یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود بعض زرد صحافت کے علمبرداروں نے
اسے یونیورسٹی سے جوڑ دیا۔کیوں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ایک لڑکااو ر ایک
لڑکی کی آپس میں دوستی تھی جو کہ آجکل ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ میں پرانے
وقتوں کی قدروں کا علم بردارہوں جسے اس طرح کی دوستی ہی نہیں یہ با ت کہنا
بھی ناگوار لگتی ہے۔میری قدروں میں یہ دوستی نہیں فضول قدروں اور راہ روی
کا راستہ ہے۔ لڑکا ساتھی لڑکی کو شادی کا جھانسہ دے رہا تھا۔ لڑکی شادی کے
یقین میں اپنی عزت گنوا بیٹھی۔ بات یہاں تک رہتی تو شاید کسی کو پتہ نہ
چلتا۔ لڑکے نے یہ سوچ کر کہ لڑکی اب برائی کی طرف گامزن ہے دوستوں کو بھی
دعوت دے دی۔ وہ سب لڑکی کے پیچھے تھے۔لڑکی جو لڑکے کے ساتھ شادی کے چکر میں
تھی ،پریشان ہو گئی ۔اسے ساری دھوکے بازی سمجھ آ گئی۔ اس نے کھلونا بننا
قبول نہ کیااور نہ صرف لڑکا کا کہا ماننے سے انکار کیا بلکہ اس سارے واقعے
کی پوری تفصیل پولیس کو بھی بتا دی۔
لڑکی، لڑکا اور لڑکے کے دوستوں میں زیادہ تر کا تعلق بہاؤ الدین زکریا
یونیورسٹی سے تھا وہ وہاں طالبعلم تھے۔ واقعہ یونیورسٹی سے باہر کسی اور
جگہ ہوا تھا۔ پولیس نے ملزموں کی تلاش کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی
رابطہ کیا۔ انتظامیہ نے پورا تعاون کیااور ملزم گرفتارکر لئے گئے۔ اس سارے
واقعے میں یونیورسٹی کا کیا قصور، یہ بات سمجھ نہیں آتی مگر زرد صحافت کے
علمبرداروں کا کچھ نہ کچھ ٹارگٹ ہوتا ہے مگر اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر
ڈاکٹر طاہر امین جیسے اجلے آدمی سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ویسے
یونیورسٹیوں میں ایسی صورتحال کا تدارک کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔پمرا کو
سیاسی خول سے باہر نکل کر ایسے واقعات کا نوٹس لینا چائیے اور بھر پور
کاروائی کرنی چائیے تاکہ آئندہ کے لئے زرد صحافت کے علم برداروں کی حوصلہ
شکنی ہو اور وہ دوبارہ ایسی جرات نہ کر سکیں۔
میں ذاتی طور پر صحافتی آزادی اور انسانی حقوق کا پوری طرح حامی ہوں ۔ مگر
کسی کی ذاتی زندگی کو کریدنا ، اس پر کیچڑ اچھالنا ، کسی ایک بہانے سے اس
کی شخصیت کو مسخ کرنا آزادی صحافت نہیں۔یہ ذاتی زندگی کسی ایک شخص کی بھی
ہو سکتی ہے اور کسی ادارے کی بھی۔خصوصی طور پر وہ لوگ جو لوگوں کی زندگیوں
کو کریدتے، خفیہ طور پر ان کے بارے منفی چیزیں تلاش کرکے افسانہ بنا کر پیش
کرتے یا تعلق نہ ہونے کے باوجود کسی شخص یا ادارے کو اس میں خوامخواہ ملوث
کرتے اور اس بلیک میلنگ سے مفاد حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں، یقیناً قابل
مذمت ہیں۔انہیں صحافی کہنا صحافت کے ساتھ زیادتی ہے۔ بہت ساری ایسی خبریں
جن کا ہمارے کلچر اور ہماری ثقافتی روایات کے حوالے سے ہمارے بچوں اور
نوجوانوں پر منفی تاثر آتا ہے۔ میڈیا کے بعض لوگ خصوصاً ہمارے چینل ایسی
خبروں کو بار بار دکھاتے اور اس کے بارے غیر ضروری تبصرے کرتے ہیں۔ یہ
باتیں معاشرتی برائی کے ضمن میں آتی ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ حکومت ہی اس کے
بارے کوئی کاروائی کرے۔ صحافتی انجمنوں کی بھی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ
افہام و تفہیم سے اس مسئلے کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات کریں۔ |