لوگ ہنستے رہتے ہیں، بعض تالیاں بھی بجاتے ہیں اور بعض
واہ واہ اور سبحان اللہ بھی کہتے ہیں، شیخ رشید جب بلاول بھٹو کو ایک فلمی
اداکارہ سے تشبیہ دیتے ہیں تو لوگ ہنستے ہیں، عمران خان جب آزاد کشمیر کے
وزیراعظم کو ذلیل اور گھٹیا انسان کہتے ہیں تو لوگ تالیاں بجاتے ہیں اور
پیر طریقت خادم رضوی جب ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت دوسروں کے بارے میں نازیبا
زبان استعمال کرتے ہیں تو مجمع واہ واہ اور سبحان اللہ کہتا ہے۔ مسلمانوں
کے دینی مدرسوں میں دہشت گردوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے تو لوگ آنکھیں موندھ
لیتے ہیں، مشال خان کو یونیورسٹی میں قتل کیا جاتا ہے تو عوام قاتلوں پر
پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ایک فرقے کے اجتماع میں
دوسرے فرقے کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو لوگ اچھل اچھل کر
نعروں کے جواب دیتے ہیں، یہ سب کچھ ظاہر کر رہا ہے کہ ہمارے اجتماعی اور
سماجی و سیاسی کلچر کو اب اسی سمت لے جایا جا رہا ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ
دشمن طاقتیں ایکدم تو پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کو دینِ اسلام سے بیزار
اور متنفر نہیں کرسکتیں، لٰہذا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں سے غیرت ایمانی
کے خاتمے اور حرام کاموں سے نفرت کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے۔ لوگ جب اپنے
سیاستدانوں کی زبان سے نازیبا الفاظ سنتے ہیں تو انہیں اپنی روزمرّہ زندگی
میں بھی نازیبا الفاظ کے استعمال میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی اور اسی
طرح جب ٹیلی ویژن پر فحاشی دیکھتے ہیں تو عام زندگی حتٰی کہ اپنے گھرانوں
اور شادی بیاہ کی محفلوں میں بھی بے حجابی اور عریانیت سے کراہت محسوس نہیں
کرتے۔
آج ایک دم سے لوگوں کو کافر نہیں کیا جا سکتا اور حرام کو حلال نہیں کہا
جاسکتا، لہذا بتدریج لوگوں کے دلوں سے کفر اور حرام کی نفرت کو کم کیا جا
رہا ہے۔ آج لوگوں کو جہاد سے بیزار کرنے کے لئے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں
ہتھیار تھما دیئے گئے ہیں اور کفر جیسے لفظ کے وزن کو ختم کرنے کے لئے مشال
جیسے بے گناہ طالب علم کو قتل کروا دیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق بے
حیائی صرف ٹیلی ویژن پر گانے بجنے اور بے حجاب عورتوں کو دیکھنے کا نام
نہیں ہے بلکہ گالیاں دینے والے، بداخلاق، شرابی اور بدمعاشوں کا مسلمانوں
سے اقتدار کے لئے ووٹ مانگنا بھی سراسر بے حیائی اور فحاشی ہی ہے۔ ہمارے
معاشرے کو بداخلاق، بدزبان اور بے حیا لیڈروں کے بجائے شریف، نیک اور متقی
سیاستدانوں کی ضرورت ہے، آج معاشرے میں تو ہر طرف، ظلم، فساد، بے عدالتی،
ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی اور ملاوٹ کا دور دورہ ہے، ایسے میں اگر ہم لوگ
دبک کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ ہم تو شرفاء کی زندگی گزار رہے
ہیں تو دراصل یہ شرفا کی زندگی نہیں بلکہ بزدلوں کا جینا ہے۔ شرفاء کی
زندگی یہ ہے کہ معاشرے میں شرافت کا اقتدار ہو، ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف
ہو، لوگوں کو مفت تعلیم، انصاف اور صحت کی سہولیات نصیب ہوں، بیت المال سے
غرباء کی کفالت کی جائے، ملک سے بے روزگاری اور ملاوٹ کا خاتمہ ہو، نوکریوں
میں سفارش اور رشوت کے بجائے میرٹ کا بول بالا ہو۔۔۔
یہ سب آج بھی ممکن ہے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم لوگ تہِ دل سے
پیغمبر اسلامﷺ کو اپنے لئے سیاست میں بھی نمونہ عمل تسلیم کریں اور ہمارے
دانشور اور مفکرین، دیندار اور متقی لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ پیغمبرِ
اسلام ﷺ کی زندگی اور سیرت اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے پتھر کھا کر، توہین
اور اہانت برداشت کرکے، ہجرت کرکے، اپنے جلیل القدر اصحاب کی قربانیاں دے
کر، اپنے مقدس دانت شہید کروا کر، اپنے زمانے کے مظلومین، دبے ہوئے اور
کمتر سمجھے جانے والے لوگوں کو پستی سے نکال کر شریکِ اقتدار کیا۔ آپ نے
مظلومین اور محکومین اور غلاموں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرکے انہیں
اتنا مضبوط کیا کہ آپ نے ان مظلوموں کے ذریعے معاشرے پر حاکم وڈیروں،
قبائلی سرداروں اور گناہ و زنا کے رسیا لوگوں کی طاقت کا طلسم توڑ ڈالا۔ جب
سرورِ دو عالمﷺ نے سیاسی تبدیلی کی جدوجہد شروع کی تو آپ کے مقابلے میں
جہاں عرب کے متکبر، عیاش اور اوباش بادشاہ اور سردار تھے، وہیں ایران اور
روم کے بدمعاش بادشاہ بھی تھے۔ آپ نے گالیوں کا جواب گالیوں اور پتھروں کا
جواب پتھروں سے نہیں دیا بلکہ اپنے حسنِ اخلاق سے، بدزبانی، بدکرداری اور
بداخلاقی پر خطِ بطلان کھینچ دیا۔ خود پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے:"إنما بعثت
لأتمم مكارم الأخلاق"مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا ہے۔
اسی طرح قرآن مجید نے آپ ﷺ کے بارے میں فرمایا ہے:"وَ اِنَّکَ لَعَلٰی
خُلُقٍ عَظِيْمٍ.'' اور بے شک آپ عظیم الشان خلق کے مرتبے پر قائم ہیں۔ یہ
کیسے ممکن ہے کہ جس پیغمبرﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے اعلٰی ترین مقصد مکارم
اخلاق کی تعمیل ہو اور جس پیغمبرﷺ کو خود قرآن خلق عظیم پر فائز قرار دے،
اس پیغمبر کی امت سے اقتدار کے لئے بدزبان، بدترین، اور بدمعاش لوگ منتخب
کئے جائیں۔
۔۔
آج ہمیں اپنی تمام تر عبادی و سیاسی و اقتصادی زندگی میں اپنے نبی ﷺ کو
نمونہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، جب پیغمر اسلام نے جہالت قدیم کے عہد میں
مستضعفین، مظلومین اور محکومین کی نجات کے لئے اسلام کا پرچم بلند کیا تھا
تو ہر طرف سے فتنوں نے لوگوں کو گھیر رکھا تھا، مادہ پرستی، شراب و کباب،
راگ و موسیقی، شہوت رانی، دست درازی اور زنا جیسی سماجی و اخلاقی برائیاں
لوگوں میں رچ بس چکی تھیں، بلا روک و ٹوک قبائلی سرداروں اور مالداروں کے
ہاتھ غریبوں کی عزت و آبرو پر پڑتے تھے، شعر و شاعری میں عورتوں کو بطور
جنس استعمال کیا جاتا تھا اور یہ صورتحال صرف عرب دنیا تک محدود نہیں تھی
بلکہ روم و ایران جیسی متمدن اور مہذب کہلوانے والی اقوام میں بھی یہی کچھ
ہو رہا تھا، ایسے میں معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ہمارے نبیؐ نے جن
مشکلات کا سامنا کیا ہم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آپ نے اس معاشرے میں
جہاں جاہلانہ رسوم و رواج کو بہادری اور عقلمندی کہا جاتا تھا، آپ نے وہاں
پر اپنے آپ کو صادق اور امین کہلوایا، آپ نے کفر اور ضلالت اور ظلم و
جہالت کے درمیان اسلامی سیاست و حکومت، اسلامی اقتصاد، اسلامی نظام عدل اور
اسلامی فوج کو قائم کیا۔ آپ نے مشرق و مغرب کی مخالفت مول لے کر بڑے بڑے
بادشاہوں کو اسلام کے قبول کرنے کی دعوت دی۔ آج جہالت جدید کے عہد میں بھی
ہمارے ہاں پاکستان میں بھی اور پوری دنیا میں ایک مرتبہ پھر وہی کچھ دہرا
یا جا رہا ہے۔ اس سماجی ابتری، معاشی ناانصافی، قبائلی مظالم، دینی اجارہ
داری اور موروثی سیاست کے مقابلے کے لئے ہمارے پاس صرف ایک ہی راہ ِحل ہے
کہ ہم ان بدترین حالات میں صرف اور صرف اپنے نبیﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں
اور صرف انہیں لوگوں کو ووٹ دیں، جن کا کردار اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ
وہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے نقشِ قدم اور اسوہ حسنہ پر چلنے اور عمل کرنے والے
ہیں۔ متوقع الیکشن میں سیاسی بیداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ووٹ کے ساتھ
یہ ثابت کریں کہ ختم النبیین ﷺ ہی ہمارے لئے اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں۔ |