اپنے ہی قتل کا کرتے ہیں تماشا کیسے

آج کل ہمارا ملک عجیب ہذیانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ہر صبح ملک کی مظلوم عوام ایک نئی کہانی سنتی ہے۔ ایسے معلوم پڑتا ہے جیسے اب جنگلوں میں درندے نہیں رہتے، بلکہ وہ انسانی روپ دھار کر ہمارے بیچ ہی موجود ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں کہ جس دن یہ خبر نہ سنی ہو کہ آج انسانی درندے نے کسی کو نہیں نوچا، کسی کو نہیں بھنبھوڑا۔ کسی کی جان نہیں لی۔ آئے روز حوا کی بیٹی درندوں کے ہاتھوں تشدد، استحصال اور ظلم و ستم کا شکار ہو کر مار دی جاتی ہے۔ روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ انسان جو خود کو پڑھا لکھا کہتا، تہذیب یافتہ سمجھتا ہے وہ اب بھی فرسودہ روایات میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تشدد کا رجحان تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل معمول بن چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً پانچ ہزار خواتین، نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ رشتے سے انکار، پسند کی شادی، زن، زر، زمین کے لیے، شک و شبہ کی بنیاد پر قتل ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہر سال تقریباً 1400 خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق 2015 میں ملکِ پاکستان میں 1096 خواتین کو قتل کیا گیا۔ 2014 میں 1005 جبکہ 2013 میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والوں کی تعداد 869 تھی۔

اکتوبر 2016 میں پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل سے متعلق بل منظور کیا تھا۔ اس نئے قانون کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کرنے والے مجرم کے لیے سخت سزا تجویز کی گئی۔ اس کے باوجود تاحال ایسے واقعات کا رونما ہونا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ گزشتہ دنوں کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ کا بیہمانہ قتل کیا گیا۔ ملزم تاحال گرفتار نہ ہوسکا۔ ارباب اختیار و اقتدار بیان بازی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ ایک وزیر کا کہنا تھا کہ اگر یہ قتل پنجاب میں ہوا ہوتا تو ہم مجرم کو کب کا پکڑ کر سخت ترین سزا دے چکے ہوتے۔ ذرا ان سے پوچھا جائے کہ پنجاب میں ز ینب کیس سمیت دیگر کیسوں میں کتنے مجرموں کو سخت سزا دلائی؟ غیرت کے نام پر زیادہ تر قتل پنجاب ہی میں رونما ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کے وزرا دیگر واقعات پر لمبے اور بلند بانگ دعوے تو کرتے ہیں مگر انصاف کی فراہمی میں سستی ہی برتتے دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم (ایچ آر سی پی) کے مطابق 2016 میں بننے والا قانون بے اثر ثابت ہوا ہے۔ اکتوبر 2016 سے جون 2017 تک کی 9 ماہ کی مدت میں 280 خواتین قتل ہوئیں۔ اور یہ تعداد ان کیسز کی ہے جو رپورٹ ہوئے۔ جب کہ معاشرتی روایات، بدنامی کے خوف، پنچائیت، جرگے کے ڈر، وڈیروں کے ظلم و ستم کی وجہ سے کئی والدین ایسے قتلوں کو کسی نہ کسی طرح چھپا لیتے ہیں۔ کہ وہ تو گئی اب چپ رہنے میں ہی عافیت ہے۔ عام تاثر کے برعکس خواتین کے خلاف اس جرم کا تناسب دیہی علاقوں سے زیادہ شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کی چیئرپرسن کا کہنا ہے قانون سازی کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں عورتوں کے حقوق کو تسلیم نہ کرنا ہے۔

معلوم نہیں یہ کیسی غیرت ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اور جسے حرمت، اﷲ نے عطا کی ہو، اسے کیوں کر قتل کردیا جاتا ہے؟ کیسی درندگی ہے اور کیسی بے حسی کا عالم ہے۔ وہ جو اپنے والدین کے لیے رحمت ہے اسے، اس کااپنا باپ قتل کر دیتا ہے تو کہیں وہ بھائی، جو بہنوں کا محافظ کہلاتا ہے ہمیشہ کی نیند سلا دیتا ہے۔ کہیں کوئی کسی کو رشتہ نہ ملنے پر پستول کی گولی کی نذر کردیتا ہے۔ کہ میری نہیں تو کسی کی نہیں اور کہیں ذاتی عناد، شک و شبہ، ناجائز تعلقات پر بغیر تصدیق کیے غیرت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ روز ایسے واقعات کا رونما ہونا معاشرے سے برداشت کے ختم ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ بھیڑیے کھلے گھوم رہے ہیں۔ اور ان کو بچانے کے لیے پولیس بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ مجرم عدالتی نظام میں کمزوری کی بنا رہا ہوجاتے ہیں۔ پیچیدہ نظام سے انصاف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ جہاں تحفظ نہ ملے وہاں لولے لنگڑے قانون کا کیا فائدہ۔۔۔ اس سے مجرم تو فائدہ اٹھا لیتا ہے جب کہ مظلوم کو انصاف نہیں مل پاتا۔ قتل کے بڑھتے واقعات میں اداروں کی کمزوری، معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، عدم برداشت، اقدار کی تنزلی کی ایک وجہ اساتذہ، والدین، علما اور دیگر لوگوں کا اپنی زمہ داریوں سے چشم پوشی ہے۔

دوسرا مجرموں کو عبرتناک سزائیں نہ ملنا ہے۔ جب ایک مجرم کو سزا نہیں ملتی تو انہیں شہ مل جاتی ہے وہ پھر زوری دکھاتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ اب بھی وہی، ’’ایسے مجرموں کو سر عام سزا دینے کا ہے‘‘۔ جس کا تصور 2002 میں قانون کی تبدیلی کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔چالیس سال قبل شاہ فیصل مرحوم سے امریکی مشہور پروفیسر نے سوال کیا تھا سعودیہ میں سزائے موت کیوں ہے جب کہ امریکہ جیسے مہذب ملک میں قتل کی سزا قید کرنا ہے۔ شاہ فیصل مرحوم نے جواب دیاتھا آپ کا قانون مظلوم کو انصاف دینے کے بجائے ظالم کو بچانے کے بہانے ڈھونڈتا ہے اور کمزور دلیل پر مجرم رہا ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے صرف نیویارک میں ہر سال 10ہزار سے زیادہ خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور ملزم چند سال گزار کر رہا ہوجاتا ہے۔ اس سال نیویارک میں 8ہزار کے قریب قتل ہوئے۔ 5ہزار کے قریب افراد پکڑے گئے جن کو 14سال کی سزا ہوئی۔ جو کٹ کر آدھی رہ جائے گی۔ بتایا جائے مقتول کو کہاں انصاف ملا ہے؟

سعودی عرب میں 10قتل ہوئے۔ چند ہفتوں کی محنت سے دس قاتل گرفتار ہوئے۔ جرم ثابت ہوا۔ سر قلم کردیے۔ ایک طرف مقتول خاندان کو انصاف مل گیا دوسری طرف کروڑوں لوگوں کو سبق مل گیا کہ قاتل بچ نہیں سکتا۔ اب وہ قتل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔ ہم نے دس افراد کی قربانی دے کر کروڑوں لوگوں کو تحفظ فراہم کرکے مثال قائم کردی۔ آپ کا مہذب معاشرہ 5ہزار افراد کو سزا دے کر بھی تحفظ فراہم نہ کیا۔ ظالم آپ ہوئے یا ہم۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک سخت ترین سزاؤں کا نفاذ نہیں ہوگا مجرم حوا کی بیٹی کو نوچتے، بے حرمتی کرتے رہیں گے۔ اور اگر ہم آنکھیں موندے بیٹھے رہے مظلوم کے حق میں آواز بلند نہ کی تو یاد رکھیں جرم پر خاموش رہنا بھی ایک طرح سے جرم کا ساتھ دینا ہے۔

Abdul Basit Zulfiqar
About the Author: Abdul Basit Zulfiqar Read More Articles by Abdul Basit Zulfiqar: 38 Articles with 30571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.