’’خادم اعلیٰ کی خدمت میں ،مظلوم ماں کا خط‘‘

بلدیہ ٹاؤن کراچی کا وہ علاقہ ہے جس نے غریبوں ناداروں کی کئی درجن لاشیں دیکھی ہیں ۔سانحہ بلدیہ میں معصوموں کے خون سے ہاتھ لال کرنے والے خدا کی پکڑ میں ہیں۔ اس علاقے کی زبوں حالی دیدنی ہے۔ علاقے کی سڑکیں ،گلیاں ،محلے حکومت ، بلدیاتی اداروں اور حکومت سندھ کی مخلصی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی علاقے کی رہائشی حمیرا ،جس نے اپنی بیٹی پر ہوئے ظلم کی خاطر انصاف مانگا ہے اس غریب اور دکھیاری ماں کو انصاف دیا جائے ۔اس پسماندہ اورغریب علاقے کی عوام کس اذیت و کرب میں جی رہی ہوگی، اس بات کا اندازہ حمیرا کی معصوم بیٹی سمیرا پر کیے گیے ظلم سے لگایا جا سکتا ہے۔نویں جماعت کی طالبہ سمیرا امتحان دینے گئی ،اورلوٹ کر نہیں آئی ۔پھر کراچی سے کئی سو کلو میٹر دور صوبہ پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین سے اس کی لاش ملی۔اس کا لاشہ بزبان حال ظلم کی کہانی سنا رہا تھا۔ کئی مہینوں تک اسے ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ایک بڑی حویلی ،جسے منڈی بہاؤ الدین کے اہل علاقہ دہشت اور معصوم لڑکیوں کی اسمگلنگ کی اماجگاہ کے نام سے جانتے ہیں، اس اسلامی ملک میں کس کی سرپرستی میں یہ حویلی نما جہنم آبادہے ۔جس میں ناجانے سمیرا جیسی کئی کوکلیوں کو مسلا گیا ہوگا۔وہ کون لوگ ہیں جو ان حویلیوں میں رہنے والے ،موچھوں کو تاؤ دیتے ،جاگیرداروں اور وڈیروں کی لینڈ کروزر گاڑیوں کی ٹائروں کے نیچے اپنا ایمان روند ڈالتے ہیں۔ اور لال نوٹوں کی خوشبو سونگھتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وقت ان کی بہن ،بیٹی ،بیوی پر بھی آ سکتا ہے ۔ ہوش وحواس رکھنے والی نوعمر سمیراایک شہر سے دوسرے شہر کیسے پہنچ گئی۔ ؟ کیا اس ملک میں قانون کے رکھوالے، سکیورٹی اداروں کے اہلکار ٹرینوں ، بسوں کی چیکنگ کرنے والوں کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی گئی تھی۔حیرت اس بات پر ہے کہ نون لیگ کی حکومت میں راستوں کی سکیورٹی اور سفرمیں جگہ جگہ چیکنگ کا نظام قدرے بہتر ہوا ہے ،مگر جس طرح کے حالات رونما ہورہے ہیں ،یہ حکومت کی ناکامی اور عذاب الہی کی نوید ہے۔

سمیراکو کئی ماہ تک منڈی بہاؤ الدین کی اس بند حویلی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔اسے مارا پیٹا گیا ۔کسی طراس کی ماں اسے ڈھونڈتے ہوئے ملنے گئی تو ا سے ملنے نہیں دیا گیا ۔پولیس کے پاس جانے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔منڈی بہاؤالدین کی اس پراسرار حویلی کے وڈیروں کا آخر اس معصوم سمیراسے کیا رشتہ تھا ۔؟جو قانون و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا ۔دکھیاری ماں علاقے میں انصاف اور مدد کی خاطر دردر دھکے کھاتی رہی ۔ایک ماں کا جگرا ہے، جو پھٹا نہیں ،لیکن اسے چھلنی کرنے کے سارے حربے ازمائے گئے۔سولہ سال کی سمیرا کے جسم پرپایے گئے رسیوں سے باندھے جانے کے نشان ،حمیرا نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔اس کی پسلیوں پر خون جما دینے والے تشدد زدہ زخم چیخ چیخ کر کہ رہے ہیں کہ میرا قصور کیا تھا ۔مجھے بھی انصاف چاہیے۔

انسان کی جب تخلیق ہوئی تھی تو ملائکہ نے اﷲ پاک سے فرمایا تھا:’’ اے باری تعالٰی! یہ انسان زمین میں فساد پھیلائے گا،خون ناحق بہائے گا ، یہ آسمان سر پہ اٹھا لے گا ،یہ وہ مخلوق بن جائے گا ،جس سے درندے منہ چھپاتے پھریں گے۔پھر رب کائنات نے انسان کی تخلیق فرمائی ،اور ملائکہ نے جھک کر سجدہ کیا ۔دنیابدلتی رہی انبیاء تشریف لاتے رہے، امتیں خدا کی نافرمانی و فرمانبرداری میں کمریں توڑتی رہیں۔کوئی خدا کے بہت قریب ہوا تو کسی نے دنیا کو دوزخ بنا دیا ۔ظلم کی داستانیں رقم ہوتی رہیں ،اور آج انسان اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ اسے کھانے کو اناج نہیں انسانی گوشت چاہیے۔اسے پینے کو پانی نہیں ،انسانی خون چاہیے۔اسے سونگھنے کو پھول ، مشک و عنبر زعفران نہیں انسانی ہوس کی بدبو چاہیے۔اسے زندہ رہنے کے لیے حواس خمسہ کی جگہ ہوس زن کی ضرورت رہتی ہے۔ایک وہ زمانہ تھا جب انسان جگلوں بیابانوں میں مذکر مؤنث کی تمیز کیے بغیر ننگا پھرتا تھا۔وہ اپنے مہذب قانون کی پاسداری کرتا تھا ،اسے قوم قبیلے کی عذت اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتی تھی۔وہ اپنا سر تسلیم خم کیے عدالت و آئین کے سامنے کھڑا ہوجاتا ،اور سزا کو سزا سمجھ کر بھگتتا تھا۔مگر آج کا معاشرہ یکھ کر لگتا یہی ہے کہ قول ِملائکہ واقعی صداقت کی روشنی تھی ،جو انہیں انسانی سڑند اور اِس تعفن زدہ ماحول کو دیکھ رہی تھی۔

منڈی بہاؤالدین کا یہ علاقہ جو چک مانو کے نام سے مشہور ہے، اسی علاقے کی چدڑ قوم کے چودھری، جو اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں ،اور سمیرا کو اس کی ماں سے ملوانے میں ان کا کلیدی کردار رہا ،انہیں شامل تفتیش کر کے پوچھا جائے کا آخر ماجرہ کیا ہے۔بڑی بڑی حویلیوں میں رہنے والے یہ لوگ کیوں قانون کی گرفت سے دور ہیں۔حمیرا جو سمیرا کی بوڑھی ماں ہے ،کئی دفعہ منڈی بہاؤالدین گئی۔کچھ زندہ دل رکھنے والی علاقے کی عورتوں کی مدد سے وہ اپنی بیٹی سے ملنے میں کامیاب تو ہو گئی ، مگر اسے دھمکیاں دی گئی،بیٹی اور اس کو جان سے مارنے کا بول کر منہ بند رکھنے کا کہا گیا۔لڑکی کو کہا گیا کہ اگر ماں کے ساتھ جانا چاہتی ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، سوال یہ ہے کہ اتنے مہینوں تک سمیرا کس حال میں اور کیوں ان کے پاس رہی ۔اتنے ظلم کیے گئے سمیرا پہ کہ اس نے اپنی ماں کو دیکھتے ہی آنسو کا ایک راوی بہا دیا ۔پولیس کا کہنا ہے کہ وہ لڑکی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔پہلی بات تو بغیر تفتیش کے کسی پر تہمت لگانا شرعا بھی جائز نہیں۔پھر قانون کے رکھوالے اور عوام کے ٹیکس سے پیٹ پالنے والوں یہ حق کس نے دیا ہے کہ، وہ ایک ماں کو اس کی بیٹی کے بدفعل ہونے کا تانہ ماریں۔اپنے فرائض میں کوتاہی کرنے والوں نے انصاف کے تابوت میں آخری کیل یہ ٹھوکی کہ منڈی بہاؤالدین جانے کے غریب ما ں سے تین لاکھ روپے مانگے۔کیا منڈی بہاؤالدین سات سمندر پارکوئی اجنبی جزیرہ ہے ۔ایک سفید پوش عورت جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ہڈیاں توڑ کر کماتی ہو ،اس کے لیے تین لاکھ ایٹم بم نہیں ہوگا۔پھر کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اس معاملے میں عوام کی خدمت کرے۔قو م کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ اس مظلوم حمیرا کو آخر میں سمیرا کی لاش دی گئی اور خالی پیپر پر زبردستی انگوٹھا لگوایا گیا تا کہ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے ۔ خادم اعلیٰ کے لقب سے مشہور وزیر اعلی شہباز شریف کی خدمت میں یہ بات عرض کرنا ہے کہ وہ پورے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں، جس طرح زینب کیس میں آپ نے دن رات ایک کرکے ایک درندہ صفت انسان کو قانون کے شکنجے میں جکڑا ،سمیر ا کے قاتلو ں کو بھی قانون کی رسی میں باندھیں۔

حمیرا کے پاس اپنی بیٹی سمیرا کے قاتلو ں کا مکمل ڈاٹا موجود ہے۔وہ اپنی بیٹی تو نہ جا بچا سکی ،ہاں مگر انصاف کے حصول کے لیے وہ اپنی آخری سانس تک لڑنے کوتیار ہے۔
 

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 99 Articles with 88065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.