صبح ہو چکی تھی لوگوں نے اپنا کام شروع کر دیا تھا اور
میں نے لکھنا شروع کر دیا تھا جو میں کام پر جانے سے پہلے یا کام سے آنے کے
بعد لکھتا ہوں اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں نے بھی اعتراف کر لیا کہ یہ
کوی کام نہیں جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ کوی کام وام بھی کرتے ہیں یا بس
شاعری کرتے ہیں
بات یہ ہے کہ یہ معاشی دور ہے اور جب تک جس کام کے پیسے نہ ملیں اس کو شائد
کام نہیں سمجھا جاتا لیکن شوق تو ہو سکتا ہے جو بلا معاوضہ بھی کیا جاسکتا
ہے اور بڑے خوش قسمت ہیں وہ جن کا شوق اور کام ایک ہی ہوتا ہے مگر یہ کوی
ضروری نہیں اور بقول فیض
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
اور میں نے اس کو ریمکس کر دیا
کچھ لکھ لیا کچھ کام کیا
لکھ پڑھ کے اپنا نام کیا
اور جس کو لکھا جاے اس کو پڑھا بھی جاتا ہے
بات کام شروع کرنے کی ہو رہی تھی کچھ لوگوں کی صبح موبائل پر میسج دیکھنے
اور اس کو آگے بڑھانے سے ہوتی ہے وہ جھوٹ ہو یا سچ انہیں تو لائک بڑھانے سے
مطلب ہوتا ہے تاکہ لائق کہلایں اور اپنے شایق بڑھایں اور مجھے اپنی تحریر
کے شائق کا انتظار رہتا ہے یا کوی ایسی پوسٹ جس پر بے اختیار شعر یا نثر
لکھنے کو دل چاہے
ایک پوسٹ ای جس میں چوروں کی قسمیں بتای گئ تھیں کہ
عام چور جو آپ کا موبائل چھینے
سیاسی چور جو آپ کے خواب چھینے
اب میں کیا کرتا
میں نے اس لغت میں ایک اضافہ کر دیا
دل کا چور
وہ والا نہیں جو دل میں پتہ ہو کہ کچھ غلط کیا ہے بلکہ
جو دل چرا لے جیسے فلموں میں ہوتا ہے
چرا لیا ہے دل کو جو تم نے
نظر نہیں چرانا صنم
لو بھئ نظر کا چور بھی ہو گیا
میرے خیال میں آپ کے خیالوں اور خوابوں کو کوی چرا نہیں کرسکتا نہ چھین
سکتا ہے بلکہ آپ اپنے خیال و خواب دوسروں کو دے سکتے ہیں اور اپنا خیال
منتقل کر سکتے ہیں کسی دوسرے شخص کو جو دور بھی ہوسکتا ہے اس طرح کہ اس کے
خواب وخیال میں بھی نہ ہو کہ یہ خیال آپ کی طرف سے آیا ہے جسے ٹیلی پیتھی
بھی کہا جا سکتا ہے اور ہمارے ایک جلیلالقدر صحابی نے کئ میل دور جنگ میں
کوی غلطی ہوتی درست کی تھی اپنا حکم پہنچا کر اور اپنا خیال یا اپنی آواز
ہزاروں میل دور پہنچا کر
نہ جانے وہ کون سا علم تھا اور وہ کیسے لوگ تھے
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
اور یہ اقبال کا شعر ہے جنہوں نے خواب دیکھا اور سب کو دکھایا
میرا قلم چلتے چلتے دور نکل جاتا ہے اور قلم جہاں لے جاتا ہے چل پڑتا ہوں
اچانک خیال اتا ہے کہ قاری بھی ساتھ ہے اور یہ طوالت اس کی طبع نازک پر
گراں بھی گزر سکتی ہے اور اگر وہ نازک مزاج ہوا تو میری تحریر کی تعریف
طبعی موت نہ مر جاے
ایک لیکچر سن رہا تھا کہ کوشش سب کرتے ہیں مگر کوشش کی سمت کامیابی اور نا
کامی کا تعین کرتی ہے اور کوشش تو چور صاحب بھی کرتے ہیں جو اس وقت تشریف
لاتے ہیں جس وقت آپ خود اپنے گھر رات کے سناٹے میں خوفزدہ ہوں اور اور اسے
اپ کے گھر خوف نہ اے
ایک عجیب واقعہ ایک کتاب میں تاریخ کے حوالے سے درج تھا کہ " ایک ہندوستانی
وایسراے جو ایک چیز ہوا کرتا تھا اس نے کہیں پڑاو ڈالا تو رات کے وقت اس نے
سینےپر بوجھ محسوس کیا دیکھا تو بڑا سا کوبرا ہے اب وہ شور مچانے کے بجاے
خاموشی سے خدا کی غیبی مدد کا انتظار کرنے لگا اچانک ایک آدمی اندر داخل
ہوا اور واپس جا کر گرم دودھ مرتبان میں رکھ کر لایا اور سانپ کے آگے رکھ
دیا سانپ دودھ پینے کے لیے مرتبان میں اترنےلگا جب پورا اندر چلا گیا تو اس
نے ڈھکن بند کر دیا انگریز وایسراے نے جان بچنے پر انعام کی پیشکش کی تو اس
نے کہا کہ میں تو چوری کی نیت سے داخل ہوا تھا جب اس صورت حال کو دیکھا تو
میں نے اپنا پیشہ ایک طرف رکھا اور جان بچانا کسی کی ضروری سمجھا تو ایسے
چور بھی ہوتے ہیں
بات ہو رہی تھی چوری اور سینہ زوری کی جو بیک وقت کسی ایک میں یا کسی میں
چوری اور کسی میں سینہ زوری اور کبھی کسی چور کی سینہ زوری میں اتنا زور
اتا ہے کہ وہ توبہ کے زور پر خدا کا ولی بن جاتا ہے اور چور کا قطب بن جانا
اسی دنیا نے دیکھا ہے اس لیے یہ جو سوشل میڈیا پر چور چور کا شور مچا ہوا
ہے یہ مناسب نہیں اور اس میں کہیں کہیں
"چور مچاےشور"کی صدا بازگشت کرتی نظر آتی ہے
اور یہ چور سپاہی کا کھیل کب تک جاری رہے گا اور سپاہی بھی کیا کرے گا جو
ہیرا پھیری میں مصروف ہے
چور چوری سے جاے ہیرا پھیری سے نہ جاے
کچھ معصوم چوریاں ہوتی ہیں جیسے کوی بچہ چپکے سے شرارت میں کوی چیز آپ سے
لے کے غائب کر دے اور آپ پریشان ہونے باوجود خوش ہوں یا آپ کا کوی چاہنے
والا آپ کی جیب سے اعلانیہ چرا لے
یا جیسے ہم کسی ریسٹو رنٹ کے ٹشو پیپر چرا لیں یا جہاز میں جو وقتی طور پر
کچھ ملتا ہے وہ جیب میں ڈال لیں اور وہ کچھ نہ کہیں بلکہ سینہ زوری دکھاتے
ہوے اور مانگ لیں اسلحہ دکھاے بغیر اور خاتون خانہ کو تو چوری کی ضرورت ہی
نہیں پڑتی ان کا آنکھیں دکھانا ہی کافی ہے اب محبت سے یا غصہ سے اس کا
انحصار حالات اور موڈ پر ہے جو ملکی حالات کی طرح بدلتا رہتا ہے اور اس میں
نازک موڑ بھی آجاتے ہیں جو سیاست دان برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ایک نازک
موڑ سے گزر رہے ہیں اور وہ اتنا نازک بھی نہیں ہوتا جتنی نازک ان کی
وفاداریاں ہوتی ہیں جو پارٹی بدل لیتی ہیں سواے چند کے جو چٹان کی طرح کھڑے
ہو جاتے ہیں نازک وقت میں جیسے قوم کھڑی ہو جاتی ہے مشکل وقت میں اور ایٹمی
دھماکہ اور زلزلے کے بعد دیکھنے میں آیا اور بات اگر سینہ زوری کی ہو تو
یاد آیا ایک کتاب میں پڑھا تھا کے 1965 کی جنگ میں فوج اور پوری قوم متحد
اور نڈر ہو گئ تھی اور ان دنوں چوریاں بھی رک گئ تھیں اور ڈاکے بھی اور صرف
سینا زوری تھی اور سینہ سپر ہو کر دشمن ملک کو جس نے حملہ کر دیا تھا خدا
کی مدد سے منہ توڑ جواب دیا تھا اور اس وقت غیبی مدد بھی ساتھ تھی اور کئ
ہندوستانی پایلٹ نے بتایا کہ جب ہم راوی پل پر حملہ کرنے آے تو ہمیں کئ پل
نظر انے لگے اور ایک بھارتی فوجی کا بیان تھا اور ریکورڈ پر ہے کہ اس نے
کہا کہ سب سے زیادہ پریشان تلوار اور گھوڑوں والی فوج نے کیا مگر ان باتوں
کو مصلحتاً چھپایا گیا لبرل طبقے کے خوف سے اور ضرور ہوا ہو گا ایسا کیونکہ
خدا کچھ بھی کرسکتا ہے اور غیبی مدد آسکتی ہے اور ایسی خاص مدد تو خاص
وقتوں میں آتی ہیں
فضاے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
سورہ انفال
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم
بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ
جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کرلی کہ
ہم ہزار فرشتوں سے جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے تمہاری مدد کریں گے
وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ
ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ
حَكِيمٌ
اور اس مدد کو خدا نے محض بشارت بنایا تھا کہ تمہارے دل اطمینان حاصل کریں۔
اور مدد تو الله ہی کی طرف سے ہے۔ بےشک خدا غالب حکمت والا ہے- |