شادیوں میں کھانے پینے پر بے جا خراجات سے پرہیز کریں اور کسی مستحق پر خرچ کر کے دعائیں لیں۔۔۔۔۔۔۔

ولیمہ سنتِ نبویً ہے، لیکن آج کل ولیمے کا اہتمام، شاندار اہتمام ڈھیر ساری ڈشز کے ساتھ کرنا شادی کا جزولاینفک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، اور شادی ہال میں ایسے ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔

کھانے کا اعلان ہوتے ہی لوگ کھانے پر یوں لپکتے ہیں جیسے قیدیوں کو برسوں بعد رہائی نصیب ہوئی ہو۔۔
ایسے ہی ایک ولیمے کی روداد آپ کو سناتی ہوں، ایک کرنل صاحب کے بیٹے کا ولیمہ تھا صاحبِ حیثیت لوگ ہوں تو ان پر توجیسے فرض ہوتا ہے اپنی حیثیت کے مطابق یا کبھی اس سے بھی بڑھ کر دعوتِ طعام سجانا، سو یہاں بھی ایک عالیشان ہال کا انتخاب کیا گیا تھا، اوراﷲ جھوٹ نہ بلوائے کوئی پندرہ سے بیس ڈشز۔۔۔۔
اب کوئی بتائے جہان دو سے تین ڈشز میں کام چل جاتا ہو وہاں کیا ضرورت ہے اس بے جا اسراف کی،
خیر جی کھانا تو ہم نے اتنا ہی تھا جتنا ہضم کر سکتے کہ ہمارا پیٹ تھا کوئی لالو کھیت تو نہیں۔۔۔۔
اب ہم نے جس ٹیبل کا انتخاب کیا اس پر چند بڑے معزز اور عمر رسیدہ افراد بیٹھے تھے
ایک بڑی سوہنی سی پیاری سی اولڈ لیڈی اپنی ساتھی سے محوِ گفتگو تھیں۔۔۔
ارے بھئی ہم سے تو ایسی پارٹیز میں کھایا ہی نہیں جاتا اوپر سے یہ مووی کیمرے۔۔۔۔
اففف کھانا کھانا حرام کر دیتے ہیں، مجال ہے جو دو نوالے بھی سکون سے کھا لیں۔۔
دوسری بی بی گویا ہوئیں۔۔۔ ہاں بہن صحیح کہتی ہو، اب اس عمر میں بھلا ہم کتنا کھا لیں گے۔۔
اب انتظام یہ تھا کہ بڑی بڑی ٹیبلز پر اطراف میں کرسیاں لگائی گئیں تھیں جن پر کھانا شروع ہونے پر ویٹرز نے خوبصورت بڑی بڑی ڈشز میں کھانا لا کر رکھنا شروع کیا، ہم نے شکر ادا کیا کہ خود سے جا کر کھانا لینے کا کوئی سسٹم نہیں یہاں ورنہ تو وہ افراتفری مچتی ہے کہ الحفیظ الاماں۔۔۔ اب ہر ڈش میں ڈالنے کے لیئے ظاہر ہے ایک ہی چمچ ہوتا ہے تو ہمارے ساتھ براجمان افراد میں سے ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ پہلے ڈال لے حالانکہ جب ایک بندہ ایک ڈش سے کھانا نکال رہا ہے تو دوسرا دوسری ڈش سے کچھ لے لے پر نہ جی م سب کو وہی چاہیئے جو ایک لے رہا اور اس وقت صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے کہ کون کتنا مہذب ہے۔۔ ایک دوسرے کے ہاتھ
سے لبوں پر مسکراہٹ سجائے اور حقیقتاً دانت بھینچتے ہوئے ’’ایکسکیوزمی ’’کہہ کر چمچ لینے والوں کے تاثرات بہت مزہ دے رہے تھے۔۔۔ اور اسی وقت اچانک سے لائٹ آف ہو گئی محض لمحہ بھر کی بات تھی کہ ساتھ ہی آ بھی گئی پر اس ایک لمحے نے جو سین دکھایا اس پر ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ فوری طور کون سا ری ایکشن دیا جائے کہ بیک وقت ہم پر ہنسی ا، حیرت اور تعجب کا حملہ ہوا تھا۔۔۔ ہوا یہ کہ جیسے ہی لائٹ گئی تو معزز حضرات سمجھے اب ’’لائٹ ’’لمبی گئی اجبکہ لائٹ فوراً ہی آگئی اور اس ایک پل میں جو منظر سامنے آیا وہ یہ تھا کہ ان پڑھے لکھے، مہذب افراد میں سے بیشتر کے ہاتھ ڈشز کے اندر تھے جو ہاتھ سے ہی نکال کر اپنی پلیٹ میں ڈالنا چاہ رہے تھے۔۔۔ اففففففف۔۔۔۔ ذرا تصور کیجیئے اس لمحے کا۔۔۔ پر نہ جی ان صاحبان کے چہرے پر کوئی شرمندگی نہ تھی بلکہ ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے کہنے لگے، اوہو یار بیڑا غرق ہو اس لائٹ کا ہم سمجھے پلیٹ ہے یہ تو ڈش ہے۔۔۔ اور ٹشوز سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے دوبارہ سے کھانے میں مگن ہو گئے، اور جب ایک حمام میں سب ہی ننگے ہوں تو کسی دوسرے کو کوئی کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔۔۔ آیئے اب ذرا ایک نظر ان سوہنی لیڈی اور ان کی ساتھی کی پلیٹ پر بھی ڈال لیں۔۔۔۔ جی واقعی اس عمر میں کھایا نہیں جاتا زیادہ لیکن پھر بھی پلیٹ میں ’’پہاڑ ’’تو بنایا ہی جاسکتا ہے نہ۔۔ اور جوں جوں یہ پہاڑ اپنی اونچائی کھو رہا تھا ہم الﷲ سے دعا گو تھے ’’یا الﷲ ہمیں بھی ایسے ہی لکڑ ہضم، پتھر ہضم معدے سے نواز جیسا اس عمر میں بھی ان خواتین کا ہے ’’۔۔۔
شادی ہال میں اس کے علاوہ بھی بہت سے دلفریب نظارے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن ہمیں ہمیشہ ہی اس چیز کا قلق رہا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کا بے جا اسراف نہیں کرنا چاہیئے، اگر آپ کو اﷲ نے اتنا دیا ہے تو خدارا کسی غریب کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیں جس کی دعائیں آپ کا اخری سفر آسان کر سکتیں ہیں، کسی کے گھر کا ماہانہ انتظام اس طرح اپنے ذمے لے لیں کہ خود آپ کے اپنوں کو بھی خبر نہ ہونے پائے اس غریب کے دل سے نکلا ایک ایک لفظ آپ کو صراطِ مستقیم پار کروا سکتا ہے،، جبکہ شادی بیاہ، یا کسی بھی تقریب کے موقع پر ضائع کیئے گئے رزق کا حساب بھی اپ کو دینا پڑے گا، مہنگے اور عالیشان شادی ہالز کا انتخاب اور طرح طرح کے پکوان پر اکثر اتنا زیادہ خرچہ کیا جا تا ہے کہ اس میں کئی بیٹیوں کی شادیاں کی جا سکتی ہیں جو ماں باپ کے در پر صرف اس لیئے بیٹھی ہوتی ہیں کہ ان کے ماں باپ ایک شرعی فریضہ بھی ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔۔ ذرا سوچیئے گا ضرور۔۔۔ اور کوشش کیجیئے گا اپنے حصے کا دیا جلانے کی، کہ ایک ایک دیا اتنی روشنی کاسبب ضرور بن سکتا ہے جو کئی گھروں کے اندھیروں کو اجالوں میں بدل دے۔۔۔ شکریہ
ریحانہ اعجاز
کراچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Rehana Parveen
About the Author: Rehana Parveen Read More Articles by Rehana Parveen: 17 Articles with 23484 views میرا نام ریحانہ اعجاز ہے میں ایک شاعرہ ، اور مصنفہ ہوں ، میرا پسندیدہ مشغلہ ہے آرٹیکل لکھنا ، یا معاشرتی کہانیاں لکھنا ، .. View More