انسان کی تخلیق کی گئی۔ اسے دانش نورانی عطا کر کے شرف
و فضیلت بخشا گیا۔ انسانیت کو ایک جامع رہ نمائی کی ضرورت تھی؛ اس کے لیے
انبیا بھیجے گئے۔ انبیا ے کرام نے اپنی اپنی قوم کو حق کی تلقین کی اور
ہدایت و احکام الٰہی کے پہنچانے کا فریضہ انجام دیا۔ جس کا لب لباب یہ تھا
’’قوانین الٰہی کی اطاعت پر مائل کرنا‘‘ اس سے سرکشی کرنے والوں کی جماعت
ہر دور میں سرگرم رہی ہے جسے طاغوتی گروہ کہا گیا ہے۔ اقصاے عالم میں دلوں
کی دنیا اسلام کی دعوت سے جب لالہ زار بن گئی تو یہ ہریالی طاغوتی گروہ
’’یہود و نصاریٰ‘‘ کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ پہلے پہل تو وہ سب منظم ہو کر
اسلام کے مقابل صف آرا ہو گئے لیکن صداقت کے آگے ٹک نہ سکے پھر سازشوں کا
سہارا لیا۔ درپردہ حملہ کیا۔ ان کی شورش کی کئی سمتیں تھیں: تہذیبی، تمدنی،
ثقافتی اور فکری و معاشرتی۔
پچھلی کئی صدیوں سے اسلام دشمن قوتیں پروپیگنڈے کے سہارے اسلام کے سیل رواں
پر بند باندھنا چاہتی ہیں اس سلسلے میں تواتر کے ساتھ غلط فہمیوں کی تشہیر
کی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کیا بلکہ بہت سے پڑھے لکھے افراد بھی
غلط فہمی میں مبتلا ہو بیٹھے۔ اور آج کے وقت میں اسلام کو شدت پسندی سے
معنون کیا جا رہا ہے۔ اسے دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام دیا جا رہا ۔
ماضی کے ایک یورپی مفکر اور دانش ور جارج برنارڈشا کو بھی اسی طرح کا
مغالطہ تھا۔ ۱۷؍ اپریل ۱۹۳۵ء کو عالمی مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم
میرٹھی رضوی نے جنوبی افریقہ کے مقام ممباسا (کینیا)میں جارج برنارڈشا سے
مکالمہ کیا اور اسلام کے تئیں اس کی غلط فہمیوں کا عقلی و معروضی دلائل سے
ازالہ کیا، اس ملاقات میں برنارڈشانے آپ کی ایک یوم قبل کی دعوتی تقریر کا
حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی مصروفیات کے سبب گزشتہ
شب آپ کا لیکچر نہ سن سکا۔ حالاں کہ مجھے آپ کو سننے کا خاصہ اشتیاق تھا۔
آپ نے ’’فلسفۂ امن‘‘ پر تقریر کی حالاں کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کے
لیے زیادہ مناسب یہ تھا کہ آپ ’’فلسفۂ جنگ‘‘ پر روشنی ڈالتے کیوں کہ اسلام
بلا شبہہ تلوار کی نوک سے پھیلا۔‘‘
علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی نے برنارڈشا کو کہا:’’اسلام کے بارے میں یہ غلط
فہمی عام ہے۔ کل رات ہی میں نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی تھی اور مجھے یہ
دیکھ کر تعجب ہے وہ داستان جس کا جھوٹ اب بے نقاب ہو چکا ہے آپ جیسے اہل
علم کی زبان پر آئی ہے۔ تاہم مختصراًمیں یہ عرض کرتا ہوں کہ اسلام کے لفظی
معنٰی خود امن کے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا مصدقہ ریکارڈ اپنی پوری صحت کے
ساتھ قرآن و حدیث کی صورت میں موجود ہے جوواضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ
اسلام میں تلوار کا استعمال اس صورت میں جائز ہے جب مسلمان پر حملہ کیا
جائے اور انھیں اپنے دفاع میں تلوار اٹھانی پڑے۔ علاوہ بریں قرآن صاف طور
پر کہتا ہے: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ
مِنَالْغَیِّ ’’کچھ زبردستی نہیں دین میں بے شک خوب جدا ہو گئی ہے نیک راہ
گم راہی سے‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲۵۶؛کنزالایمان)
قرآن کی یہ آیت مذہبی معاملات میں کسی قسم کی طاقت یا دباؤ کے استعمال کو
ممنوع قرار دیتی ہے ....اسلام اپنی تبلیغ کا جو راستہ بتاتا ہے اور جس کی
وجہ سے یہ ساری دنیا میں پھیلا ہے وہ قرآن کی زبان میں یوں ہے: اُدْعُ
اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ
وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی
تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہترہو‘‘
(سورۃ النحل:۱۲۵؛کنزالایمان)
تاریخ اس حقیقت کی شاہدہے کہ ۳۳۵ء میں قسطنطین کی بلائی ہوئی ’’کونسل آف
نائسس مین‘‘ حضرت عیسیٰ کو قراردیا گیا تھا اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں اس
عقیدے کو مسلط کرنے کے لیے نہ صرف یورپ بلکہ بیت المقدس میں ہزاروں بے
گناہوں کو قتل کر دیا گیا تھا، جنھوں نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کر دیا
تھا، مگر میں اس کا ذمہ دار مسیحی عیسائیت کو نہیں ٹھہراتا تاہم ان باتوں
کے ذمہ دار چرچ کے وہ نمائندے ہیں جو اپنی طاقت اور بڑائی کے ذریعے ان کے
دل جیتنا چاہتے تھے۔‘‘ (تبرکات عالمی مبلغ اسلام، ص۴۵۷ تا ۴۵۹)
برنارڈشا کہتا ہے کہ: ’’یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اسلام کے بارے میں
بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور اسے غلط طریقے پر پیش کیا جاتاہے۔‘‘(مرجع
سابق،ص۴۶۱) ان کلمات کا پہلا پہلو تو مغربی قوتوں کی سازشوں سے تعلق رکھتا
ہے اور دوسرا پہلو ان نام نہاد مؤحدین سے جو خود کو اسلام کا علم بردار
کہتے ہیں اور دہشت گردی کو بڑھاوا دے کر اسلام کے مخالفین کے قدموں کو
مضبوط کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس طرح وہ جہاد جیسی مقدس اصطلاح کو بھی بد نام
کر رہے ہیں۔ داعش اور اس طرح کی دوسری دہشت گرد تنظیمیں جس طرح سے اسلام کو
پیش کر رہی ہیں وہ سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی طریقے ہیں، در اصل یہ
تنظیمیں شعوری و لا شعوری طور پر اسلام دشمن قوتوں کے لیے کام کر رہی ہیں،
صہیونیت کے دست و بازو مضبوط کر رہی ہیں، انھیں پروپیگنڈے کا موقع فراہم کر
رہی ہیں اور میڈیا ان کے کرتوتوں کو اسلام کے سر تھوپ کر منفی فضا ہم وار
کر رہا ہے۔ حالاں کہ ان کے عمل اور عقائد ہرگزاسلامی نہیں۔ اسلام میں تشدد
کی گنجائش نہیں۔ اسلامی تاریخ میں ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ملتا کہ انسانیت
کاسہاگ مسلمانوں نے لوٹا ہو یا کسی کا خون بلا سبب بہایا ہو۔ اسلام پوری
انسانیت کو حق کی تعلیم دیتا ہے، اور ایسے اسلوب میں جو سنجیدہ ہے اور عقل
اس کی تائید بھی کرتی ہے، امام شرف الدین بوصیری رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے
ہیں
لَمْ یَمْتَحِنَّا بِمَا تَعْیَی الْعُقُوْلُ بِہٖ
حِرْصًا عَلَیْنَا فَلَمْ نَرْتَبْ وَلَمْ نَہِمٖ
ترجمہ: انھوں نے ہماری بھلائی کے پیش نظر ایسے دین اور شریعت سے ہمیں
امتحان میں نہ ڈالا جس کے فہم سے عقلیں عاجز ہوں، یہی وجہ ہے کہ ہم کسی شک
اور وہم کاشکار نہ ہوئے۔ (کشف بردہ،ص۲۰۸)
برنارڈشا کی غلط فہمی عالمی مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی کی
وضاحت سے دور ہو جاتی ہے اور وہ اسلام کی صداقت اور ہمہ گیریت کا اعتراف
اپنے ایک تاثر میں یوں کرتا ہے: ’’دنیا میں مذہب کا دور ختم ہو رہا ہے لیکن
اس زمانہ میں اگر کوئی مذہب برقرار رہ سکتا ہے تو وہ ’’اسلام‘‘ ہے جس میں
عبادت سے کہیں زیادہ سیاست اور معاملات پر زور دیا گیا ہے۔ یہی مذہب فطرتِ
انسانی کے لیے سرمایۂ سکون بن سکتا ہے۔ میرا تو یہاں تک خیال ہے کہ اگر
دنیا کا آیندہ کوئی مذہب ہو گا تو وہ اسلام ہو گا کیوں کہ اس میں بنی نوع
انسان کی مکمل طریقہ پر رہ نمائی کی گئی ہے۔‘‘ (فلاح دین دنیا،ص۳۶)
اور ایک دوسرے مقام پر کہتا ہے: ’’یورپ بالعموم اورانگلینڈ بالخصوص آیندہ
نصف صدی میں اسلام یا اسلام سے ملتا جلتا مذہب قبول کر لے گا۔‘‘ اور جس کے
جلوے خوب یکھنے میں آرہے ہیں اوردلوں کی دنیا مسخر ہو رہی ہے۔ تلاش حق کا
سفر طے کرنے والے بالآخر اسلام کی منزل سے ہم کنار ہورہے ہیں اور یہ عمل بہ
تدریج جاری ہے۔
میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک
|