فروری کے اوائل میں دہلی اور پرتاپ گڑھ کے اندر دو دل
دہلانے والے واقعات رونما ہوئے ۔ دونوں کی ہئیت و کیفیت میں فرق ضرور تھا
لیکن انجام مشترک یعنی قتل ِناحق تھا۔ اس کے باوجود مختلف طبقات کی جانب سے
ظاہر ہونے والا ردعمل ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا ۔ یوپی کے پرتاپ گڑھ ضلع
میں۶ وحشی درندوں نے اپنی عصمت کے تحفظ کی خاطر سینہ سپر دلیر رابعہ کے
ہاتھ پیر توڑ ڈالے اور پورے جسم کو چاقو سے گود دیا جس کے نتیجے میں رابعہ
نےاسپتال میں دم توڑد یا۔ آج کل ایک خیالی کردار پدماوتی کے جوہر کو تقدس
عطا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ایک حقیقی رابعہ نے خطرناک مجرموں کا
مقابلہ اپنی جان پر کھیل کر کیا ۔ اس نے اپنی عزت و ناموس کی حفاظت میں جان
کا نذرانہ پیش کرکے ظالموں اور جابروں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
موت سے قبل زخموں سے چور چور رابعہ نے مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے
لیے پولس کو اپنا حلفیہ بیان بھی دیا ۔
اس جرأت و ہمت کے مظاہرہ کے لیے رابعہ قابل تحسین ہے اور اب امت کی ذمہ
داری ہے کہ وہ ظالموں کو تختۂ دار تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے
آگے آئے۔ بے قصور لوگوں کو چھڑانا جس قدر اہم ہے قصوروار کو سزا دلانا
بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ عدل کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں اور نہ
جرائم کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ رابعہ مرحومہ دہلی میں مقیم اپنے اہل خانہ سے
دور پرتاپ گڈھ کے ٹیون گاؤں میں انگریزی کی استانی تھیں ۔ نصف شب میں ۶
درندے اسلحہ سے لیس ہوکر تنہا اور نہتی رابعہ کے گھر میں اس کی آبروریزی
کی غرض سے داخل ہوئے لیکن اس کیمزاحمت سے آگ بگولہ ہوکر لاٹھی، ڈنڈے اور
لوہےکی راڈسےاسکو زدو کوب کیا۔ پڑوسیوں کی آمد سے خوفزدہ قاتل رابعہ کو
مردہ سمجھ کر فرار ہوگئے۔ ہم سایوں نےاس دہشتناک حیوانیت کا الزام مقامی
بدمعاش گڈو پاسی اور مدن پاسی پر لگایا ہے۔ ان کے مطابق خواتین کے ساتھ
چھیڑچھاڑ اور دست درازی گڈو اور مدن کے روزآنہ کا معمول ہے اور اس پر ان
کی پٹائی بھی ہوئی تھی لیکن انکاونٹر میں مصروف یوگی راج کی پولس نے کوئی
ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ انتظامیہ اگر اپنی ذمہ داری ادا کرتا تو رابعہ اس
بہیمیت کا شکار نہ ہوتی ۔
دہلی کے رگھو ویر نگر میں۲۳ سالہ فوٹوگرافرانکت سکسینہ کو شہزادی نامی لڑکی
سے تعلقات کے سبب سرِ عام قتل کردیا گیا۔ لڑکی کے اہلخانہ نے انکتکو اس کے
گھر کے باہر پکڑ لیا اور لڑکی سے دور رہنے کی دھمکی دی۔ ملزمین کے ہاتھوں
میں دھار دار ہتھیار دیکھ کر انکت نے جان بچانےکے لئے شاہزادی سے اپنے رشتے
کا انکار کردیا لیکن تھوڑی دیر میں دونوں کےاہل خانہ میں لڑائی شروع ہوگئی
۔ انکت کے والد یشپال نے اس تنازع کو نمٹانے کے لیے پولس تھانے چلنے تجویز
رکھی لیکن لڑکی کے باپ نے غصے میں آپے سے باہر ہوکر چاقو سے حملہ کردیا
اور سرِ عام انکت کا قتل کر کے فرارہوگیا۔
پولیس جان چکر رہی ہے کیمل زمگھرسےکب نکلےتھےاوران کا ارادہ قتلکرنےکا تھا
یا نہیں ؟ ارادے سے قطع نظرآنجہانی انکت اب اس دنیا میں نہیں ہے اور
شہزادی کو ناری نکیتن میں میں روانہ کردیا گیا ہے۔ اس لیے کہ وہ خود اپنے
گھر والوں سے خوف محسوس کرتی ہے ۔
رابعہ کی بابت کوئی سیاست نہیں ہوئی ۔ کسی سیاسی رہنما کو توفیق نہیں ہوئی
کہ رابعہ کے قتل کی مذمت یا اس کے والدین سے اظہار ہمدردی کرے لیکن انکت کا
معاملہ مختلف تھا ۔ دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری اس واردات کا سیاسی
فائدہ اٹھانے کے لیےگھر پہنچ گئے۔ انہوں نے انکت کے گھر والوں کو ایک کروڑ
روپے معاوضہ دینےکا مطالبہ کیا اور کیجریوال کی خاموشی پر انگلی اٹھاتے
ہوئے دہلی حکومت سے انکت کے اہل خانہ کو تحفظ دینے کامطالبہ کردیا ۔ منوج
تیواری بھول گئے کہ دہلی پولس بی جے پی کے مرکزی حکومت کی تابع ہے اور خود
کیجریوال اپنے تحفظ کی خاطر راجناتھ سنگھ کے محتاج ہیں ۔وزیراعلی کیجریوال
پر منوج تیواری کا دباؤ بنا اور انہوں نے ڈر کردکھ جتادیا۔کجریوالنے اپنے
ٹویٹ میں شدید مذمت کی اور انصاف دلانے کے لیے دلی سرکار کی جانب سے
بڑاوکیل کھڑاکرکےملزموں کو سخت سزا دلوانے کی ہر ممکن کوشش کا یقین دلایا۔
اروند کیجریوال بھول گئے کہ رابعہ کے والدین بھی دہلی کے باشندے ہیں اور
ممکن ہے سکسینہ خاندان نے کیجریوال کو نہیں ووٹ دیا ہو لیکن گمان غالب ہے
کہ رابعہ کے والدین نے تو انہیں کے حق میں رائے دی ہوگی ۔
برقی یا سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ میں رابعہ کے معاملے پر کوئی خاص بحث
نہیں ہوئی لیکن انکت کا معاملہ خوب گونجا ۔ اس کی ایک وجہ دہلی یا پرتاپ
گڈھ کا فاصلہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ شہر میں وقوع پذیر ہونے والی وارداتوں
پر جو ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے دیہات کے معاملات میں نظر نہیں آتا ۔ دہلی
سے قریب ہریانہ میں بھی خواتین کی ہراسانی کے واقعات کو وہ اہمیت نہیں مل
پاتی جو دہلی یا ممبئی جیسے شہروں میں ملتی ہے۔ نربھیا یا رابعہ کے تعلق سے
فرق اس کی منہ بولتی تصویر ہے۔ تفریق کی دوسری وجہ مظلوم و ظالم کا مذہب
بھی ہوسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میںانکتکےقتلپر شدیدغم وغصہکا اظہار ہوا۔ ٹیلی
ویژن چینلس نے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اشتعال انگیزی کی کوشش کی لیکن
انکت کے والد یشپال سکسینہ ان کی سخت مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ لوگ
اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے نفرت پھیلارہے ہیں۔
ایک ایسے باپ نے جس کے سامنے اس کے جواں سال بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا
کمال متانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بیٹا کھویا ہے۔ مجھے انصاف
ملے تو اچھا ہے لیکن اگر نہ بھی ملے تب بھی مجھے کسی قوم سے نفرت نہیں ہے۔
میری سوچ فرقہ وارانہ نہیں ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ذرائع ابلاغ
اس معاملے کو اس طرح کیوں پیش کررہا ہے؟ یہ لوگ میرے ساتھ بڑے پیار سے بات
کرتے ہیں لیکن ٹیلیویژن پر کچھ اور ہی دکھاتے ہیں ۔ اس میں پریمی ، مذہب
اور مسلم ڈال دیتے ہیں ۔ یشپال کی اس سوجھ بوجھ کو کیا ہم لوگ اجاگر کرتے
ہیں ؟ نیز جس طرح انہوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر صبر و ضبط کا
مظاہرہ کیا ہم بھی کرتے ہیں ؟ یا ہم گمراہ میڈیا والوں کی مانند جذبات سے
مغلوب ہوکر فرقہ وارانہ آگ اگلنے لگتے ہیں ؟ یہ چبھتا ہوا سوال سنجیدہ خود
احتسابی کا طالب ہے۔
انکت کی بابت امت کے اندر سے دو طرح کا ردعمل سامنے آیا۔ ایک توان مرعوب
دانشوروں کو اظہار خیال کا موقع مل گیا جو اپنی جعلی سیکولرزم کی چادر کو
داغدار ہونے سے بچانے کے خوف میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر لب کشائی
سے گریز کرتے ہیں ۔ انکت کے قتل کی پرزور مذمت کرکے ان لوگوں نے اپنے آپ
کو پکا سیکولر ثابت کرنے کی ایک کامیاب کاوش کرڈالی ۔ اس کے مدمقابل ان
حضرات کا رویہ ہے جو امت پر ہونے والے مظالم کے خلاف قبل ِ قدر جدو جہد
کرتے ہیں ۔ ان میں سے ایک نے رابعہ پر تو قوم کو یہ کہہ کر عار دلائی کہ
رابعہ کی پکار اور کتنی لاشیں اٹھاوگے لیکن انکت کے معاملے صرف زعفرانی
سیاست بازی کی مذمت پر اکتفاء کیا۔ سوال اٹھایا گیاکہ ہندوستان میں ذات پات
کے نام پر اور کھاپ پنچایت کی سرپرستی میں جو قتل و غارتگری ہوتی بی جے پی
والے اس کو کیوں نظر انداز کردیتے ہیں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح مسلمان تین طلاق کے معاملے سپریم کورٹ اور حکومت
سے نالاں ہیں یہی حالت فی الحال جاٹوں کی بھی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پچھلے
دنوں کہہ دیا کہ دو افراد کو آپسی رضا مندی سے شادی کرنے کا حق ہے۔ کھاپ
پنچایت کسی بھی شخص کو دوسرے فرقے میں شادی سے روک نہیں سکتا۔ سپریم کورٹ
کے فیصلے سے کھاپ چودھریوں میں خاصی ناراضگی پیدا ہوئی اور اس فیصلے کی
مخالفت کرتے ہوئے بلیان کھاپ کے چودھری نریش ٹکیت بہت دور نکل گئے۔ ۔ ٹکیت
نے کہاکہ ہم روایتوں میں مداخلت برداشت نہیں کریں گےاور نہ تو لڑکیاں پیدا
کریں گے اور نہ ہی لڑکیوں کو پیدا ہونے دیں گے یا پھر ہوسکتا ہے کہ انہیں
پڑھنے ہی نہیں دیں کہ وہ فیصلہ لے سکے۔ مذکورہ بیان نے مودی جی کے ’بیٹی
بچاو بیٹی پڑھاو‘ والے نعرے کی دھجیاں اڑا دیں ۔ ٹکیت نے یہ کہا ہمارے اس
اقدام سے لڑکیوں کی کمی کے سبب جو ہم جنسی میں اضافہ اس کے لیے عدالت ذمہ
دار ہوگی۔ اس دھمکی کے سبب سپریم کورٹ نےپولس کوہدایت کی کہ وہ درخواست
گذاروں کو تحفظ فراہم کریں ۔ ایساموقف نہ تو مسلمان لے سکتے ہیں اور نہ اس
کی تائید کرسکتے ہیں لیکن صرف اس کا حوالہ دے کر بلا تفریق مذہب و ملت کسی
مظلوم کی حمایت سے بھی اپنے آپ کو روک نہیں سکتے۔
مظفر نگر میں گزشتہ سال نومسلم عائشہ خان عرف پنکی کماری کے شوہر نسیم خان
کو اس کے والد اور بھائی نے قتل کردیا تھا ۔ اس واقعہ کے خلاف جو احتجاج
ہماری جانب سے ہوا تھا انکت کی بابت کیوں نہیں ہوا۔ بی جے پی والوں کا
تفریق و امتیاز یقیناً قابلِ نفریں ہے لیکن کیا ہمارا کام صرف زعفرانیوں کی
نقاب کشائی تک محدود ہے؟ دوسروں کو کیا نہیں کرنا چاہیے کے ساتھ یہ سوال
بھی اہم ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ہم اگر رابعہ کے اہل خانہ سے ملاقات
کرکے ان کو توانصاف دلانا چاہتے ہیں مگر انکت کے والدین کے آنسو نہیں
پوچھنا چاہتے تو ہم میں اور زعفرانیوں میں کیا فرق ہے؟ بصورت دیگر ہمیں ان
پر تنقید کا کیا حق ہے؟ اس سوال کے جواب میں یہ ہوسکتا ہے چونکہ وہ ہمارا
درد محسوس نہیں کرتے ہم کیوں کریں ؟ وہ عدل کے حصول میں ہمارے شانہ بشانہ
کھڑے نہیں ہوتے تو ہم کیوں ہوں؟ یہ منطق درست ہے بشرطیکہ ان میں اور ہم میں
من حیث القوم کوئی فرق نہ ہو۔ ان کا دھرم اور ہمارا دین یکساں ہو اور دونوں
مذاہب کے اندر اندر جوابدہی کے تصور میں کوئی فرق نہ ہو؟ لیکن علامہ اقبال
تو کہتے ہیں؎
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بناء ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
یہ بات بڑے فخر سے کہی جاتی ہے عدل کے حوالے سے دین اسلام کسی بھید بھاو کا
قائل نہیں ہے۔ ہماری تقریر وتحریرمیں امت مسلمہ کا نصب العین اس قرآنی
آیت سے اخذ کیا جاتا ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار
اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود
تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو
فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے
لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی
لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو
اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔ ایک ایسی امت جو عدل و انصاف کی علمبردار ہو،
کیااس کا رویہ ان لوگوں سے مماثل ہوسکتا ہے جن کا ان اعلیٰ اقدار سے کوئی
سروکار نہ ہو؟نیز اگر گواہی خود ہماری ذات یا اہل وا قارب کے خلاف پڑتی ہو
کیا ہم اس سے منہ چرا سکتے ہیں؟ شہزادی کی تعلیم و تربیت میں اس کے والدین
سے جو کوتاہی ہوئی، کیا وہ اس کی سزا انکت سکسینہ اور اس کے اہل خانہ کو
دینے میں حق بجانب ہیں؟
عدل و قسط کے متعلق ملت اسلامیہ ان قرآنی احکامات کو کیسے بھول سکتی ہے کہ
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور
انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے
کہ انصاف سے پھر جاؤ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ
سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر
ہے‘‘۔ اس آیتِ کریمہ میں انصاف کی گواہی کے اہم ترین منصب کی جانب متوجہ
کرنے سے قبل فرمایا گیا کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ خود راستی پر قائم
رہنے والے بنیں ۔ ان کا یہ طرز عمل کسی مجبوری یا ضرورت کے پیش نظر ہو
مثلاً چونکہ ہم ناانصافی کا شکار ہورہے ہیں اس لیے انصاف کا نعرہ بلند کریں
یا ایسا کرکے ہم غیر مسلمین کی حمایت وہمدردی وصول کرنے کے قابل ہوسکیں
وغیرہ بلکہ یہ کام خدا واسطے کیا جانا چاہیے۔ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے
علاوہ کوئی سیاسی یا سماجی مفاد پیش نظر نہ ہو۔ سیاسی فائدہ ہو یا نقصان
اور سماجی حالت بہتر ہوں یا بدتر ، رضائے الٰہی کی خاطر یہ جدوجہد امت
بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
انصاف سےباز رکھنے والے محرکات دو ہوسکتے ہیں۔ ایک اپنوں سے عقیدت و محبت
اور دوسرے دشمنوں کے خلاف کدورت ونفرت ۔ مذکورہ آیات میں سے ایک میں محبت
کے غلو پر لگام لگائی گئی ہے اور دوسری میں نفرت کی آگ بجھائی گئی۔ انہی
حربوں کو بروئے کار لاکرشیطان اپنے دشمن کو بہکاتا ہے۔ امت کو ٹھہر کر
سوچنا ہوگا کہ وہ اس معرکۂ خیر و شر میں شیطان کس قدر کامیاب ہے؟ اس کے
بعد والی آیت بھی کم اہم نہیں ہے۔ اس میں فرمایا گیا ’’جو لوگ ایمان لائیں
اور نیک عمل کریں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا
جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا‘‘۔ یہاں پر ایمان کے ساتھ عمل صالح کو
لازم کیا گیا ہے۔صرف زبانی جمع خرچ یا واٹس ایپ پرمیسیج فاروڈ کرنا اور فیس
بک پر لائیک کرنا کافی نہیں ہے۔ امت مسلمہ کے کھوئے ہوے منصب امامت کی
بحالی صداقت اور عدالت سے مشروط ہے۔ رابعہ اور انکت کے تئیں اپنے رویہ کا
جائزہ لینا اور حسبِ ضرورت اصلاح کرنا اپنے آپ میں ایک شجاعت کا کام ہے ۔
بقول اقبال ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جاے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
|