تصویر کے دورُ خ

دوردراز کسی کھلے سرسبز میدان میں ایک ڈھلتی جوانی والا چرواہا اپنی بکریاں چرا رہاتھا۔سردی کے خشک موسم میں دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔ دور دور تک پھیلے سبزے پر رات کو پڑنے والی شبنم موتیوں کی طرح چمک رہی تھی ۔ ایسا سہانا منظر کہ دیر تک اور دور تک دیکھتے ہی چلے جانے کو جی چاہے۔ کافی دیر کے بعد چرواہے نے اپنی بکریوں کو ہانکا اور ایک ٹیلے کے قریب لے آیا۔ وہاں صاف شفا ف ندی کاپانی پیاس بجھانے کی دعوت دے رہاتھا۔ بکریوں نے پانی پیا ، حالاں کہ سردی کے موسم میں پانی کم ہی پیا جاتاہے۔ اب چرواہا کافی حد تک مطمئن سا ہوگیا کہ بکریوں نے گھاس سے پیٹ پوجا بھی کرلی ہے اور پانی پی کر سیر بھی ہوچکی ہیں۔ کچھ دیر تو وہ چپ چاپ بیٹھا اپنی بکریوں کو دیکھتارہا ۔ کچھ آرام سے بیٹھ گئی تھیں مگر ان میں کچھ شرارتی بھی تھیں ۔ بکریاں بھی شرارتی ہوتی ہیں ……آپ مانیں یا نہ مانیں……

چرواہا تھکا تو نہ تھامگر نہ جانے کیوں اس نے اپنے سرپر باندھا پگڑ اتارا ،اسے سرہانہ بنایا اور لیٹ گیا۔ شرارتی بکریاں آپس میں ایک دوسرے کو سینگ مار رہی تھیں ۔ کچھ تو اچھل اچھل کر شاید کوئی کرتب دکھا رہی تھیں۔ شریف بکریاں کبھی کبھار سراٹھاکر دیکھنے پر مجبور ہوجاتیں تاہم وہ سر جھکائے، آنکھیں موندے (بند کیے) جگالی کرنے میں ہی زیادہ تر مصروف رہیں۔ چرواہے کی بھی آنکھ لگ گئی، اس لیے کہ یہ تو روز کا معمول تھا۔ مزید کچھ وقت گزر گیا……ہاں وقت تو گزر ہی جاتاہے ۔ ایک بکری اچانک اچھلتی کودتی ذرا ریوڑ سے دور ہوئی تو آناََفاناََ ایک بھیڑیا جھپٹا، وہ خونخوار تو تھا ہی شاید بھوکابھی تھا۔ بکری کو اس نے اپنے مضبوط جبڑوں میں دبوچا اور چلتابنا۔ اس حملے نے تقریباً سارے ہی ریوڑ کے اوسان خطا کردیے ۔ کافی ساری بکریوں کے اکٹھے شو ر مچانے سے چرواہے کی آنکھ تو کھلی مگر اب دیر ہوچکی تھی ۔

یہ تو تھا تصویرکا ایک رخ ……اگر آپ اجازت دیں تو آئیے دوسرا رخ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ نام شاید بدل جائیں لیکن کردار بہت حدتک وہی رہیں گے جو اوپر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہمارے ہاں خاندان بنیادی معاشرتی اکائی ہے۔ اسی خاندانی نظام کی مضبوطی سے ہمارا منفرد تشخص قائم ہے۔ ایک خاندان میں بہت سے ارکان ہوتے ہیں۔ والد گرامی قدر سربراہ کی حیثیت سے ایک طرف پورے خاندان کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو دوسری طرف جملہ ضروریات کی فراہمی بھی انہی کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ اب ایک خاندان میں کسی کی کوئی طبیعت ہوتی ہے تو کسی کا کوئی مزاج۔ کسی کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ موجود رہتی ہے تو کوئی چھوٹی سی بات پر برہم ہوجاتاہے۔ کوئی روزانہ نہا دھو کر ظاہری خوب صورتی پر وقت صرف کرسکتاہے تو کوئی اتنا مصروف کہ ناشتہ کرنے کی بھی فرصت نہیں ۔کوئی باسلیقہ اور سمجھ دار ہے تو کسی کے موبائل میں بیلنس ختم ہی نہیں ہوتا۔ القصہ بکریوں کی طرح انسانوں میں بھی کوئی شریف ہیں تو شریربھی موجود ہی ہیں۔

افسوس سے کہناپڑرہاہے کہ ہمارا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوتا جارہاہے۔ بڑوں کی عزت پر حرف آنے لگاہے ، چھوٹوں سے شفقت بھی کم ہوتی جارہی ہے ۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ……وہ نازک ذات جسے عورت کے نام سے پکارا جاتاہے ( یاد رہے کہ عورت کے لفظی معنی چھپی چیز کے ہیں ) آئے دنوں بے توقیری کی ایک نئی دلدل میں پھنسا دی جاتی یا پھنس جاتی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے آوارگی کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ہم اپنی اقدار کو بھلا بیٹھے ہیں۔ والدین اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے لگے ہیں ۔ کاغذی محبت کا سرعام اعلان اور اظہار کرنے والے دلوں میں کدورتیں چھپائے ہوئے ہیں ۔ باپ شاید سو گئے ہیں ، ماؤں نے چپ سادھ لی ہے ۔ بھائیوں نے کمپرومائز کرلیا ہے تو بہنیں سر سے چادریں اتار چکی ہیں ……14فروری کی آمد ہے۔ بھیڑیے بھی ہیں اور چرواہوں کی بکریاں بھی ،خدا کے لیے کچھ تو کریں کہیں دیر نہ ہوجائے۔
آئیے شرم وحیا والی پاک باز زندگی کو تلاش کرتے ہیں۔ اس میں سکون ملے گا۔ اگر آج تک کوئی غلطی ہوئی ہے تو اپنے کریم رب کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائیے گا ؂
دل کی کھیتی کو ہے پانی کی ضرورت مقصودؔ
اس قدر اشک بہاؤ کہ بھگو دو خود کو

Talha Idrees
About the Author: Talha Idrees Read More Articles by Talha Idrees: 48 Articles with 38350 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.