چلیں جی ایکبار پھر عاشقوں کا تہوار ویلینٹائن ڈے سر پر
آن پہنچا ہمارے یہاں سے بھی زیادہ تیاریاں اور جوش و خروش پاکستان میں اپنے
عروج پر نظر آتا ہے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ آخر پھول لینے دینے میں
برائی کیا ہے؟ کوئی برائی نہیں ہے اگر پھول آپ کسی کی بہن کو دے رہے ہیں
لیکن کوئی پھول آپ کی بہن کو دے رہا ہے تو بہت بری بات ہے آپ کی غیرت و
حمیت ، ذلت و رسوائی کے جوہڑ میں غوطے کھانے لگتی ہے آخر آپ کی اپنی بہن کو
یہ حق حاصل کیوں نہیں ہے کہ وہ بھی کسی لڑکی کے بھائی سے پھول چاکلیٹس اور
تحائف وصول کرے؟ حیرت کی بات ہے ایک ایسا ملک جہاں کسی لڑکی کے ایک ذرا قدم
بہکنے سے پورا گھر منہ کے بل اوندھا گرتا ہے جہاں ساری زندگی نماز نہ پڑھنے
والے قراٰن اور کلمے تک صحیح سے نہ جاننے والوں کی بہن اگر مرضی اور پسند
سے شادی کر لے تو فوراً ان کی غیرت کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اس بہن بیٹی
کو ذبح کرکے یا گولیوں سے چھلنی کر کے اس کے خون سے تازہ کیا جاتا ہے تو
ایسے ملک میں ویلینٹائن ڈے متعارف ہؤا اور قبولیت عام کی سند پا گیا ۔ آج
ہم اس موضوع پر کوئی باقاعدہ مضمون تحریر نہیں کریں گے بلکہ ھماری ویب پر
گزشتہ سالوں میں مختلف مصنفین کے جو مضامین شائع ہوئے اور ہم نے ان پر جو
تبصرے لکھے جو کہ تعداد میں کافی زیادہ ہیں تو ان میں سے چند آپ کی خدمت
میں پیش ہیں کیونکہ کچھ بھی نہیں بدلا اور سالوں پہلے لکھے گئے یہ تبصرے آج
کی صورتحال پر بھی اسی طرح منطبق ہو رہے ہیں ۔
§§§
یہ 90ء کی دہائی کی بات ہے جب ایک معروف موبائل کمپنی نے ویلینٹائن ڈے کے
نام سے پاکستان میں اس لعنت کو متعارف کرایا تھا ایک بڑے اخبار کے فل پیج
پر اس کا اشتہار شائع ہؤا تھا اور سب لوگ ایکدوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ یہ
ویلینٹائن ڈے کیا ہے؟ بھٹکی ہوئی نوجوان نسل کو آج بھی نہیں معلوم کہ یہ
ایک لعنتی تہوار ہے ۔ قوم سازشوں کا شکار ہے ۔ سمجھنے کی اور سدھرنے کی
ضرورت ہے ۔
§§§
ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا عاصم چودہ فروری کے روز پیدا ہؤا تھا ہر سال اس
تاریخ کو اسکول میں اس کے دوست اسے وش کرتے ہیں ۔ جب وہ چوتھی جماعت میں
تھا تو پورے اسکول کا واحد بچہ تھا جس کی برتھ ڈیٹ ویلینٹائن ڈے کو آئی تھی
اس سال اس اس کی ٹیچرز اور کلاس فیلوز نے اس کی باقاعدہ سالگرہ منائی تھی
کیک اور ریفریشمنٹ کا اہتمام کیا تھا اسے تحائف اور کارڈز دیئے تھے اب ہم
بھی اس روز کچھ چاکلیٹس وغیرہ اس کے ساتھ میں دے کے بھیج دیتے ہیں ۔ بس اس
سے زیادہ کبھی کچھ نہیں کیا حالانکہ یہ بہرحال اس کا یوم پیدائش تو ہے ہی ۔
مگر ہمیں اس ویلینٹائن ڈے سے کوئی سروکار نہیں ہے ہم نے یہ تہوار کبھی نہیں
منایا ۔ ہم یا ہمارے بچے کبھی اپنے امریکن دوستوں کو وش کرنے کے پابند نہیں
رہے ۔ اور صرف ہم پر ہی موقوف نہیں ہے امریکہ بھر میں ایسے گھرانوں کی کمی
نہیں ہے جو ان خرافات سے دور ہیں وہ ایک غیر اسلامی معاشرے اور انتہائی
آزاد ماحول میں بھی اپنے بچوں کی بہترین پرورش کر رہے ہیں انہیں اپنی تہذیب
و روایات سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ صوم و صلٰوة کا پابند بنا رہے ہیں
انہیں حافظ قرآن بنا رہے ہیں ۔ یہاں ہر بڑے شہر میں مدرسے اور دارالعلوم
ہیں جن میں بچوں کو بہترین دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جاتا ہے جس سے
وہ برے بھلے کے درمیان تمیز کرنا سیکھتے ہیں تو جب ہم امریکہ میں ہوتے ہوئے
بھی اس ویلینٹائن ڈے کو منانے پر مجبور نہیں ہیں تو پاکستانی قوم پر ایسی
کیا آفت آن پڑی ہے کہ انہیں اس قطعی فضول اور غیر اسلامی تہوار کو اتنے زور
و شور سے منانا ضروری ہو گیا ہے ۔ آخر یہ نئی نسل کس جانب جا رہی ہے ۔ کوئی
تو ہے جو انہیں اس تباہی کے راستے پر ڈال رہا ہے ۔ انہی کی سر زمین پر ان
کی صفوں میں گھس کر ان کی اقدار کا جنازہ نکال رہا ہے ۔ جب ایک غیر مسلم
ملک میں رہتے ہوئے بھی اپنے دین و ایمان اور اقدار و روایات کی حفاظت کرنا
نا ممکن نہیں ہے تو ایک اسلامی ملک میں کیوں اس قیمتی اثاثے کا شیرازہ
بکھرتا جا رہا ہے ۔ ملک و ملت کے خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھنے اور
انہیں سبوتاژ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان کا شکار بننے کی ۔
§§§
ویلینٹائن ڈے سے متعلق چند اور آرٹیکلز پر کمنٹس دیتے ہوئے ایک بات ہمیں
مجبوراً ہر جگہ لکھنی پڑی کہ ھمارا ایک بیٹا اتفاق سے عین 14 فروری کے روز
پیدا ہؤا تھا اس کےباوجود ہمیں اس تہوار سے کوئی سروکار نہیں ھے مقصود کوئی
بڑائی جتانا نہیں بلکہ صرف یہ سوال ہے کہ پاکستان میں لوگوں پر ایسی کون سی
مجبوری آن پڑی ھے جو ہمیں ایک غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے بھی لاحق نہیں ہے
ہماری تقدیر ہمیں اس جگہ لے ضرور آئی ھے مگر نہ تو ہمیں کوئی احساس کمتری
ہے نہ ہی مقامی ماحول میں رچ بس جانے کا خبط ۔ ہمیں کوئی مجبور نہیں کر رہا
اپنی شناخت اور اقدار کو بھولنے کے لئے اور صرف ہم ہی نہیں یہاں امریکہ بھر
میں بے شمار ایسے ہمارے ہموطن موجود ہیں جو اس سرزمین پر پہنچ کر بھی گنوار
کے گنوار رہے اور وہاں ایک اسلامی مملکت میں ترقی اور روشن خیالی کے نام پر
ہماری نوجوان نسل ان خرافات کی اسیر ہو بیٹھی ہے جن سے ہم یہاں رہتے ہوئے
بھی دور ہیں اکثریت ان کے خلاف ہے اور اپنے بچوں کی بہتر تربیت کے لئے
کوشاں ہے ۔ پاکستان میں بھی یہ رجحان ایک مخصوص اور مختصر طبقے تک محدود
سہی مگر ان میں بھی بڑی تعداد مسلمانوں ہی کی ہے اور والدین جن کی سرپرستی
اور حوصلہ افزائی کے بغیر اولاد کی مجال نہیں کہ اس فضول اور نامعقول رسم
کو پذیرائی بخش سکیں ۔ جن چیزوں سے بچنا ایسی جگہ پر رہتے ہوئے بھی ہمارے
اختیار میں ہے وہ پاکستان میں کیوں دشوار ہو گیا ہے؟یہاں سے زیادہ ترغیبات
تو وہاں نہیں ہونگی؟ کیا وہ ہماری روایات اور دینی تعلیمات سے قوی ہو چکی
ہیں بے شک یہ سب ایک طے شدہ منصوبے اور سازش کے تحت نوجوانوں کو دلدل میں
دھکیلا جا رہا ہے مگر مسلمانوں کی آنکھوں پر کیوں پٹی بندھ گئی ہے؟ ایسے
ماحول میں آپ جیسے لوگوں کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے یہ قلمی اور علمی جہاد
جاری رہنا چاہیئے خدا آپ کو کامیاب کرے اور راہ سے بھٹکنے والوں کو ھدایت
دے ۔ آمین ۔
§§§
ویلینٹائن ڈے کے موقع پر پاکستان میں نوجوانوں کے جوش و خروش اور سرگرمیوں
کے حوالے سے ایک ٹی وی چینل پر حسن نثار کے انٹرویو کی ایک وڈیو کلپ نظر سے
گذری ۔ بہت سی بالکل صحیح اور سچی باتیں کرنے کے بعد موصوف نے یہ کہہ کر
بالٹی بھر دودھ میں مینگنی ڈال دی کہ اگر اس طرح بچے خوش ہوتے ہیں تو ہونے
دو ۔ یعنی جہاں اور بہت سے غلط کام ہو رہے ہیں وہاں ایک یہ بھی سہی ۔
ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ آج ہم مسلمان قدم قدم پر
کافروں اور مشرکوں کی نوازشات کے محتاج ہیں ۔ ان کی ذرہ نوازیوں کے گرفتار
ہیں ۔ اس قید سے رہائی ہمیں ایک آن میں پتھر کے دور میں پہنچانے کے لئے
کافی ہے ۔ سائینس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارے اسلاف کی خدمات اور
کارنامے اب صرف قصے کہانیوں میں رہ گئے ہیں ۔ مگر مسلمان کبھی بھی غیر
مسلموں کی تہذیب کو اپنانے اور انکے تہوار منانے پر مجبور نہیں رہے ہیں ۔
چند ایک مقامات کو چھوڑ کر وہ تقریباً ہر سرزمین پر اپنے مذہب اور مرضی کے
مطابق زندگی گذارنے کے لئے آزاد ہیں ۔ تو جو مجبوریاں دیار مغرب میں ہمارے
پیروں کی زنجیر نہیں بنی ہیں وہ ایک مسلم معاشرے میں کیسے گلے کا ہار بن
گئی ہیں؟ مغربی دنیا کی تعلیم و ترقی اور تحقیق و تیکنیک کی بدولت نصیب
ہونے والی سہولیات و آسائشات اور اپنی اقدار و روایات کے درمیان توازن قائم
کرنا کوئی اتنی مشکل بات تو نہیں ۔ اور غیر ضروری رسومات اور خرافات سے
بچنا بھی ناممکن نہیں ہے ۔ مگر ملک میں موجود کالے انگریزوں نے یہود و ہنود
کا کام آسان کردیا ہے ۔ (رعنا تبسم پاشا) |