وہ گرجتی بھی تھی اور برستی بھی تھی اور جس کے خلاف بڑے
بڑے بات کرتے گھبراتے وہ بڑے اعتماد کے ساتھ دبنگ آواز سے بات کرتی اور
انسانیت کے لیے جس آواز نے آواز اٹھائی اور مظلوم کی آواز بنتی اور وہ عدل
کی سرزنش بھی کر دیتی اگر وہ دباو میں ہو یا ایک طرف جھکاو میں ہو اور
ادارے بھی اگر تجاوز کرتے تو انہیں بھی ٹوک دیتی اور ایسے یہاں گنتی کے چند
لوگ نظر آتے ہیں اور جو تہزیب کے دائرے میں رہتے ہوے ہر قسم کی بات کر جایں
اور شائد اس نے یہ سب کچھ اپنے والد سے سیکھا تھا جنہوں نے ایک آمر کے غلط
اقدام کے بارے میں اسے تنبیہ کی تھی جو ملک کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوا
تھا وہ ایک وکیل اور انسان اور اور مظلوم کی وکیل ثابت ہوی اور جو وکیلوں
نے اپنی مہم کے دوران نعرہ لگایا تھا تو ریاست تو ماں کے جیسی ہوی یا نہ
ہوی مگر عاصمہ جہانگیر ماں کے جیسی تھی اور ہم سے جُدا ہو گئی خدا رحم کا
معاملہ فرمائے آمین
|