پاکستان کی طرح آزاد جموں و کشمیر کا اپنا سپریم کورٹ ہے۔
جس کا نام 1975سے پہلے بورڈ آف جوڈیشل ایڈوائزر تھا۔ یہ عدالتی فورم ڈوگرہ
راج میں قائم تھا۔ بعد ازاں اس خطے کے عدالتی نظام نے ایک طویل اور صبر
آزما سفر طے کیا۔ اس نے ریاستی اداروں کی بہتری کو اپنی قومی ذمہ داری
سمجھا۔ اس کی مزید بہتری سے متعلق قانون سازی کے متعدد معاملات تھے۔ جناب
جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء کے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کے بطور
تقرری کے بعد لاء کمیشن تشکیل پایا، ریاستی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی قائم
ہوئی۔ عدالتی مکانیت، ججز کی تعداد میں کمی، مالی و دیگر وسائل کی کمی جیسی
مشکلات کے باوجود جناب چیف جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء ریاست میں انصاف
کی فراہمی کے نظام کو موثر بنانے کے لئے کاوشیں اور کوششیں جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ نظام فراہمی انصاف کو سہل، آسان اور موثر ترین بنانے کے اقدامات کر
رہے ہیں۔ آ ج کا سپریم کورٹ ریاست میں اپیل کی اعلیٰ عدالت ہے۔ یہ ایک چیف
جسٹس اور دو معزز جج صاحبان پر مشتمل ہے۔ آئین پاکستان 1973کے تحت سپریم
کورٹ آف پاکستان اپنے قواعد و ضوابط بنانے میں آزاد ہے اور کسی اتھارٹی سے
مشاور ت کی پابند نہیں تا ہم سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر پر پابندی ہے
کہ وہ کونسل کی مشاورت کے بغیر رولز نہیں بنا سکتی۔ سپریم کورٹ ایک سپریم
ادارہ ہے جو آئین و قانون کی عمل داری کے لئے آئین و قانون کے مطابق کام
کرتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں بار کونسل، بار ایسوسی ایشنز ، وکلاء کا
کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بلکہ وکلاء پر انصاف کی فراہمی کے نظام
میں اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر وکلاء حضرات موثر کردار ادا نہ کریں تو
مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ نے لاء کمیشن کی
تشکیل اور عدالتی پالیسی ساز کمیٹی قائم کر کے عدلیہ کا تشخص بطور ادارہ
قائم کیا ہے۔ جس سے عدلیہ پر عوامی اعتماد میں اضافہ اور کارکردگی بڑھانے
میں قابل قدر پیش رفت یقینی ہے۔ انہوں نے عدالت عالیہ کی قواعد ساز کمیٹی
تشکیل دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ عدالتی ملازمین کے جوڈیشل الاؤنس کی
کٹوتی اور دیگر مالی معاملات کے حل کے لئے بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ ریاستی
عدلیہ کے حوالے سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ریاستی عبوری ایکٹ 1974میں
مجوزہ ترامیم کرتے وقت سپریم کورٹ میں ایک مستقل جج کا اضافہ ناگزیر ہو گا۔
کیوں کہ کام کے موجودہ حجم اور مستقبل میں روز افزوں اضافہ اس کا متقاضی ہے۔
اسی طرح دفعہ 42عبوری آئین ایکٹ 1974میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ جس میں عدالت
عظمیٰ کو ججوں کی تعداد کی قید سے آزاد کیا جانا ضروری ہے۔ کیوں کہ آبادی
میں اضافے کے ساتھ عدلیہ کا کام بھی بڑھ رہا ہے۔ عدالت میں مزید ججز تعینات
کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ ہر وقت آئین میں ترمیم کرنے کی دقت سے اس طرح
بچا جا سکتا ہے۔ ہائی کورٹ کا بھی یہی معاملہ ہو گا۔ ریاستی اداروں کے وقار
کو بڑھانے اور ان کی آئینی حثیت کے تعین کے لئے جس طرح دیگر اداروں کی
بہتری کے لئے ترامیم کی تجاویز ہیں ، اسی طرح سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر
کو بھی سپریم کورٹ آف پاکستان اور گلگت بلتستان کی طرز پر عوام کے وسیع تر
مفاد میں بنیادی حقوق کے نفاذ کے معاملات میں دادرسی کے لئے سپریم کورٹ آف
آزاد جموں و کشمیر کو اختیار سماعت تفویض کیا جائے اور اس بارے میں ضروری
تجاویز کو مجوزہ ترمیمی بل میں شامل کیا جائے۔ ریاستی سپریم کورٹ یا ہائی
کورٹ کے پاس کثیر القاصد جوڈیشل ہال نہیں۔ جوڈیشل ہال کی تعمیر کی فوری
ضرورت ہے۔
ریاست میں ابھی تک جوڈیشل اکیڈمی قائم نہیں کی جا سکی ہے۔ جس کی وجہ سے
جوڈیشل افیسران، لاء افیسران کی تربیت نہیں ہو سکی۔ جوڈیشل اکیڈمی کے قیام
کے لئے مطلوبہ قانون سازی اور دیگر اقدامات سے متعلق ریاستی حکومت کو تحریک
کی گئی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ حکومت جوڈیشل اکیڈمی کے قیام میں کوئی لعت
و لعل یا تاخیری حربہ استعمال نہ کرے گی اور نظام عدل میں بہتری کے لئے
جوڈیشل اکیڈمی کے قیام کے لئے فوری اور ضروری اقدامات کرے گی۔ عوام کو فوری
اور سستا انصاف چاہیئے۔ یہ انصاف مظلوم کو اس کی دہلیز پر ملے۔ چیف جسٹس
صاحب عوام کو انصاف کی فراہمی میں مخلص ہیں۔ کیوں کہ ان کی گزشتہ ایک سالہ
کارکردگی اس کی گواہ ہے۔ بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ ان کا ایک سال مکمل ہو
گیاہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے عدالتوں کو پابند بنایا کہ وہ ریکارڈ کا
تفصیلی جائزہ لے کر فیصلے کریں اور غلط و بے بنیاد مقدمات کو خارج کر دیں۔
عوام کا حکومتوں سے زیادہ عدلیہ پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ عدلیہ اگر تمام
ازموں سے پاک ہو کر صرف اور صرف انصاف کی فراہمی پر توجہ دے تو کسی کو
عدلیہ پر سیاست یا برادری ازم یا علاقہ پرستی کا الزام عائد کرنے کی جرائت
نہ ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آزاد کشمیر کی عدلیہ پر ماضی میں کسی
جانبداری یا سیاست یا کسی بھی غیر آئینی کام کے الزامات نہیں لگے۔جناب چیف
جسٹس چوھدری محمد ابراہیم ضیاء عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کے
علمبردار ہیں۔ ان کا ماضی بے داغ ہے۔ عدالتی اصلاحات کے لئے وہ سنجیدہ
دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح انہوں نے سپریم کورٹ میں وقفہ نماز، باجماعت نماز
قائم کرنے اور امامت کا فریضہ خود انجام دیا اور عملے کی انکریمنٹ کو
ادائیگی نماز کے ساتھمنسلک کیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔سیکولر لابی ہی نہیں
بلکہ بھارتی میڈیا نے بھی اس پر بہت واویلا کیا۔ایک اخبار نے اسے
Temptations of judicial pietyکی سرخی کے ساتھ خبر کا حصہ بنایا۔ اس سے
پہلے سپریم کورٹ میں قاری کی تقرری عمل میں لائی گئی۔ پرٹوکول افیسر کا
تقرر ہوا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکشن شروع کیا گیا۔ جس طرح جناب چیف جسٹس
چوھدری محمد ابراہیم ضیاء نے گزشتہ ایک سال میں ریاست میں آزاد عدلیہ، فوری
اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے کام کیا اور مستقبل میں آئین و قانون کی
بالا دستی کے عزم کے ساتھ کام کرنے کی جانب سفر تیز کیا ، اس سے عدالتی
اصلاحات کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ توقع ہے کہ حکومت اور بار اینڈ پینچ
عدالتی نظام کو موثر بنانے اور اس کی بہتری کے لئے سپریم کورٹ کے ساتھ
تعاون میں بھی مزید بہتری لائے گا۔ |