کیرالاکی نومسلم خاتون ڈاکٹرہادیہ کامعاملہ ابھی بھی
ذہنوں میں تازہ ہے۔اس معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آج بھی دماغوں میں
اٹکاہواہے۔ اسی سے بالکل ملتاجلتاکیس ریشما کابھی ہے ۔ہادیہ کاکیس سپریم
کورٹ پہنچاتھا مگر ریشما کامعاملہ بامبے ہائی کورٹ پہنچامگرسپریم کورٹ اور
بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔بامبے ہائی کورٹ
کا فیصلہ بی جے پی اورآرایس ایس کی مسلسل ریشہ دوانیوں سے نفسیاتی
طورپرہراساں ہوچکے ہندوستانی مسلمانوں کے لیےایک خوش آئند خبر ہے۔اس خبرسے
اندازہ ہوتاہے کہ ہندوستانی کورٹس میں انصاف ابھی مرانہیں ہے البتہ حکومت
اوراکثریتی طبقے کے دبائو میں کبھی کبھی ایسامحسوس ہوتاہے کہ مسلمانوں
کےلیے انصاف کہیں نہ کہیں دب ساضرورگیاہے۔خبریہ ہے کہ چندماہ قبل ہندودھرم
چھوڑکراسلام کے سایۂ رحمت میں آجانے والی ریشماکی درخواست بامبے ہائی
کورٹ نے قبول کرلی اوراس کی درخواست پراس کے شوہراقبال کے گھرجانے کی اجازت
دے دی اوراب وہ بے پناہ خوش ہے،اتنی خوش کہ وہ اسے لفظوں میں بیان نہیں
کرسکتی ۔
ریشماکے گھروالوں کو جب یہ معلوم ہواکہ وہ اسلام قبول کرنے والی ہے توانہوں
نے اس کے لیے رکاوٹیں کھڑی کردیں ۔پولیس اسٹیشن میں شکایات درج کرادی گئیں
چنانچہ اس کی بنیادپرپولیس نے اسے گرفتار کر لیا ۔ گرفتاری کے بعداس کے
شوہراقبال چودھری کوپولیس اسٹیشنوں،ایجنسیوں کے دفاتروں اورکورٹوں کے چکر
کاٹنے پڑے اور اخیر میں اس نے بامبے ہائی کورٹ میں رِٹ دائرکردی ۔رِٹ کی
بنیادپرمعززججوں نے ریشما کوجیل سے نکال کراس کی بات سنی ۔ریشماں نے ببانگ
دہل کہاکہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیاہے اوروہ اپنے شوہراقبال کے
ساتھ ہی رہناچاہتی ہے چنانچہ بامبےہائی کورٹ نے اسے اس کے شوہرکےگھرجانے کی
اجازت دے دی ۔مبارک ہوریشما!
ریشما اوراقبال دونوں کی محبت اور شادی کی روداد بھی دل چسپی سے خالی نہیں
ہے ۔دونوں ۲۰۱۱میں فیس بک پرملے ،دوستی ہوئی ،دوستی پیارمیں بدلی،اس پیارنے
اسے اسلام کے مطا لعے پر مجبور کر دیا اور اسلام اس کے دل میں گھر
کرتاچلاگیااوراسلام کو تو دل میں جاگزیں ہوناہی تھاکیوں کہ اسلام دین فطرت
ہے۔دنیاکابڑاسے بڑامتعصب بھی اگراسے اپنے خاندان، معاشرے اورماحول سے
اوپرہٹ کرنہایت غیر جانب داری سے پڑھے گاتواسے اسلام کے دامن میں پناہ لینی
ہی پڑے گی،بس حق کی جستجوشرط ہے۔ریشماکوبھی حق کی جستجوتھی جس نے اسے اسلام
تک پہنچا دیا اور ۲۰۱۶میں اس نے اقبال سے شادی کرلی ۔ شادی ہونے کی دیرتھی
کہ اس پرذہنی اذیتوں کے پہاڑٹوٹ پڑے اورجیل کی سلاخوں کے پیچھے دن گزارنے
پڑے مگرجب ایک بار کوئی انسان حق تک پہنچ جاتاہے توپھروہ اپنے قدم پیچھے
نہیں کھینچتا۔ریشما کو اسلام کی ٹھنڈی چھائوں نصیب ہوچکی تھی تووہ اس سے
محروم کیو ں ہوتی ۔ہزارمخالفتوں اورسزائوں کے باوجودریشما نے بامبے ہائی
کورٹ کےسامنے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔ شاباش ریشما!
بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے سے اس بات پربے حدمسرت ہوئی کہ ریشماں ،ہادیہ نہ
بن سکی ۔ہادیہ کاکیس قارئین بھولے نہ ہوں گے ۔ہادیہ کے معاملے کو کس طرح
نفرت کے سوداگروں نےلوجہادسے جوڑ دیا تھا اور سپریم کورٹ میں ہادیہ کے اس
بیان کے باوجودکہ وہ اپنے شوہرشفیع جہاں کے ساتھ ہی رہناچاہتی ہے ،ججوں نے
اس کی درخواست مستردکردی اورآج بھی ہادیہ مکمل طورپرآزادنہیں ہے ۔ریشما
خوش قسمت ہے کہ اس کا معاملہ میڈیامیں نہیں اچھلا۔یہ کام قدرے خاموشی کے
ساتھ ہوااوریوں ریشما کااس کابوائے فرینڈ(جواب اس کاشوہربن چکاہے )مل گیا ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اگریہ معاملہ ہادیہ کے معاملے کی طرح میڈیاکی شہ سرخیوں
تک پہنچ جاتاتوکیااس کاحشربھی ہادیہ کی طرح ہوتا؟ میرے خیال میں بات کچھ
ایسی ہی ہے ۔ملک کی عدالتوں پرہم مسلمانوں کومکمل اعتمادہے مگرجب اکثریتی
طبقے کی طرف سے دبائو ہوتاہے توپھرجج بھی کشمکش کے شکارہوجاتے ہیں کہ فیصلہ
کس طرح کریں اورکس طرح ۸۰فیصدطبقے کوناراض کردیں۔چندخوش نصیب جج ہی ایسے
ہوتے ہیں جوحالات سے اوپراٹھ کر حق وانصاف کے تقاضوں کوپوراکرتے ہیں ۔ہادیہ
کے معاملے میں سپریم کورٹ کافیصلہ اسی دبائوکاہی شاخسانہ تھا۔اگرریشما ،’’ہادیہ‘‘بن
جاتی توگمان غالب تھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کی ہی طرح
ہوتا۔ہمیں سب سےزیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ ریشما ،ہادیہ نہ بن سکی ،ہم بس
اس کے بہترمستقبل کے لیے دعاکرتے ہیں اورہادیہ کے لیے بھی دعاگوہیں کہ
جلدازجلداس کاکیس حل ہو جائےاوریوں اس کا شوہر اسے مل جائے۔بامبے ہائی کورٹ
کے اس فیصلے سے لو جہادکے نام پر پورے ملک میں نفرت کاماحول بنانے والےان
دہشت گردوں کو کوسخت دھچکا لگا ہوگا جو مسلمانوں کوہراساں کرنے کے لیے کوئی
بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مبارک ہوریشما کہ آپ کاشوہرآپ کو مل گیا
اورمبارک ہومیرے دوستو!کہ ریشما،ہادیہ نہ بن سکی ۔آئوہم سب مل کردعاکریں
کہ مستقبل میں کبھی بھی کوئی غیرمسلم لڑکی ’’ہادیہ‘‘نہ بن سکے۔ |