تما م تعریفیں اس خالق کائنات کیلئے جس نے تمام مخلوق
کوکسی نہ کسی فائدہ و مقصد کے تحت تخلیق کیا ، خواہ مخلوق میں نوع انسانی
پر نظر کریں یا ان کے علاوہ کسی دوسری مخلوق پر ،ہر مخلوق کی تخلیق کا کوئی
نہ کوئی مقصد ضرور ہے۔ درود و سلام ہوں اس آخری نبیﷺ پر جو کہ وجہہ تخلیق
کائنات ہیں۔
سب سے پہلے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ کوئی بھی عقل مند شخص بلامقصد کوئی
کام نہیں کرتا ،اس دنیا میں ہر کام کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد کار فرما
ہوتا ہے۔ انسان کا ایک قدم بھی بلا مقصد نہیں اْٹھتا۔ پہلے انسان دل میں
کسی مقصد کا تعین کرتا ہے پھر اْس کے حصول کے لئے سرگرم ہو جاتا ہے، یہی
زندگی کا اصول ہے۔ اب وہ اس سرگرمی میں بہت سے راستے اور طریقے اختیار کرتا
ہے اور مختلف افعال سر انجام دیتا ہے۔ لیکن کسی بھی راستے، طریقے یا فعل کا
انتخاب کرتے وقت وہ اپنے مقصد کو پیشِ نظر ضرور رکھتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کو
لاہور جانا ہے اور یہ لاہور جانا اْس کا مقصد ہے۔ اب وہ اس مقصد کے حصول کے
لئے بہت سے افعال سرانجام دے گا۔ وقت کا حساب لگائے گا، سواری کا بندوبست
کرے گا، راستے کا خرچ اور سامان کا انتظام کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب
کام کرتے ہوئے اْس کے ذہن میں ایک ہی مقصد ہے یعنی لاہور جانا۔ مثال کے طور
پر اگر وہ ٹرین کا ٹکٹ لینے جاتا ہے تو اب بھی مقصد ٹرین میں بیٹھنا نہیں
بلکہ لاہور جانا ہے اس لئے ایسی گاڑی کا ٹکٹ لینا ضروری ہے جو لاہور جاتی
ہے، چاہے اس کا ٹکٹ لینے کے لئے لمبی قطار میں دھکے کھانے پڑیں۔ اسی طرح
ٹرین میں سفر کے دوران وقت بھی گزارنا ہے مگر یہ ٹرین میں قیام بھی مقصد
نہیں۔ حاصل یہ کہ اس دوران اْس مسافر نے کام تو بہت سے کئے لیکن کسی کام کو
بھی اپنا مقصد نہیں بنایا بلکہ صرف اپنے اصل مقصد کے تابع رہا، اور اگر وہ
اپنے مقصد کو یاد نہ رکھتا تو بھٹکنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کر سکتا۔ تو
نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے اصل مقصد کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے، جو اپنے اصل
مقصد کو یاد نہیں رکھتا اور جو کام نظر آیا اْس کو مقصد بنا کر اْسی میں لگ
گیا تو ایسے مسافر کو کبھی منزل نہیں ملتی۔
اب کچھ اور غور کریں تو اوپر والی مثال میں اس مسافر کا اصل مقصد لاہور
جانا بھی نہیں کیونکہ وہ لاہور بھی تو کسی مقصد سے جارہا ہے، اور اْس کے
پیچھے بھی کوئی اور مقصد ہوگا۔ اس طرح بات چلتے چلتے ہماری زندگی کی ابتدا
تک پہنچتی ہے۔ یعنی ہمارا اصل مقصد ہماری زندگی کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ
تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے‘‘ (المومنین، 115)۔
ا س مختصر سے مضمون میں مختصر انداز میں ہم اس بات کو جاننے کو کوشش کریں
گے کہ ہما ری زندگی کا مقصد کیا ہے اور ہم اپنے مقصد کے حصول میں کتنے
کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام؟؟۔
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے اور
اسکے حصول کے ذرائع کیا ہیں،،
اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے،
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا‘‘
(الذاریات58)۔
اور عبادت کا مطلب رضائے الہٰی ہے۔ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہم پر واضح
فرما دیا کہ ہم سب انسانوں کا مقصدِ حیات اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنا
ہے، اور اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر زندگی کا ایک ایک لمحہ گزارنا ہے۔
سوتے جاگتے، اْٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، کوئی بھی کام کرتے وقت اس مقصد کو
یاد رکھنا ہے۔
اب ہم سب خود اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں کہ کیا ہم نے اپنی زندگی کے
مقصد کو یاد رکھا۔ یا ہم اْس بھولے ہوئے مسافر کی طرح ہو گئے ہیں جس کو
کبھی منزل نہیں ملتی۔ دنیا کے اسباب جو ہمیں مہیا کئے گئے تھے اپنے اصل
مقصد کی تکمیل کے لئے، اللہ پاک کی رضا کے حصول کے لئے، آج ہم ان اسباب میں
اتنا کھو گئے کہ انہی کو اپنا مقصد بنا لیا اور اپنے مقصودِ اصلی کو بھول
گئے جس کے لئے ہم اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ کیا غلاموں کو یہ زیب دیتا ہے
کہ اپنے مالک کی اس طرح کھلی نافرمانی کریں جس طرح آج ہم کر رہے ہیں۔ اور
مالک بھی ایسا رحیم و کریم کہ جس نے اپنے غلاموں کو آزاد چھوڑ دیا کہ جاؤ
دنیا میں میری دی ہوئی نعمتوں سے لطف اْٹھاؤ، اپنے کام دھندے کرو لیکن
شریعت کی حدود کے اندر رہ کر۔ ہاں دن میں پانچ وقت مجھے یاد کرلینا۔ لیکن
یہ مت بھولنا کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھناہے۔ حق تعالیٰ نے بار بار قرآنِ
پاک میں ہمیں یاد دہانی کروائی کہ ایک دن تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے
اور یہ بات بھول نہ جانا۔ اللہ تعالیٰ ایک بار بھی فرما دیتے تو ہمارے لئے
اس کو ماننا لازم تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہوتی، لیکن بار
بار اس لئے فرمایا کہ یہ حقیقت دلوں میں بیٹھ جائے۔
اب ہم دیکھیں کہ آ ج کا مسلمان کس راہ پر چل رہا ہے؟ کیا کر رہا ہے؟ تو
معذرت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا اورچہرے پر ندامت کا اثر
عیاں ہو جاتا ہے کہ آ ج کے مسلمان اور غیر مسلم کو ایک ساتھ کھڑا کر دیا
جائے اور کسی تیسرے بندے سے معلوم کیا جائے کہ ان میں کون مسلم اور کون غیر
مسلم ہے تو وہ آ ج کے مسلمان اور غیر مسلم میں فرق کرنے سے عاجز نظر آتا ہے
اور اس میں قصور اس عاجز آ نے والے شخص کا نہیں بلکہ اس مسلما ن کا ہے کہ
اس کے کردار ، افکار، اخلاق ، شکل و صورت سے کوئی اس بات کا تعین نہیں کر
سکتا کہ یہ مسلمان ہے یا غیر مسلم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ مسلمان کی
شخصیت ایسی ہو کہ اسکو دیکھ کر غیر مسلم سمجھ لے کہ یہ دین محمدی پر چلنے
والا مسلمان شخص ہے۔
مسلمان کی تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کی رضا والے کام کرتا اللہ کو راضی
کرتا ، حضور کی سنت کو اپنی زندگی میں نافذ کرتا ، حضور کے اخلاق و کردار
کو اپنی زندگی میں شامل کر کے اپنی زندگی کو حضور کے طریقہ کے مطابق گزار
تا ، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا مسلمان اپنی تخلیق کے مقصد
کو بھولا بیٹھا ہے اور اپنی زندگی کو فضول کاموں میں لگائے بیٹھا ہے، اور
شروع میں ہم نے دیکھا کہ جو شخص اپنے مقصد کا تعین نہ کرے یا تعین تو کرلے
مگر اپنے مقصد کے حصول میں کارآمد اسباب سے غافل رہے تو وہ کبھی اپنی مقصد
کو حاصل نہ کر سکے گا۔
اب ذرا سوچئے کہ اگر ہم اپنے مقصد کو بھول جائیں گے تو کیسے ہم اپنے مقصد
میں کامیاب ہونگے۔؟ ہم جتنا وقت فضول کاموں میں صرف کرتے ہیں مثال کے طور
پر ہم جتنا وقت اپنے موبائل کو دیتے ہیں اس میں سے آدھا وقت بھی کیاہم قرآن
کو دیتے ہیں؟ جتنا وقت ہم فیس بک اور واٹس ایپ کو دیتے ہیں اس میں سے آدھا
وقت بھی کیاہم نماز کو دیتے ہیں؟؟ تو شاید اکثر کا جواب نہیں میں ہوگا ، تو
سوچئے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ہم کیا کر رہے ہیں ،، ابھی بھی وقت ہے کہ ہم
اپنے آپ کو سنبھال لیں۔ اپنی تخلیق کے مقصد کو سمجھ لیں، اپنی زندگی حضور
کی تعلیمات کے مطابق گزاریں اسی میں کامیابی ہے۔
*****اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے مقصد کو سمجھنے اوراسی مقصد کے مطابق زندگی
گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ |