جی نہیں نااہلی نہیں جیتی اصل میں مظلومیت جیتی ہے جو
مظلوم ہوتا ہے اس کے ساتھ عوام اور قدرت اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں
یہ بات اگر سمجھنے والے سمجھ لیتے تو وہ سب نہ ہوتا جو ہوا
دوسری بات یہ کہ کام بولتا ہے اور جو بھی کام کرے گا اس کی تعریف بھی ہو گی
اور تائد بھی ہو گی اور مخالف کام پر توجہ دیتے اور اپنا وقت چلتی ہوی
حکومت کو دھکہ دینے پر نہ لگاتے اور سازشی عناصر بیرون ملک سے آکر سازش نہ
کرتے اور اگر کیا تو سواے عوام کو پریشان کرنے سڑکیں بلاک کرنے سے کیا حاصل
ہوا اور زبان درازیوں سے اگلی نسل کو کیا سکھایا اور اگر پہلے نہیں سیکھا
تو اب سیکھ لینا چاہیے اور شائد سیکھا جا رہا ہے
عوام نے اپنا فیصلہ سُنا دیا اور اس نئ ہوا کو مد نظر رکھتے ہوے اہلی اور
ناہلی کے طرف پھر سے غور کرنا چاہیے اور مصنوعی طریقوں سے عوامی لیڈر کو
ہٹانا اتنا بھی آسان نہیں اور عوام کے فیصلوں کا احترام بھی ہونا چاہئے
اس اہلی اور نااہلی کے سانچے میں کون پورا اتر سکتا ہے یا اس سانچے کو وسعت
دینی پڑے گی اور یا پھر اس میں سب پھنس کے رہ جایں گے اور کوی بھی نہیں بچے
گا اور صرف یہ سانچہ ہی بچے گا جو بچے کچے کو پھانسنے کے کام آے گا اور اگر
یہ قانون ختم بھی ہو گیا تو شائد کوی بنا لیا جاے گا نیا چوہے دان جس میں
پھر پھنسے گا کوی نیا سیاست دان جو نگلا جاے نہ اُگلا جاے اور خالی رہے گا
اُگال دان |