جنسی جرائم کی سزاؤں میں اضافہ اوردیگرضروری اقدامات

قومی اسمبلی نے ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روکنے کے لیے مجموعہ تعزیرات پاکستان ۰۶۸۱ء اورمجموعہ ضابطہ فوجداری میں مزیدترمیم کابل پاس کردیاہے۔یہ ایکٹ فوجداری قانون (ترمیمی ) ایکٹ ۷۱۰۲ء کے نام سے موسوم ہوگا ۔مجموعہ تعزیرات پاکستان ۰۶۸۱ کی دفعہ ۲۹۲ ج میں ترمیم کی گئی ہے۔جس کے تحت دوسال اورسات سال کی سزاکوبڑھاکرچودہ سال اوربیس سال کردیاگیاہے۔جرمانہ پہلے دولاکھ روپے سے سات لاکھ روپے تھاجسے بڑھا کر دس لاکھ کردیاگیا ہے۔مجموعہ تعزیرات پاکستان ۰۶۸۱ء کی دفعہ ۷۷۳ب میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس دفعہ کے تحت پہلے سزاسات سال ہوسکتی تھی اورپانچ لاکھ جرمانہ تھا۔جسے بڑھاکرلکھا گیا کہ سزاکم سے کم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال کردی گئی ہے اورجرمانہ دس لاکھ روپے ہوگا۔مجموعہ ضابطہ فوجداری ۸۹۸۱ء کے جدول دوم میں ترمیم کی گئی ہے۔دفعہ ۲۹۲ میں لکھاگیا ہے کہ کسی ایک نوعیت کی سزاکم سے کم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال ہوسکتی ہے اورجرمانہ دس لاکھ روپے سے کم نہیں ہوگا۔دفعہ ۷۷۳ب میں لکھا ہے کہ کسی ایک نوعیت کی سزائے قیدکم ازکم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال ہوسکتی ہے۔جرمانہ دس لاکھ روپے سے کم ہوگا۔یہ پرائیویٹ بل قومی اسمبلی کی رکن مسرت احمدزیب نے پیش کیا۔ ایوان نے متفقہ طورپربل کی منظوری دی۔بل کے اغراض ومقاصدمیں کہا گیا ہے کہ اس جرم کی شدت کے مقابلے میں سزائیں کی گئی ہیں بل کا مقصدبچوں کی فحش نگاری اورنابالغوں سے جنسی زیادتی کی سزامیں اضافہ کرناہے۔
جنسی زیادتی، بدفعلی کاشمارسنگین جرائم میں ہوتا ہے۔شریعت میں اس جرم کی سزامقررہے۔ یوں توسنگین جرائم میں اس جرم کانمبرقتل کے بعدآتا ہے۔ اس کی سزاپرغورکیاجائے تواس کی سزاقتل کے جرم سے بھی سخت ہے۔قاتل کوجب سزائے موت دی جاتی ہے توایک دفعہ دی جاتی ہے ۔ اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ چاہے قاتل کاسرتلوارسے کاٹ دیاجائے، چاہے اسے لوہے کی کرسی پربٹھاکربجلی کاکرنٹ چھوڑاجائے یاتختہ دارپرلٹکایاجائے۔جب کہ شریعت میں جنسی زیادتی یابدفعلی کی سزااس جرم کے مرتکب مجرم کوسنگسارکرنا ہے۔ یہ جرم فاعل اورمفعول دونوں کی رضامندی سے ہوتوسزابھی دونوں کودی جائے گی۔ دونوں کی رضا مندی نہ ہوتو اس جرم کوزنابالجبرکہاجائے گا۔ اس صورت میں صرف فاعل کوہی سزادی جائے گی۔جرم کا ارتکاب کرنے والا غیرشادی شدہ ہوتو اس کی سزاشادی شدہ مجرم کی سزاسے کم ہے۔پاکستان میں چونکہ شرعی سزائیں نافذنہیں ہیں۔پاکستان چودہ اگست سال انیس سوسنتالیس کومعرض وجودمیں آیا۔ تعزیرات ہند ایکٹ ۰۶۸۱ء کوتعزیرات پاکستان ۰۶۸۱ء کانام دے کرملک میں نافذکردیاگیا۔پاکستان میں اب تک سزائیں اسی تعزیرات پاکستان کے تحت ہی دی جاتی رہی ہیں۔دنیامیں جہاں دیگرشعبوں میں ترقی ہورہی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ تناسب سے جرائم میں بھی ترقی ہورہی ہے۔ ایک طرف نئی نئی ایجادسامنے آرہی ہیں تو دوسری طرف نئے نئے جرائم بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے ایسے مجرم بھی پکڑے گئے ہیں ۔جن کے جرائم کی سزاقانون میں تھی ہی نہیں۔ایسے جرائم میں دوجرم نمایاں ہیں۔ان میں ایک قبروں کے مردے نکال کران کاسال پکاکرکھانااوردوسراجرم گدھوں، کتوں اورمردارگوشت کی خریدوفروخت تھا۔قومی اسمبلی اب ان جرائم کی سزائیں بھی مقررکرچکی ہے۔جوں ہی دہشت گردی کی وارداتوں میں قدرے کمی آئی ہے۔ جنسی زیادتی کے جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ملک کے دیگرشہروں کے ساتھ ساتھ پنجاب کے ایک ہی شہرقصورمیں درجن سے زائدبچوں اوربچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اوراس سے پہلے اسی شہرمیں جنسی زیادتی کاسب سے بڑاسکینڈل اس جرم کی سنگینی اورپھیلاؤکاواضح ثبوت ہے۔قصورمیں کم سن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اوراس کے قتل کے المناک اورشرمناک واقعہ کے بعد یہ بحث زورپکڑگئی تھی کہ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت کیسے کرنی چاہیے۔یہ بھی کہاجارہا تھا کہ بچوں کواپنی حفاظت کرنے کی تربیت دی جائے۔کچھ لوگ بچوں کواپنی حفاظت کی تربیت دینے کی آڑمیں اپنے خفیہ مقاصدپورے کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی عجیب وغریب وجہ یہ پیش کی گئی کہ ایسے واقعات اس لیے ہورہے ہیں کہ بچوں کوسکولوں میں جنسی تعلیم نہیں دی جاتی۔ ایسے جرائم کی روک تھام کایہ طریقہ بتایا گیا کہ سکولوں میں جنسی تعلیم دی جائے۔سکولوں میں جنسی تعلیم سے جنسی زیادتی کے جرائم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اس طرح تواس طرح کے جرائم میں اضافہ ہی ہوگا۔ہمارے معاشرے کی یہ اچھی روایت ہے کہ نابالغ تورہے ایک طرف غیرشادی شدہ کے سامنے بھی جنسی معاملات بات نہیں کی جاتی۔ کچھ لوگ سکولوں میں جنسی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعدتوبچے بچے کی زبان پرجنسی معاملات پرہی گفتگوہوگی۔شیطان جرائم کی طرف جلدی متوجہ کرتاہے۔دوچاربچے جہاں بھی اکٹھے ہوں گے وہ سکولوں میں جنسی تعلیم کے بعداسی پرہی آپس میں گفتگوکریں گے۔اس سے توبچوں کی معصومیت تواوربھی داؤپرلگ جائے گی۔ہم سکولوں میں جنسی تعلیم کے پہلے بھی خلاف تھے اب بھی خلاف ہیں۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام سکولوں میں جنسی تعلیم نہیں اس جرم کے مرتکب مجرم کی سزاؤں میں اضافے سے ہی ممکن ہے۔جرائم کے مرتکب مجرموں کوسزائیں بھی اس لیے دی جاتی ہیں کہ ان کی سزاؤں کودیکھ کردوسرے لوگ عبرت پکڑیں اورجرائم کے نزدیک بھی نہ جائیں۔قصوراوردیگرشہروں میں کم سن بچوں اوربچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے بعدیہ ضروری ہوگیاتھا کہ تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرکے اس جرم کی سزاؤں میں اضافہ کیاجائے۔ قومی اسمبلی نے مجموعہ تعزیرات پاکستان ۰۶۸۱ء اورمجموعہ ضابطہ فوجداری ۸۹۸۱ء میں ترمیم کرکے نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرائم کی سزاؤں اورجرمانوں میں اضافہ کردیا ہے۔ جس کی تفصیل اس تحریر کے آغازمیں موجودہے۔جنسی زیادتی کے جرم کی سزاؤں اور جرمانوں میں اضافہ اس لیے کیاگیا ہے تاکہ اس جرم کومزیدپھیلنے سے روکاجاسکے اورمعاشرے کوبڑھتی ہوئی بے راہ روی سے روکاجاسکے۔قومی اسمبلی نے جنسی زیادتی کے جرم کی سزاؤں میں اضافہ کرکے اپنافرض اداکردیا ہے۔قومی اسمبلی پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہے۔قومی اسمبلی کامتفقہ طورپراس جرم کی سزاؤں اورجرائم میں اضافہ کرنے کی منظوری دینا اس بات کاثبوت ہے کہ پوری قوم جنسی زیادتی کے واقعات اوربڑھتی ہوئی بے راہ روی کی روک تھام چاہتی ہے۔قومی اسمبلی نے اپنافرض تواداکردیا ہے ۔ اس نے اس سلسلہ میں اپنامکمل فرض ادانہیں کیا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سزاؤں کے خوف سے مجرم عبرت پکڑتے ہیں اور جرائم کے ارتکاب میں کمی آتی ہے۔جنسی زیادتی اوردیگرجرائم کی روک تھام کے لیے صرف سزاؤں اورجرمانوں میں اضافہ کرناہی کافی نہیں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے دیگراقدامات بھی ضروری ہیں۔جنسی زیادتی کے جرم کی سزاؤں اورجرمانوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ایسے تمام محرکات کاخاتمہ بھی ضروری ہے جواس جرم کے ارتکاب میں مددگارثابت ہوتے ہیں یااس جرم کی طرف اکسانے کاسبب بنتے ہیں۔ جرائم کے ارتکاب میں کمی لانے کے لیے سزاؤں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان سزاؤں کایکساں نفاذبھی ضروری ہے۔مکمل اورہرزاویہ سے تحقیق وتفتیش کے بعد جس پربھی جرم کاارتکاب ثابت ہوجائے تواس کو قانون کے مطابق سزادی جائے۔ مجرم کاتعلق چاہے کتنے ہی بااثرخاندان سے کیوں نہ ہو اس کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے۔مجرم چاہے امیرہویاغریب، خاص ہویاعام جرم کے مطابق اسے سزاملنی ہی چاہیے۔سزاؤں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسے عوامل کی روک تھام بھی ضروری ہے جوجنسی زیادتی کے جرم میں معاون ثابت ہوتے ہیں یااس جرم کاسبب بنتے ہیں۔جس طرح کسی بھی مرض کاعلاج توکیاجائے پرہیزنہ کیاجائے توصحت یابی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ قومی اسمبلی نے جنسی زیادتی کے جرم کاسزاؤں اورجرمانوں میں اضافہ کرکے علاج توکردیا ہے ۔ پرہیز کے بارے میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اقدامات بھی ایسے ہونے چاہییں جس سے جرائم میں کمی واقع ہوایسے اقدامات نہ ہوں جن سے جرائم مزیدبڑھ جائیں۔سکولوں میں کم سن بچیوں سے بے ہودہ رقص کرانے سے جنسی زیادتی کے جرائم میں کمی لائی جاسکتی ہے یااس سے بچیوں کی معصومیت بھی داؤپرلگ جاتی ہے ۔ سوچیں کہ کم سن بچیوں سے اس طرح کے رقص کرانے سے ہماری نئی نسل کوکیاسکھایا جارہا ہے اوراس کے مستقبل میں کیانتائج برآمدہوں گے۔ کاش کسی کویہ سوچنے اورسمجھنے کاحوصلہ بھی ہوتا۔فلموں اورڈراموں میں جو کلچر دکھایا جارہا ہے۔ اس سے جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی ہوگی یااضافہ ؟اکثرفلموں اورڈراموں میں مرداورعورت کاگھروالوں سے چھپ کرمحبت کرنااورخاندان والوں سے چھپ چھپ کرباغوں اورپارکوں میں ملاقاتیں کرنے سے قوم کوکیادکھایااورسکھایاجارہاہے۔کیایہ بھی سوچاہے کسی نے کہ الیکٹرانک میڈیا چینلز پر مختلف پراڈکٹ کے کواشتہاردکھائے جارہے ہیں ان سے مصنوعات کی تشہیرزیادہ ہورہی ہے یاجنسیات کی۔جب اشتہارات میں عورت کے جسم کی نمائش کی جائے گی تواس کے کیانتائج سامنے آئیں گے کاش اس بارے بھی کوئی سوچتااورسمجھتا۔یہ بات درست ہے کہ عورت کے جسم کی نمائش پرمبنی اشتہارات اس لیے دیے اوردکھائے نہیں جاتے کہ ان سے جرائم کوفروغ ملے۔ایسے اشتہارات جنسی جرائم کاسبب بن سکتے ہیں۔انٹرنیٹ پربے ہودہ اورفحش تصاویراورویڈیوزبھی جنسی جرائم کاسبب ہیں۔ایسی بہت سی ویب سائٹس بلاک کی جاچکی ہیں جوفحش تصاویریاویڈیوزدکھاتی ہیں ۔ چوردروازوں سے ایسی ویب سائٹس اب دیکھی جارہی ہیں۔پی ٹی اے کویہ چوردروازے بھی بندکرناہوں گے۔کیایہ بھی کسی نے سوچاہے کہ فاسٹ فوڈ زکے استعمال سے ہماری صحت اورجنسیات پرکیااثرات مرتب ہورہے ہیں۔برائلرمرغی اورمچھلی ہماری صحت اورجنسیات پرکیااثرات مرتب کررہی ہیں۔ٹیکے والادودھ ہماری صحت اورجنسیات کے ساتھ کیاسلوک کررہا ہے۔ کاش اس طرف بھی کوئی توجہ دیتا۔جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے سزاؤں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ سکولوں میں طلباء کے ہرقسمی رقص کرنے، دکھانے اوردیکھنے پرپابندی لگائی جائے۔فلموں اورڈراموں میں مرد اورعورت کاگھروالوں سے چھپ کرمحبت کرنااورخاندان والوں سے چھپ چھپ کرملاقاتیں کرنانہ دکھایاجائے۔ عورت کے جسم کی نمائش والے کمرشل اشتہارات نہ دکھائے جائیں۔فحش تصاویراورویڈیوزدکھانے والی ویب سائٹس بلاک کرکے انہیں دیکھنے اوردکھانے کے چوردروازے بھی بندکیے جائیں۔برائلرمرغی، برائلرمچھلی پربھی مکمل پابندعائدکرکے دیسی مرغی اوردریائی مچھلیوں کوفروغ دیاجائے۔فاسٹ فوڈزپربھی پابندی ہونی چاہیے۔ایسے جرائم سے بچنے کے لیے اپنی نگاہوں اورخیالات کوبھی پاکیزہ رکھناضروری ہے۔فحش تصاویردیکھنے اور برے خیالات سے اجتناب کیاجائے ۔ فارغ اوقات میں اپنی گزشتہ زندگی کاجائزہ لیں کہ کون کون سے کام آپ سے غلط ہوگئے اورکیوں ہوئے۔ایسے کاموں کے ازالہ، کفارہ کی ترکیب تیارکریں۔انبیاء کرام، اولیاء کرام کی حیات مبارکہ پرمبنی اوردیگراسلامی وتاریخی کتب کامطالعہ کریں۔زبان پراللہ تعالیٰ اوراس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذکرجاری رکھیں۔جرائم کاخیال آتے ہی قیامت کامنظرسامنے لے آئیں اوراپنے آپ کوسمجھائیں کہ اللہ کاعذاب برداشت کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے۔جس طرح ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ضروری تھا۔اسی طرح جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے یہ اقدامات بھی ضروری ہیں۔

ڈاکٹرفوزیہ حمیدکی طرف سے پیش کردہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ترمیمی) بل جسے ایوان نے متفقہ طورپرمنظورکرلیاکے تحت کل پاکستان ملازمتوں ،وفاق کی ملازمت ہائے دیوانی، وفاق کے معاملات کے ضمن میں دیوانی اسامیوں اوروفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والی کارپوریشنوں،خودمختاراداروں میں بنیادی پے سکیل گیارہ یااس کے مساوی اوراس سے بالاپرافرادکی بھرتی کے لیے ٹیسٹ اورامتحانات منعقدکیے جائیں گے۔بل میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ کمیشن اپنابھرتی عمل اشتہارکی اشاعت کی تاریخ سے آٹھ ماہ کے عرصہ کے اندرمکمل کرے گا۔بل کے اغراض ومقاصدمیں کہاگیا ہے کہ ایف پی ایس سی کادائرہ اختیارصرف پی ایس سولہ اوراس کے اوپرکی اسامیوں تک محدودہے۔دوسرے یہ کہ خودمختاراورآئینی ادارے ایف پی ایس سی کے برعکس کم مسابقتی امتحانات کے ذریعے پر کیا جائے۔ایوان میں قومی اسمبلی کامجالس قائمہ کی متعددرپورٹس بھی پیش کی گئیں۔شازیہ مری نے قومی اسمبلی میں کارروائی اورطریقہ کارمیں ترمیم پیش کی جس میں تجویزدی گئی ہے کہ کمیٹی کے ایک چوتھائی تعدادخواتین پرمشتمل ہونی چاہیے۔ڈپٹی سپیکرنے یہ تجویزغورکے لیے مجلس قائمہ برائے قواعدوضوابط کوبھیج دی۔
؁ٗ

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350665 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.