(یکم جمادی الاخریٰ۱۴۳۹ہجری مطابق ۱۸فروری ۲۰۱۸عیسوی آپؒ
کے ۴۳ویں عرس مبارک پرخصوصی تحریر)
جس نے پیداکئے کتنے لعل وگوہر
حافظ دین وملت پہ لاکھوں سلام
عہدصحابہ سے لے کراب تک تاریخ اسلام کے ہرقرن اورہرعہدمیں ایسی شخصیتیں
اُفق اسلام پرطلوع ہوتی رہی ہیں۔جن کی عبقریت کالوہادنیاوالوں نے
مانا۔اوراُنہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کیاہے۔اس منتہائے
کمال خصوصیت کاحاصل ہوناکچھ آسان کام نہیں کہ ہرکس وناکس کوحاصل ہوجائے،اس
کے لئے آزمائش کی کسوٹی پرچڑھناپڑتاہے ۔اُٹھنے والے نت نئے فتنوں سے پوری
دلیری کے ساتھ مقابلہ کرناپڑتاہے۔ طوفان حوادث سے گزرناپڑتاہے۔وقت کے غلط
افکاروخیالات ونظریات سے ٹکرلینی پڑتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس وصف کی حامل
ملّت اسلامیہ کی ان عظیم شخصیتوں کاسرچشمۂ کمال کیاہے جس کی بدولت اُن کی
عبقریت کاسکہ چہاردانگ عالم میں چلتارہاہے۔ان مقدس شخصیتوں کی سیرت
وکردارکی گہرائی میں جانے سے اندازہ ہوتاہے کہ تمام بزرگوں میں قدرے مشترک
اتباع سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم وتحفظ اسلام کاپاکیزہ جذبہ کارفرماتھا۔جس
نے اُنہیں گنجینۂ خیرومنارۂ ہدایت بنادیا۔اسلامی روایات کے مطالعہ سے
ظاہرہورہاہے کہ جن جن حضرات نے اس جوہرکواپنایاوہ عظمت ورفعت کاآفتاب بن
کرچمکااوراسلام کابطل جلیل قرارپایا۔خلفائے راشدین رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم
اجمعین کی کتابِ زندگی کاایک ایک ورق ،امام عالی مقام ،سیدالشہداء
سیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مقدس خون کاایک ایک قطرہ ،حضرت
امام الائمہ ،سراج الا ُمّہ، امام اعظم ابوحنیفہ ،حضرت امام احمدبن حنبل
رحمہمااﷲ تعالیٰ کی حیات طیبہ کاایک ایک گوشہ پکاررہاہے کہ یہ ذوات مقدسہ
،تحفظ اسلام واتباع سنت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بہترین نمونہ ہیں۔
موجودہ صدی میں مسندعلم ودانش سے کتاب وسنت کی نقیب ایک ایسی شخصیت ابھری
جوابھرتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ آسمان سنیت پرچھاگئی۔پھروہ وقت آیاکہ اس
ہستی کی عبقری شان دن کے اُجالے کی طرح سامنے اُجاگرہوگئی۔اورقوم نے اُنہیں
رہنمائے ملت،معمارقوم،شیخ الحدیث ،فقیہ بے بدل،مشائخ کے
امیروسلطان،شہریارعلم وحکمت،مطلع فکرونظر،پیکرِاخلاص والفت،سادگی کے
مجسمہ،حُسن عمل کے پیکر،مردکامل،تقویٰ شعار،سنیت کے تاجدار،حافظ ملت کے
مؤقرالقابات وخطابات دے کراعتراف حقیقت کیا۔
ولادت باسعادت: جلالۃ العلم ،حافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزمحدث
مرادآبادی ؒ ۱۳۱۲ھ مطابق1894ء ''قصبہ بھوج پور''ضلع
مرادآباد(یوپی)بروزپیرصبح کے وقت بزم ہستی میں رونق افروزہوئے۔آپؒ کے
جدامجدمولاناعبدالرحیم ؒنے دہلی کے مشہورمحدث حضرت شاہ عبدالعزیزرحمۃ اﷲ
علیہ کی نسبت سے آپؒ کانام عبدالعزیزرکھاتاکہ میرایہ بچہ عالم دین بنے۔آپؒ
کے والدماجدحضرت حافظ غلام نورؒکی شروع سے یہی تمناتھی کہ آپ ایک عالم دین
کی حیثیت سے دین متین کی خدمت سرانجام دیں لہٰذابھوجپورمیں جب بھی کوئی بڑے
عالم دین یاشیخ طریقت تشریف لاتے توآپ اپنے صاحبزادے حضورحافظ ملت ؒ کوان
کے پاس لے جاتے اورعرض کرتے حضور!میرے اس بچے کے لئے دعافرمادیں۔آپ کے
والدماجداحکام شرع کے پابند،متبع سنت،باعمل حافظ اورعاشق قرآن تھے۔اُٹھتے
بیٹھتے چلتے پھرتے قرآن مجیدکی تلاوت زبان پرجاری رہتی حفظ قرآن اس
قدرمضبوط تھاکہ آپ ـــ’’بڑے حافظ جی‘‘کے لقب سے مشہورتھے ۔بچوں کی عمرسات
سال ہوتے ہی اُنہیں نمازکی تاکیدکرتے اورکوئی ملنے آتاتوخوب مہمان نوازی
کیاکرتے ۔آپؒ کی والدۂ محترمہ نمازروزے کی بڑی پابندی فرماتیں۔مسلمانوں کی
خیرخواہی اورایثارکاایساجذبہ عطاہواتھاکہ گھرمیں غُربت ہونے کے
باوجودپڑوسیوں کابہت خیال رکھاکرتیں،اکثراپناکھاناایک بیوہ پڑوسن
کوکھلادیتیں اورخودبھوکی رہ جاتیں۔
آپ کی تعلیم: حضورحافظ ملتؒ نے ابتدائی تعلیم ناظرہ اورحفظ قرآن کریم کی
تکمیل والدِماجدحافظ غلام نورؒسے کی۔اس کے علاوہ اُردوکی چارجماعتیں وطنِ
عزیزبھوجپورمیں پڑھیں،جبکہ فارسی کی ابتدائی کتب بھوجپوراور''پیپل
سانہ''(ضلع مرادآباد)سے پڑھ کرگھریلومسائل کی وجہ سے سلسلۂ تعلیم موقوف
کیااورپھرقصبہ بھوجپورمیں ہی مدرسہ حفظ القرآن میں مدرس اوربڑی مسجدمیں
امامت کے فرائض انجام دیئے۔کچھ عرصے بعدحالات بدلے اورآپؒ27سال کی
عمرمیں''جامعہ نعیمیہ مرادآباد''میں داخلہ لے لیااورتین سال تک تعلیم حاصل
کی ۔مگراب علم کی پیاس شدت اختیارکرچکی تھی جسے بجھانے کے لئے کسی علمی
سمندرکی تلاش تھی ۔۱۳۴۲ھ میں'' آل انڈیاسنی کانفرنس''مرادآبادمیں
منعقدہوئی جس میں مشہورومعروف اورنامورعلمائے اہلسنت تشریف لائے جن میں
خلیفۂ اعلیٰ حضرت ،حضرت صدرالشریعہ مفتی امجدعلی علیہ الرحمۃ والرضوان
(مصنف بہارشریعت)بھی شامل تھے۔آپ ؒ نے موقع دیکھ کرحضرت صدرالشریعہ کی
بارگاہ میں درخواست کی توحضرت نے فرمایا: شوال المکرم سے اجمیرشریف آجائیں
مدرسہ معینیہ میں داخلہ دلواکرتعلیمی سلسلہ شروع کرادوں گا۔۱۳۴۲ھ میں
حضورحافظ ملتؒ اپنے چندہم اَسباق دوستوں کے ساتھ اجمیرشریف پہنچے ،چنانچہ
حضرت صدرالشریعہ ؒنے سب کوجامعہ معینیہ میں داخلہ دلوادیا،تمام درسی کتابیں
دیگرمدرسین پرتقسیم ہوگئیں مگرحضرت صدرالشریعہ ؒ نے اَزراہ ِشفقت اپنی
مصروفیات سے فارغ ہوکرآپ کوخاص طورپرتہذیب اوراصول الشاشی کادرس
دیاکرتے۔علم منطق کی کتاب ''حمداﷲ''تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدحافظ ملتؒ نے
معاشی پریشانی اورذاتی مصروفیت کی وجہ سے مزیدتعلیم جاری نہ رکھنے کاارادہ
کیااوردورۂ حدیث شریف پڑھنے کی خواہش ظاہرکی توحضرت صدرالشریعہ ؒنے شفقت سے
فرمایا:آسمان زمین بن سکتاہے،پہاڑاپنی جگہ سے ہل سکتاہے لیکن آپ کی ایک
کتاب بھی رہ جائے ایساممکن نہیں۔چنانچہ آپؒ نے اپناارادہ ملتوی
کردیااورپوری دلجمعی کے ساتھ حضرت صدرالشریعہ ؒکی خدمت اقدس میں رہ کرمنازل
علم طے کرتے رہے بالآخراستاذِمحترم حضرت صدرالشریعہ ؒ کی نگاہ فیض سے
۱۳۵۱ھ مطابق1932ء میں ''دارالعلوم منظراسلام ''بریلی شریف سے دورۂ حدیث
مکمل کیااوردستاربندی ہوئی۔
مبارک پورمیں آمداورجامعہ اشرفیہ کاسنگ بنیاد: آپ ؒ فارغ التحصیل ہونے کے
بعدکچھ عرصے بریلی شریف میں حضرت صدرالشریعہ ؒکی خدمت میں رہے۔شوال المکرم
۱۳۵۲ھ میں حضرت صدرالشریعہ ؒنے آپؒ کومبارک پور،ضلع اعظم گڑھ( یوپی)میں
درس وتدریس کاحکم دیاتوآپؒنے عرض کی :حضور!میں ملازمت نہیں کروں
گا۔صدرالشریعہ ؒنے فرمایا:میں نے ملازمت کاکب کہاہے؟میں توخدمتِ دین کے لئے
بھیج رہاہوں۔ آپ ؒ ۲۹؍شوال المکرم ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۴؍جنوری 1934ء کومبارک
پورپہنچے اور( پرانی بستی)میں تدریسی خدمات میں مصروف ہوگئے ۔ابھی چندماہ
ہی گزرے تھے کہ آپ ؒ کے طرزِ تدریس اورعلم وعمل کے چرچے اطراف واکناف میں
عام ہوگئے اورتشنگان علوم نبویہ کاایک عظیم سیلاب اُمنڈآیاجس کی وجہ سے
مدرسے میں جگہ کم پڑنے لگی اورایک بڑی درسگاہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔چنانچہ
آپؒنے اپنی جہدمسلسل سے ۱۳۵۳ھ میں دنیائے اسلام کی ایک عظیم درسگاہ
دارالعلوم کی تعمیرکاآغازگولہ بازارمیں فرمایاجس کانام سلطان التارکین حضرت
سیدمخدوم اشرف جہانگیرسمنانی قدس سرہ النورانی(کچھوچھہ شریف) کی نسبت سے
''دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم ''رکھاگیا۔آپؒشوال۱۳۶۱ھ میں کچھ مسائل کی
بناپراستعفیٰ نامہ دے کرجامعہ عربیہ ناگپورتشریف لے گئے ،چونکہ آپؒ مالیات
کی فراہمی اورتعلیمی اُمورمیں بڑی مہارت رکھتے تھے لہٰذاآپ کے دارالعلوم
اشرفیہ سے چلے جانے کے بعدوہاں کی تعلیمی اورمعاشی حالت انتہائی خستہ ہوگئی
توحضرت صدرالشریعہ ؒکے حکم خاص پر۱۳۶۲ھ میں ناگپورسے استعفیٰ دے کردوبارہ
مبارکپورتشریف لائے اورتادم حیات دارالعلوم اشرفیہ سے وابستہ رہ کرتدریسی
ودینی خدمات کی انجام دہی میں مشغول رہے۔حافظ ملتؒ کی انتھک کوششوں سے
حضورمفتی اعظم ہند،شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی محمدمصطفی رضاخان،حضور علیہ
الرحمۃ والرضوان اوردیگرعلماء کرام ومشائخ عظام کے دست مبارک سے ۱۳۹۲ھ
مطابق 1972ء میں مبارک پورضلع اعظم گڑھ(یوپی)میں وسیع قطع ارض پرباغ
فردوس''الجامعۃ الاشرفیہ-عربی یونیورسٹی ''کاسنگ بنیادرکھاگیا۔مرکز علم
وحکمت ’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘کاسنگ بنیاد رکھنے کے پس منظرکواگردیکھاجائے
تویہ حقیقت منکشف اورآشکاراہوجاتی ہے کہ حافظ ملتؒ کوقوم مسلم کی ملی،دینی
اورتعلیمی زبوں حالی کابڑاقلق تھاآپ نے اس پہلوپراپنے طویل تجربات اورپیہم
مشاہدات کی روشنی میں محسوس کیاکہ قوم مسلم کے نونہالوں کواپنی دینی زندگی
اورقومی بقاکے لئے دینی علوم قرآن وحدیث ،فقہ وتفسیروغیرہ کے ساتھ دیگرقدیم
وجدیدعلوم وفنون کی بصیرت بھی ضروری ہے ایک موقع پرآپ نے ’’الجامعۃ
الاشرفیہ کی تعلیمی تحریک پرروشنی ڈالتے ہوئے فرمایاـــ’’الجامعۃ
الاشرفیہ‘‘سے میرامقصددرس نظامیہ کے طلباء کوہندی انگریزی اورعربی زبان
وادب کاصاحب قلم اورصاحب لسان بناناہے تاکہ وہ ہنداوربیرون ہندمذہب اہلسنت
کی اشاعت کرسکیں‘‘اورعصری علوم وفنون سے طالبان علوم نبویہ کومرصع کرنے کے
لئے فرمایا ’’میں اپنے ادارے میں ٹیکنیکل تعلیم کے شعبے بھی قائم کروں گا''
آپ کے آفاقی نظریہ تعلیم وتربیت کے روشن وتابناک پہلوکوشرمندۂ تعبیرکرنے کے
لئے آپ کے لائق وفائق شہزادہ،جانشین ومحافظ حضرت عزیزملت مولاناشاہ
عبدالحفیظ (علیگ)مصباحیؔ دام ظلہ جوقدیم وجدیدسے ہم آہنگ ،مذہبی اورعصری
تعلیم کے سنگم ہیں بڑی برق رفتاری سے منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔اورآج
حضورعزیزملت مولاناعبدالحفیظ مصباحیؔ دام ظلہ کی قیادت میں’’الجامعۃ
الاشرفیہ‘‘اپنی گراں قدرتعلیمی،تبلیغی،ملی اورتصنیفی خدمات کے تحت تدریسی
اورغیرتدریسی شعبے میں مصروف عمل ہے۔
تعلیمی شعبوں میں طلبہ اورطالبات کی تعداد9 ہزارہے اورمختلف شعبوں میں
اسٹاف کی تعداد300 سے زائدہے ۔مبارکپورکی آبادی میں جونیرہائی اسکول ،نسواں
ہائی اسکول،اشرفیہ انٹرکالج،قدیم مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم،عالیشان جامع
مسجدراجہ مبارکپورشاہ،متعددمحلوں میں بچوں کے لئے مکاتب
کاانتظام،لائبریریوں اورانجمنوں،اساتذہ کی رہائش اورمارکیٹوں کاخوشنماجال
پھیلاہواہے اورملک وبیرون ملک کے سیکڑوں دینی وعصری ادارے اس کی شاخ کی
حیثیت سے حافظ ملت کی ملی اورتعلیمی مشن کی ترویج واشاعت میں گامزن ہیں جب
کہ ’’الجامعۃ الاشرفیہ ‘‘میں کلیۃ الشریعہ درس نظامیہ میں
مولویت،عالمیت،فضیلت،تخصص فی الفقہ،تخصص فی الادیان،تخصص فی الادب،تخصص فی
الحدیث،حفظ قرآن کریم،قرأت حفص،قرأت سبعہ،قرأت عشرہ جیسے تجویدکے شعبے بحسن
وخوبی نونہالان اسلام کی علمی تشنگی بجھانے میں زیرعمل ہیں،اورطالبان علوم
وارث نبویہ کے لئے دیگرلازمی عصری علوم کے ساتھ حافط ملت انفارمیشن
اینڈٹکنالوجی کاشعبہ ہے۔طلباء اورقلمکارحضرات کی علمی سیرابی کے لئے اس کی
مختلف لائبریریاں ہیں جس میں’’امام احمدرضالائبریری‘‘مختلف علوم وفنون
اورمختلف زبانوں میں ہزاروں اہم اورنادرونایاب کتابوں اورقیمتی خطوط
پرمشتمل ہے۔شعبۂ نشرواشاعت کے تحت سربراہ اہل سنت پروفیسرسیدحضرت امین میاں
مارہروی مدظلہ العالی کی سرپرستی میں’’مجلس برکات ‘‘کاقیام عمل میں آیاجہاں
عصرحاضرکے تناظرمیں علمائے اہلسنت وجماعت کی دینی اوردرسگاہی کتابوں پرنئے
رنگ ڈھنگ سے کام کرنے اوران قدیم کتابوں کی تصحیح،ترتیب اورتسہیل کے لئے
یہاں کے فارغین''مصباحی''علماء وفضلاء کی ایک بڑی ٹیم مصروف عمل ہے اوراب
تک سیکڑوں درسی اورغیردرسی معیاری کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں۔اورہرماہ
پابندی سے شائع ہونے والاجدیدوقدیم سے ہم آہنگ معیاری مضامین،عمدہ کتابت
وطباعت کے ساتھ جامعہ اشرفیہ کادینی اورعلمی ترجمان ’’ماہنامہ اشرفیہ‘‘طویل
عرصے سے شائع ہورہاہے ۔’’شارح بخاری دارالافتاء‘‘بھی موجودہے جس میں مفتیان
کرام کی اچھی خاصی تعدادموجودہے جہاں ملک وبیرون ملک سے آنے والے
دشوارگزارمسائل کوقرآن وحدیث اوراقوال سلف کی روشنی میں ’’فی سبیل اﷲ‘‘حل
کیاجاتاہے۔جامعہ اشرفیہ کااہم شعبہ ’’مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارکپور‘‘بھی
ہے جس کے تحت عصرحاضرکے سلگتے اوراہم مسائل پرپورے ملک کے سیکڑوں
باوقارمفتیان کرام کاکسی اہم مقام پرسیمینارہوتاہے،صدرمجلس شرعی
اوردیگرمندوبین مفتیان کرام کے مسائل میں شدیدبحث وتحقیق کے بعدکسی مسئلے
میں متفق ہونے کی صورت میں امت کی فلاح وبہودکے پیش نظراس مسئلے کومنظرعام
پرلایاجاتاہے بحمدہ تعالیٰ اب تک مجلس شرعی کے چوبیس(24) فقہی سیمینارہوچکے
ہیں۔بڑے پیمانے پر’’حافظ ملت ہاسپیٹل‘‘ کاقیام عمل میں آچکاہے جہاں
نادارطلبہ اورغریب مسلمانوں کاعلاج مفت کیاجاتاہے اور’’حافظ ملت طبیہ کالج
‘‘کی منظوری اخیرمرحلے میں ہے ۔انشاء اﷲ جلد ہی اس کاآغاز ہونے والا ہے
۔حافظ ملتؒ علم دین کے طلبگاروں سے بے پناہ محبت فرمایاکرتے تھے،طلبہ کوکسی
غلطی پر مدرسہ سے نکال دینے کوسخت ناپسندکرتے اورفرماتے :مدرسے سے طلبہ
کااخراج بالکل ایساہی ہے جیسے کوئی باپ اپنے کسی بیٹے کوعلیحدہ کردے یاجسم
کے کسی بیمارعضوکوکاٹ کرالگ کردے ،مزیدفرماتے ہیں:انتظامی مصالح کے پیش
نظراگرچہ یہ شرعاً مباح ہے لیکن میں اسے بھی ابغض مباحات سے سمجھتاہوں۔
وقت کی پابندی: حضورحافظ ملتؒ وقت کے انتہائی پابنداورقدردان تھے ہرکام
اپنے وقت پرکیاکرتے مثلاًمسجدمحلہ میں پابندی وقت کے ساتھ باجماعت
نمازادافرماتے ،تدریس کے اوقات میں اپنی ذمہ داری کوبحسن وخوبی انجام دیتے
،چھٹی کے بعدقیام گاہ پرلوٹتے اورکھانا کھاکرکچھ دیرقیلولہ ضرورفرماتے
قیلولہ کاوقت ہمیشہ یکساں رہتاچاہے ایک وقت کامدرسہ ہویادونوں وقت کا،ظہرکے
مقررہ وقت پربہرحال اُ ٹھ جاتے اورباجماعت نمازاداکرنے کے بعداگردوسرے وقت
کامدرسہ ہوتا تومدرسے تشریف لے جاتے ورنہ کتابوں کامطالعہ فرماتے یاکسی
کتاب سے درس دیتے یاپھرحاجت مندوں کوتعویذعطافرماتے ،شروع شروع میں عصرکی
نمازکے بعدسیروتفریح کے لئے آبادی سے باہرتشریف لے جاتے مگراس وقت بھی طلبہ
آپؒ کے ہمراہ ہوتے جوعلمی سُوالات کرتے اورتشفی بخش جوابات پاتے،اگرکسی کی
عیادت کے لئے جاناہوتاتواکثرعصرکے بعدہی جایاکرتے،قبرستان سے گزرتے ہوئے
اکثرسڑک پرکھڑے ہوکرقبروں پرفاتحہ اورایصال ثواپ کرتے،مغرب کی نمازکے
بعدکھاناکھاتے اورپھراپنے صحن میں چہل قدمی فرماتے ،عشاء کی نمازکے
بعدکتابوں کامطالعہ کرتے اورساتھ ساتھ مقیم طلبہ کی دیکھ بھال بھی کرتے
رہتے کہ وہ مطالعہ میں مصروف ہیں یانہیں۔عموماً گیارہ بجے تک سوجاتے
اورتہجُّدکے لئے آخرشب میں اُٹھتے،تہجدپڑھنے کے بعدبھی کچھ دیرکے لئے
سوجاتے،رات میں چاہے کتنی ہی دیرجاگناپڑتافجرکی نمازکبھی قضانہ ہوتی۔
آپ کی سادگی اورحیاء: آپؒ کی زندگی نہایت سادہ اورپُرسکون تھی کہ جولباس
زیبِ تن فرماتے وہ موٹاسوتی کپڑے کاہوتا،کرتاکلی دارلمباہوتا،پاجامہ ٹخنوں
سے اوپرہوتا،سرمبارک پرٹوپی ہوتی جس پرعمامہ شریف ہرموسم میں
سجاہوتا،شیروانی بھی زیب تن فرمایاکرتے ،چلتے وقت ہاتھ میں عصاہوتا۔راستہ
چلتے تونگاہیں جھکاکرچلتے اورفرماتے:میں لوگوں کے عیوب نہیں
دیکھناچاہتا۔گھرمیں ہوتے توبھی حیاء کوملحوظ خاطررکھتے،صاحبزادیاں بڑی
ہوئیں توگھرکے مخصوص کمرے میں ہی آرام فرماتے ،گھرمیں داخل ہوتے وقت چھڑی
زمین پرزورسے مارتے تاکہ آوازپیداہواورگھرکے لوگ خبردارہوجائیں،غیرمحرم
عورتوں کوکبھی سامنے نہ آنے دیتے ۔
معمولات زندگی :آپ ؒ بچپن سے ہی فرائض ،واجبات ،سنن ومستحبات کے پابندتھے
اورجب سے بالغ ہوئے نمازتہجدشروع فرمادی جس پرتاحیات عمل رہا،بقول حضورمحدث
کبیرآپؒنماز تہجدمیں پانچ پارے پڑھاکرتے تھے۔ صلوٰۃ الاوابین ودلائل
الخیرات شریف وغیرہ بلاناغہ پڑھتے یہاں تک کہ آخری ایام میں دوسروں سے
پڑھواکرسنتے رہے،روزانہ صبح سورۂ یٰسین شریف وسورۂ یوسف کی تلاوت کاالتزام
فرماتے جبکہ جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت معمول میں شامل تھی۔آپ
فرمایاکرتے کہ عمل اتناہی کروجتنابلاناغہ کرسکو۔
اصلاح کی سعی جلیل آپ کی ذات ہرجہت سے ہمہ صفت موصوف نظرآتی ہے جہاں آپ علم
وفن کے گنج گراں مایہ تھے وہیں آپ کی زندگی کاہرگوشہ شریعت اسلامی کی
پاسداری کااعلیٰ نمونہ تھا،آپ کی ایمانی جرأت کسی بھی قسم کی مصلحت کوشی
اورچشم پوشی سے مبراتھی،خلاف شرع کام دیکھ کرفوراًاس کے ازالے کی کوشش
فرماتے،کوئی بے داڑھی والامسلمان اگرسامنے آجاتاتواُسے داڑھی رکھنے کی
تلقین فرماتے،یوں ہی اگرکوئی کھلے سرآپ کی بارگاہ میں حاضرہوتاتواسے
سرپرٹوپی رکھنے کی تاکیدفرماتے،دینی محافل اورجلسے وغیرہ میں اگرکسی خطیب
وشاعرسے کوئی خلاف شرع بات صادرہوتی توبرملااُسے ٹوکتے اورغلطی کاازالہ
فرماتے،توبہ کراتے،یوں ہی کسی کوسترعورت کھولے دیکھتے تواس فعل سے منع
فرماتے یااگرکوئی کام الٹے ہاتھ سے کرتاتواس کوروکتے اوراسلامی نظام اخلاق
سے اُسے آگاہ فرماتے اگرچہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو،کہ اسلام کی دعوت
کائنات کے ہرفردکے لئے ہے چاہے وہ قبول کرے یانہ کرے۔
آپ کی دینی خدمات: حضورحافظ ملتکاگھرانادین وملت ،علم وادب اورتقویٰ وطہارت
کاسرچشمہ ہے ۔آپ کی علمی لیاقت اورآپ کی دینی ،ملی وسماجی خدمات کاچرچہ ملک
وبیرون میں بہت مشہورومعروف ہے۔آپ ایک بہترین مدرس،رہنمائے
ملت،معمارقوم،شیخ الحدیث ،فقیہ بے بدل،مشائخ کے امیروسلطان،شہریارعلم
وحکمت،مطلع فکرونظر،پیکرِاخلاص والفت،سادگی کے مجسمہ،حُسن عمل کے
پیکر،مردکامل،تقویٰ شعار،سنیت کے تاجداراورمنتظم اعلیٰ تھے۔آپ ؒ کاسب سے
عظیم کارنامہ'' الجامعۃ الاشرفیہ'' مبارکپور(عربی یونیورسٹی،ضلع اعظم
گڑھ،یوپی)کاقیام ہے جہاں سے فارغ التحصیل علماء وفضلاء آج دنیاکے تمام
علمی،تصنیفی،تدریسی،تبلیغی،تحریری،تقریری،سیاسی ،صحافتی میدان میں سرزمین
ہندسے لے کرایشیا،یورپ وامریکہ اورافریقہ کے مختلف ممالک میں دین اسلام کی
سربلندی اورمسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں۔
آپ کی تصانیف: آپؒ تحریروتصنیف میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے آپ نے مختلف
موضوعات پرکتب تحریرفرمائیں جن میں سے چندکے نام یہ ہیں:(1)معارف
حدیث(احادیث کریمہ کاترجمہ اوراس کی عالمانہ تشریحات
کامجموعہ)(2)ارشادالقرآن(3)الارشاد(ہندوستان کی سیاست پرایک مستقل
رسالہ)(4)المصباح الجدید(5)العذاب الشدید(6)انباء الغیب(علم غیب کے عنوان
پرایک اچھوتارسالہ)(7)فرقۂ ناجیہ(ایک استفتاء کاجواب)(8)فتاویٰ
عزیزیہ(ابتداءً دارالعلوم اشرفیہ کے دارالافتاء سے پوچھے گئے سوالات کے
جوابات کامجموعہ)(9)حاشیہ شرح مرقات۔
حافظ ملت ارباب علم ودانش کی نظرمیں: (۱)سرکارکلاں حضرت سیدمختاراشرف
کچھوچھوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :مولانا(حافظ ملتؒ)مخلص،ایثارپسند،ہم
دردتھے،ان کی خوبیاں تحریرسے باہرہے۔(۲)حضرت صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی
امجدعلی ؒ(مصنف بہارشریعت)فرماتے ہیں کہ:میری زندگی میں دوہی باذوق پڑھنے
والے ملے ایک مولوی سرداراحمدؒ(یعنی محدث اعظمؒ پاکستان)اوردوسرے حافظ
عبدالعزیز(یعنی حافظ ملتؒ)۔(۳)شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہندحضرت علامہ
مصطفی رضاخان علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں:اس دنیاسے جولوگ چلے جاتے
ہیں اُن کی جگہ خالی رہتی ہے خصوصاًمولاناعبدالعزیزجیسے جلیل
القدرعالم،مردِمؤمن،مجاہد،عظیم المرتبت شخصیت اورولی کی جگہ پُرہونابہت
مشکل ہے۔ (۴)امین شریعت مفتی اعظم کانپورحضرت علامہ مفتی رفاقت حسین رحمۃ
اﷲ علیہ فرماتے ہیں:حافظ ملت نے اپنی زندگی کومجاہدومتحرک اَسلاف ِکرام ؒکے
نقش قدم پرچلاکراورنمایاخدمات انجام دے کرمسلمانوں کوموجودہ دورمیں دینی
خدمت کاجواسلوب عطاکیاہے وہ قابل تحسین اورقابل تقلیدہے۔(۵)برہان ملت حضرت
علامہ برہان الحق قادری ،جبل پوری قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:حضورحافظ
ملت ؒکی رحلت عالم علم ،عالم سنیت،اورعالم درس حدیث وحکمت کی موت ہے۔موت
العالم موت العالم۔ایسے مرجع عالم ،مقبول عالم،منبع علم وکمال،افضل
العلماء،استاذ العلماء کی موت،موت نہیں۔حیات ابدی اوردارِفناسے دارِبقاکی
طرف ارتحال ہے.......حافظ ملت کی ذات دنیائے درس وتدریس وعلم وحکمت کے لئے
نعمت عظمیٰ تھی۔عزیزالعلماء ،نبیل الفضلاء ،حافظ ملتؒکی یادگاراوران کے
ذکرخیرکے حامل ان کے علمی اورعملی شاہ کاراولاًتوان کے شاگراورتلامذہ
ہیں،جن کے ذہن اورقلوب،ظاہروباطن حافظ ملت کی تعلیمات اوران کے ارشادات
وہدایات کامظہرہیں۔دوسراوہ مرکزعلم ،معدن علم،منبع علم ہے،جوبصورت عمارت
عظیمہ دارالعلوم (اشرفیہ )قائم ہے۔جسے حال کے محاورے میں یونیورسٹی
کہاجاتاہے۔حافظ ملت ؒ کاصدقۂ جاریہ دارالعلوم اشرفیہ دیدہ زیب اوردلکش
تعمیرہے۔(۶)حضرت سیدشاہ آل حسن برکاتی مارہروی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ:حافظ
ملتؒ علم وعمل کاایک پہاڑہے،جن کے نورانی چہرہ سے علم کی جلالت اورتقویٰ
وپرہیزگاری ٹپکتی تھی۔ہم سب کوان کی ذات بابرکات پربڑافخرتھا۔(۷)حضرت
مولانامجتبیٰ اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:حافظ ملتؒ کسی شخص
واحدکانام نہیں ،بلکہ ایک زندہ جاویدتحریک کانام ہے۔
آپ کے اقوال زریں: آپ ؒکے بہت سے اقوال ہیں جوآب زر سے لکھنے کے قابل ہیں
۔ان میں سے چندیہاں پیش کئے جاتے ہیں۔٭بلاشبہ ایسی تعلیم جس میں تربیت نہ
ہوآزادی وخُودسری ہی کی فضاہوتی ہے،بے سودہی نہیں بلکہ نتیجہ بھی
مُضرہے۔٭میں نے کبھی مخالف کواس کی مخالفت کاجواب نہیں دیا ،بلکہ اپنے کام
کی رفتاراورتیزکردی،جس کانتیجہ یہ ہواکہ کام مکمل ہوااورمیرے مخالفین کام
کی وجہ سے میرے موافق بن گئے۔٭انسان کومصیبت سے گھبرانانہیں چاہئے ،کامیاب
وہ ہے جو مصیبتیں جھیل کرکامیابی حاصل کرے مصیبتوں سے
گھبراکرمقصدکوچھوڑدینابزدلی ہے۔٭جب سے لوگوں نے خداسے ڈرناچھوڑدیاہے ،ساری
دنیاسے ڈرنے لگے ہیں۔
٭کامیاب انسان کی زندگی اپنانی چاہئے ،میں نے حضرت صدرالشریعہ کوان کے تمام
معاصرین میں کامیاب پایا،اس لئے خود کوانہیں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش
کی ۔٭بزرگوں کی مجلس سے بلاوجہ اُٹھناخلاف ادب ہے۔٭جس کی نظرمقصدپرہوگی اس
کے عمل میں اِخلاص ہوگااورکامیابی اس کے قدم چومے گی۔٭جسم کی قوت کے لئے
ورزش اورروح کی قوت کے لئے تہجدضروری ہے۔٭کام کے آدمی بنو،کام ہی آدمی
کومعززبناتاہے۔٭ہرذمہ دارکواپناکام ٹھوس کرناچاہئے،ٹھوس کام ہی پائداری کی
ضمانت ہوتے ہیں۔٭انسان کودوسروں کی ذمہ داریوں کے بجائے اپنے کام کی
فکرکرنی چاہئے۔٭احساس ذمہ داری سب سے قیمی سرمایہ ہے۔٭تضیع اوقات سب سے بڑی
محرومی ہے۔٭آرام طلبی زندگی کی بربادی ہے۔٭زندگی نام ہے کام کااوربے کاری
موت ہے۔٭قلب کی زندگی ذکروفکرہے۔٭حقیقت میں نمازتوجماعت ہی کی نمازہے ،ورنہ
صرف فرض کی ادائیگی ہے۔
بیعت وخلافت: حافظ ملّت ؒ شیخ المشائخ حضرت مولاناسیدعلی حسین اشرفی میاں
کچھوچھوی رحمۃ اﷲ علیہ کے مریداورخلیفہ تھے۔استادمحترم صدرالشریعہ حضرت
علامہ مولاناامجدعلی اعظمی رحمۃ اﷲ علیہ سے بھی آپؒ کوخلافت واجازت حاصل
تھی۔
وصال پرملال : 31؍مئی 1976ء تقریباًشام چاربجے دیکھنے والوں کویہ
امیدہوچلی کہ اب آپ جلدہی صحت یاب ہوجائیں گے بلکہ رات دس بجے تک بھی آپ کی
طبیعت میں کافی حدتک سکون اورصحت یابی کے آثاردیکھے گئے مگرخلاف امیدآپ ؒ
یکم جمادی الاخریٰ۱۳۹۶ھ مطابق 31؍مئی 1976ء رات ۱۱؍بجکر پچپن منٹ پرداعیٔ
اجل کولبیک کہ گئے ۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔آپؒ کی آخری آرام گاہ’’ باغ
فردوس الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور‘‘کے صحن میں ’’قدیم دارالاقامہ یعنی عزیزی
ہاسٹل‘‘کے مغربی جانب اور’’عزیزالمساجد‘‘کے شمال میں واقع ہے ہرسال اسی
تاریخ وفات پرآپ ؒ کے عرس مبار کاانعقادہوتاہے۔
آخری بات: بلاشبہ حضورحافظ ملت تقویٰ شعار اورسنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے
عملی پیکرتھے آپ کی زبردست ملی اورتعلیمی مساعی جلیل نے ملی فلاح وبہودمیں
گراں قدرخدمات انجام دی اورآپ کے تلامذہ اوران کے تلامذہ پوری دلجمعی کے
ساتھ ان کے دینی ،ملی اورتعلیمی سرگرمیوں کوجاری وساری رکھنے میں مصروف عمل
ہیں۔لہٰذاہم مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ کے لگائے ہوئے
چمنستان علم وحکمت اورقوم وملت کی فلاح وبہودمیں کوشاں '' الجامعۃ
الاشرفیہ''مبارکپورکی ملی اورتعلیمی مساعی میں شریک ہوکرملی اورتعلیمی
کارکوقوت فراہم کریں اورعہدحاضرمیں ملت کے شیرازہ کومتحداورباہم مربوط کرنے
اوراہل سنت وجماعت کوانتشاروپسپائی کے دلدل سے نکالنے اورملت کے زخموں
کومندمل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں کیوں کہ آپ کی حیات طیبہ آپ کے ہزاروں
تلامذہ اوران تلامذہ کے لاکھوں طلبہ اورعقیدت مندان سمیت دیگرمنصف مزاج
انسان دوست کے لئے مشعل راہ ہے کیوں کہ آپ کے نزدیک ’’ہرمخالفت کاجواب
کام‘‘اورزندگی کام کے لئے ہے اوربے کاری موت تھی ‘‘۔توآیئے ہم ان کے دینی
،ملی اورتعلیمی مشن کام کوفروغ دینے کاعہدکریں۔
اس کی شادابی پرہم آنچ نہ آنے دیں گے
اس پہ ہم ابرخزاؤں کے نہ چھانے دیں گے
وقت آجائے گاجب اہل جہاں دیکھیں گے
اس کی عظمت کے لئے ہم جان بھی دے دیں گے
مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ عالی جاہ میں دعاء گوہوں کہ آپ کافیضان ہم تمام
مسلمانوں پرتاقیامت جاری وساری فرمااوران نفوس قدسیہ کی سچی الفت و محبت
عطافرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ وسلم۔(اس مضمون کوتیارکرنے کے
لئے مندرجہ ذیل کتابوں سے مددلی گئی ہے۔فیضان حافظ ملت،حافظ ملت نمبر،حافظ
ملت ارباب علم ودانش کی نظرمیں) |