آج کل مُلک کے طُول اَرض میں سینیٹ الیکشن کے لئے ہارس
ٹریڈنگ اور متوقعہ الیکشن2018ء کی گہماگہمی ہے چارسو سیاستدانوں کی آنکھوں
میں جیت کے خواب سما ئے ہوئے ہیں ہار کا گھونٹ تو کو ئی بھی پینے کو روادار
نہیں ہے جِسے دیکھو وہ اپنی اَن دیکھی جیت کے لئے متحرک ہے اور اپنے
مخالفین کے احتساب کی باتیں کرتا نظرآرہاہے ایسے میں اگر کسی کو اپنی ہار
کا ذرا بھی کہیں سے خیال آجاتاہے توہ وہ بیٹھے بیٹھائے مُلک میں سُرخ
انقلاب کی باتیں شروع کردیتا ہے اور اِدھر اُدھر کی ایسی ایسی ہانکتا ہے کہ
انگشت بدندان ہو کر کا نوں میں انگلیاں ٹھونس کر بھاگ جا نے کو جی چاہتاہے
اِس موقع پر مجھے بشیر فاروقی کا یہ شعر یاد آگیاہے کہ :۔ کسی کے لب پہ
الیکشن کی انتخاب کی بات کسی کی بزمِ طرب میں ہے ا حتساب کی بات
کوئی یہ کہتا ہے یارانِ ملک و ملت سے یہ دور نو ہے کروسُرخ انقلاب کی بات
اگر چہ سمجھنے والوں کے لئے بشیرفاروقی کے اِس شعر میں بہت کچھ ہے ، اگر
پھر بھی کو ئی کچھ نہ سمجھے تو یہ اور بات ہے، بس کہنا یہ ہے کہ انتخابات
سر پر ہیں اور ووٹ کے بھکاری غریب ووٹرز کی دہلیز پر جا نے اور غریب کی
دہلیز کی یاترا کرنے کے لئے جوتیاں تیار کرارہے ہیں گزشتہ ستر سالوں میں
پچھلی دو نسلوں نے جو کیا ؟اور جیسے حکمران چُنے آج یہ اِن کے ہی کرتوتوں
کا نتیجہ ہے کہ مُلک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلاگیاہے اور آج نوبت یہ
آگئی ہے کہ مُلکی معیشت جتنی ترقی کرتی ہے اُس سے کئی گنا زیادہ قرضوں اور
سود کی شکل میں ادائیگیاں کرنی پڑرہی ہیں ۔
اَب بہت ہوچکی ہے ہماری پچھلی نسل نے اپنی عقل سے ماضی میں جن سیاستدانوں
کو حکمرا نی کے لئے منتخب کیا اِن سب کی کارکردگی سے سب ہی واقف ہیں بہتری
اِسی میں ہے کہ ہمارے بزرگ اگلے انتخابات میں کسی فراڈیئے سیاستدان کو اپنا
ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے ذرا اِس کی ذات اِس کے خاندانی پس منظر اور اِس کی
اپنی اہلیت اور قول و کردار کو بھی سا منے رکھ کرپھر کو ئی فیصلہ کریں کہ
آیایہ جِسے اپنا ووٹ دے رہے ہیں یہ اِس قابل ہے کہ یہ اپنی ذات سے مُلک و
ملت کو کو ئی فائدہ پہنچائے گا ؟؟یا سیاست اور حکمرانی کا لبادہ یا چادر
اُڑھ کر جمہوراور جمہوریت کی راگنی چھیڑتے ہوئے قومی دولت لوٹ کھا ئے گا
اور آف شور کمپنیاں بنا کر قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا۔
تا ہم آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے بزرگوں کو اگلے متوقعہ انتخابات
2018ء کے الیکشن میں ن لیگ ، پی پی پی اور پی ٹی آئی سمیت ایم کیو ایم
دوسری مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اپنا حق ِ رائے دہی ووٹ استعمال کرنے سے
قبل اپنی نوجوان نسل سے بھی ایک بار ضرور صلہ مشورہ کرناہوگا کیو ں کہ آج
کا نوجوان کل کے بزرگوں سے زیادہ باشعور اور بااعتماد ہے اِس کے فیصلہ کرنے
کی صلاحیت گزرے وقتوں کے افراد سے کہیں زیادہ مستحکم اور پا ئیدار ہے اور
یہ بات کہنے میں کو ئی عار محسوس نہیں ہورہی ہے کہ آج دنیا یہ بات تسلیم
کرچکی ہے کہ میرے ارضِ مقدس پاکستان، سرزمینِ خدا پر آبادی کے لحاظ سے دنیا
کا چھٹا بڑا مُلک ہے یہ اعزاز صرف وطنِ عزیز پاکستان کو ہی حاصل ہے کہ اِس
میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں اور بچوں کی ہے جبکہ دیگر ممالک میں بچوں
اور نوجوانوں کی تعداد قدرِ کم ہے اِس لئے یہ بات ہما رے بزرگوں پر بھی لاز
آتی ہے کہ یہ اگلے متوقعہ الیکشن میں ن لیگ ، پی پی پی یا کسی اور سیاسی
پارٹی کے انتخابی اُمیدوار پر آنکھیں بند کرکے اپنی روایتی حقِ را ئے دہی
ووٹ کا استعمال نہ کریں ور نہ ؟ اگلے پانچ سال میں قرضوں ، سوداور مہنگائی
کے بوجھ تلے دب مُلک اور قوم پستی اور گمنامی کے دلدل میں ایسے دھنس جا ئیں
گے کہ پھر کو ئی اِن کا پرسانِ حال بھی نہ ہوگا ۔
بہر کیف!کچھ سمجھ نہیں آرہاہے کہ نوازشریف کو کیا ہوگیاہے ؟کیوں اداروں سے
متعلق نوازشریف کے لہجے میں سختی ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی ہے؟ اَب خدا
جانے کہ یہ اپنے لئے کیا چاہ رہے ہیں؟جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آج کل عدالت سے
متعلق نوازشریف کی زبان ترش سے ترش تر ہوتی جارہی ہے، نوازشریف او راِن کی
پارٹی والے عدالتی فیصلے کے خلاف سرپھوڑ منہ توڑ اور سینہ زور تحاریک شروع
کرنے کا اعلان تو پہلے ہی کرچکے ہیں اِس میں شک نہیں ہے کہ پچھلے چند دِنوں
سے اِن کے عدلیہ کے خلاف بیانات یہ بتا رہے ہیں کہ اَب نواز شریف اپنے ہی
ہاتھوں اپنی ساری بچھائی گئی سیاسی بساط خو د ہی لپیٹنا چاہ رہے ہیں تا کہ
یہ سیاسی شہید بن کر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اگلے متوقعہ انتخابات
2018ء میں اپنی کامیابی کے لئے ووٹ کے بھکاری بن کر بھوک و افلاس زدہ مفلوک
الحال پریشان اور مہنگائی کے مارے غریب عوام کی دہلیز پر جا ئیں تو
نوازشریف اپنی نااہلی کا فیصلہ عوامی عدالت سے ختم کراکے چوتھی باری مسندِ
اقتدار پر بیٹھیں تو پھر یہ ایوان سے عدلیہ اور ججز کے معاملات میں اپنی
مرضی کی تاریخی تبدیلی لا ئیں اور پھر تاحیات کے لئے عدلیہ اور ججز کو
حکمرانوں اور سیاستدانوں کے گھٹنوں میں بیٹھادیں ، پھر حکمرانوں ،
سیاستدانوں اور اِن کے چیلے چپاٹوں کا جیسا جی چاہیے یہ مدر پدر آزاد مُلک
و قوم کی دولت کو اپنی مرضی سے اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے لئے
استعمال کریں تو کوئی اِنہیں نکیل ڈالنے والا نہ ہوں ۔
تاہم اِن دِنوں جمہوراور جمہوریت کی چادر اُڑھ کر مُلک میں سیاسی لیٹروں
اور سیاسی بہروپوں اور سیاسی جوکروں کی اقتدار کے حصول کے لئے گھمسان کا رن
جاری ہے اور غریب عوام ہے کہ جو بیچارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ سیاست دان مُلک
اور قوم کی بہتری کے لئے لڑرہے ہیں ن لیگ ، پی پی پی او رپی ٹی آئی والے ہی
قوم اور مُلک کے مسیحا ہیں تو پاکستانی قوم اور عوام ذرا سنبھل جا ئیں ایسا
کچھ نہیں ہے جیسا کہ عوام اور پاکستا نی قوم سمجھ رہی ہے بات دراصل یہ ہے
کہ تینوں جماعتوں کے سیاسی لیٹروں ، جوکروں اور بہروپوں نے اپنے اقتدار کے
حصول کے لئے حب الوطنی اور قوم کی خدمت کا میک رچا رکھاہے اِن کے دل کل بھی
مُلک اور قوم کی ہمدردری سے خالی تھے اور آج بھی خالی ہیں اورآئندہ بھی یہ
حب والوطنی کے جذبے او ر قوم و عوام کی خیرخوا ہی سے خالی ہی رہیں گے کل
بھی اِن سیاسی سرمایہ کاروں کی نظریں قومی دولت پر لگی تھیں اور آج بھی لگی
ہو ئی ہیں اور اگلے متوقعہ انتخابات کے بعد بھی یہ قومی دولت پرمزے سے ہاتھ
صاف کریں گے اور پھرعوام اور پاکستا نی قوم کے ہاتھ میں سوا ئے بھوک و
افلاس تنگدستی مہنگا ئی اور پریشا نیوں کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔(ختم شُد)
|