سوچ سے،سوال تک۔

”جو کہنا چاھوں زبان لڑکھڑا جاۓ
جو لکھنے بیٹھوں ھر لفظ ھے شرمندہ٠٠٠“
آج پھر سے ایک حوا کی بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا،آج پھر سے ایک ننھی کلی کو اس کے گلشن سے نوچ کر گندگی کے ڈھیر پہ پھینک دیا گیا،
ایک بار پھر انسانیت،حیوانیت کے ھاتھوں جان کی بازی ہار گٸ،درندگی اور بربریت کا رقص عام ہوتا رہا اور انسانیت و غیریت خاموش تماشائی بنی رہی۔
یہ ہے وہ نہایت ظالمانہ الفاظ جو آے روز ہمیں میڈیا پہ سننے اور پرھنے کو ملتے ھیں۔یہ وہ بےرحمانہ الفاظ ھیں جو ایک پل کے لیۓ روح کو جھنجھوڑ دیں،جسم پہ لرزہ طاری ہوجاۓ،زبان ساکت اور سوچ کے زاویے منجمند۔پھر اسی شکستہ حالت کے ساتھ خود سے سوال کرنے کو دل کرتا ہے کہ کون ہے ہم؟کیا شناخت ہے ہماری؟کیا یہ وہی اسلامی جمہوریت ہے جو اسلامی اصولوں کے تہت قام۶ کی گٸ تھی؟کیا ہم زمانہ جہالت کے اُن لوگوں میں سے تو نھیں جو اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا کرتے تھے؟یا ہم سفاکیت میں اُن سے بھی آگے نکل گۓ ھیں؟
ھم ایک ایسی قوم کے باسی ھیں جہاں آۓ روز زینیب جیسی سینکڑوں معصوم کلیوں کو درندگی اور ہوس کا نشانہ بنا کر کچل دیا جاتا ہے۔جہاں پر ایک ہی شہر کی 284 معصوم جانوں کو بدفعلی اور بدنیتی کا نشانہ بناکر اُنکی عزتوں کو سرٍعام تشہیر کیا جاتا ہے۔جہاں پہ بنت حوا کی عزت کو سرٍبازار پامال کیا جاتا ہے۔جہاں پہ غیرت کے نام پہ بے جا قتل عام کیا جاتا ہے اور صنف نازک کو آۓ روز موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔
بے شک آج زینب کا قاتل قانون کے شکنجے میں ہے۔
لیکن اس کے پیچھے وہ 21 کروڑ عوام ہے جنھوں نے زینب کو انصاف دلانے کے لیۓ اپنی آواز بلند کی اور دن رات ایک کر کے اُس کے لیۓ سڑکوں پہ نکلے۔ورنہ زینب قتل کیس کو بھی باقی 12 معصوم جانوں کے قتل کیس کی طرح دبا دیا جاتا۔
تالیاں اُن تفتیشی نما۶ندوں اور حکومتی اداروں کیلۓ نہی بلکہ ہر ایک اُس انسان کے لیۓ بجنی چاہیۓ جس نے ظلم کے خلاف آواز اُٹھاٸ،جس نے ہمارے برسرٍاقتدار حکمرانوں کو خواب خرگوش سے جگایا۔ان تمام تر کامیابیوں کا سہرا محظ میڈیا اور 21 کروڑ عوام کو جاتا ہے۔
لیکن ان سب باتوں کے قتا نظر میرا ہر اُس حکومتی نما۶ندے،قانونی سربراہان،اور ہر اُس حکمران سے سوال ہے جو اٍس وقت اقتدار میں موجود ہیں کہ کیوں یہ لوگ 2 سال سے خاموش تماشائی بنے رہے؟کیوں اُس وقت ہوش کے ناخن نہيں لیۓ گۓ جب 2015 میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل،قصور اسکینڈل سامنے آیا؟
کیوں اُسی وقت ایکشن لیتے ہوۓ اُن 17 درندہ صفت ملزمان کو سزا کا محتمل قرار نہ دیا گیا؟
کس بنیاد پر اُن میں سے 7 ملزمان کو آج ضمانت پہ رٍہا کردیا گیا؟
جب 2016 میں پہلی بچی کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا کیوں اُس کے مجرم کو اُسی وقت پکڑ کے نشان عبرت نہ بنایا گیا؟
اگر اقتدار کے نشے میں دُھت ہمارے یہی حکمران 2 سال پہلے جاگ چُکے ہوتے تو شاید ہماری 12 معصوم کلیاں آج ہم میں موجود ہوتی،12 گھرانے یوں برباد ہونے سے بچ جاتے۔
آخر میں ایک سوال ہے میرا خود سے،آپ سے،اپنے تمام حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اٍداروں سے کہ کیا زینب کے قاتل کو پکڑ لینا اور اُسکو کیفر کردار تک پہچادینا۔کیا یہی ہمارے لیۓ کافی ہے یا اِس کے آگے بھی ہمارے پہ کچھ ذمہ داری عا۶د ہوتی ہے؟کیا آپکی زینب میری مریم ایسے بھیڑیوں سے محفوظ ہیں یا پھر ہمیں بھی زمانہ۶جہالیت کی طرح اپنی اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتهوں سے زندہ درگور کر دینا چاھیۓ؟شاید کے یہی انصاف کا تقاضا ہو۔…..!!
ایک سوچ،ایک سوال۔…….؟؟؟؟

Kashaf Mubarik
About the Author: Kashaf Mubarik Read More Articles by Kashaf Mubarik: 3 Articles with 3202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.