نصاب کی تدوین ایک وسیع مضمون ہے اور اس کے کئی مدارج
ہیں۔یہ معاشرتی ضروریات کے تجزیے اور مقاصد کے مدارج سیشروع ہو کر تعلیمی
مواد ،طریقہ ہائے تدریس اور جائزہ کے عمل تک پہنچتا ہے۔نصاب کی تیاری کوئی
ساکن و جامد عمل نہیں ہے بلکہ معاشرے کی ضروریات کے ساتھ ساتھ اس میں
تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔آخری مدارج میں اس کاجائزہ پہلے سے منتخب شدہ مقاصد
کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ اگر مقاصد کا حصول نہیں ہو رہا تو پھر نئے سرے سے یہ
عمل شروع کرنا ہوتا ہے۔نصاب ’’لاطینی ‘‘ زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں، وہ
راستہ جس پر چل کر ایک شخص اپنی منزلِ مقصود پالیتا ہے۔ طلباء کے نزدیک
نصاب سے مراد وہ اسباق ہیں جو ایک استاد کمرۂ جماعت میں پڑھتا ہے۔تعلیمی
مفکرین نے مختلف انداز میں اپنا اپنا مفہوم بیان کیا ہے۔ بعض نے اس کو وسیع
معنوں میں استعمال کیاہے، یعنی نصاب ایک ایسی جدو جہد کا نام ہے جو تعلیمی
مقاصد کے حصول کے لئے مدرسہ ، کمرۂ جماعت ، لائبریری ، لیبارٹری یا کھیل
کود کے میدان میں کی جاتی ہے۔ اور جب کہ بعض مفکرین نے اس کو محدود انداز
میں استعمال کیا ہے، یعنی وہ تعلیمی مواد جس کو ہفتہ وار یا ٹرم وائز تقسیم
کیا جائے۔نصاب کے بارے میں مفکرین کے خیالات و نظریات بالکل اس طرح مختلف
ہیں جس طرح نابینا اشخاص کی رائے ہاتھی کے مختلف حصوں کو چھو کر مختلف ہو
سکتی ہے۔وہ نابینا شخص جو ہاتھی کی سونڈ پکڑے، اُس کے خیال میں ہاتھی سانپ
ہوتا ہے۔جو ٹانگ کو پکڑے ، وہ کہے کہ یہ ایک درخت ہے۔ جو اُس کے کان چھوئے،
تو وہ پنکھا سمجھے۔ اور کوئی ایک ہاتھی کے دانتوں کو نیزوں سے تشبیہ دے۔
ماہرین تعلیم نے نصاب کی تعریف کچھ یوں بیان کی ہے۔ الزبتھ ماشیا کے مطابق
نصاب تدریسی مواد کو کہتے ہیں۔ جارج پائن کچھ یوں بیان فرماتے ہیں۔ ’’نصاب
اساتذہ اور منتظمین مدرسہ کو میسر اُن جملہ حالات و مواقع کا نام ہے جن کے
ذریعے مدرسہ میں آنے والے بچوں اور نوجوانوں کے کردار میں تبدیلیاں پیدا کی
جاتی ہیں ‘‘۔بلونڈ کے نظریے کے مطابق نصاب ایک طالب علم کے تمام تجربات پر
مشتمل ہوتا ہے، جس میں اسے مدرسہ کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔الغرض نصاب سے
مراد مدرسہ کی وہ مکمل جدوجہد ہے جو مدرسے کے اندر اور مدرسے سے باہر اپنے
متعین مقاصد کے حصول کے لئے کی جاتی ہے۔
آج ہم نے اپنی تعلیم اور تعلیمی نصاب کو اپنے مقاصد اور معاشرے کی ضروریات
سے دور کردیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک انگریز ہندوستان کے کسی ریلوے اسٹیشن پر
چائے پی رہا تھا کہ اتنے میں ریل گاڑی کے آنے کی آواز آئی اور پہنچ گئی۔اُس
نے چائے ادھوری چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور چائے کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے
برف کی ڈلی (ٹکڑا) چائے کی پیالی میں ڈال دیا۔ جب آس پاس لوگوں نے انگریز
کو چائے میں برف ڈالتے دیکھا تو انہوں نے بھی چائے میں برف استعمال کرنا
شروع کر دی۔اور یہ بات مشہور ہوگئی کہ برف ڈالنے سے چائے کے نقصانات کم
ہوجاتے ہیں۔یہ بات یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ اہل مشرق خصوصاً مسلمانوں
نے خوراک ، لباس اور رہن سہن میں مغرب کی بے سوچے سمجھے تقلید شروع کردی
ہے۔ہم نے اپنی تعلیم اور تعلیمی نصاب کو بھی مٖغرب کی بے عقیدہ سوچ کے تابع
بنادیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ترقی و خوش حالی اُمتِ مسلمہ سے روٹھ گئی ہے۔
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدائے لا الٰہ الا اﷲ
پس یہ وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو اسلامی عقائد اور
نظریات پر استوار کریں۔اور ہمیں ایک ایسا نصاب تشکیل دینا پڑے گا جو معاشرے
کے ہر فرد کی دینی و دنیوی دونوں پہلوؤں سے تعمیر و تشکیل کرے۔اگر ہم محسن
انسانیت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنے سامنے رکھیں تو
ہمیں یہ بات معلوم ہوگی کہ معلم انسانیت ﷺ نے نہ صرف دینی تعلیم پرتوجہ دی
بلکہ دیگر مفید دنیوی علوم کے سیکھنے پر خاص توجہ دی۔حضرت زید بن ثابت رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کے حکم سے عبرانی زبان (ٖForeign Language )سیکھی۔
اور جب کہ حضرت عروہ بن مسعود ؓ اور حضرت غیلان بن مسلم ؓ منجنیق کی صنعت
سیکھنے کے لئے جرش نامی علاقے کو گئے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ دونوں صحابہ کرام
ؓ جنگ حنین میں شریک نہ ہوسکے۔آپ ﷺ نے نظام تعلیم کی بنیاد قرآن کی تعلیمات
پررکھی، بعد میں قرآن کی قرأت و کتابت کے ساتھ ساتھ دیگر علوم صرف و نحو ،
تفسیر و حدیث ، فقہ و اُصولِ فقہ ، تاریخ و جغرافیہ ، کیمیاء و حیاتیات ،
فلسفہ و منطق ، طب و نجوم اور ریاضی و اقلیدس بھی اسلامی نصاب کا حصہ بنتے
رہے۔ |