ہر رات کی ایک صبح ہے

وقت ۔۔۔ کہتے ہیں وقت ہر زخم کی دوا ہے۔ جس طرح سب کا وقت ایک جیسا نہیں رہتا ویسے ہی انسان کی زندگی میں آنے والی ساری مشکلات بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایک جیسی نہیں رہتیں۔ ہماری ہر تکلیف کا ایک ایکسپائری ٹائم ہوتا ہے‘ ہم اگر اس ٹائم کا اندازہ کر لیں تو پھر ہماری تکلیف کم ہو جاتی ہے۔

ماضی کا ایک ایسا ہی واقعہ میں آپ سب سے شیئر کرنا چاہو ں گا جو مجھ پر گہری چھاپ چھوڑ گیا۔ٹرین کا سفر تھا میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا اور میرا دوست درمیان والی سیٹ چھوڑ کر بیٹھا تھا‘ درمیان کی سیٹ خالی تھی، سوچا مسافر سے سیٹ ایڈجسٹ کر لیں گے‘‘ ہم مسافر کا انتظار کرنے لگے پھر چند لمحے بعد وہ مسافر آگیا‘ وہ ایک موٹا سا بزرگ شخص تھا‘ وہ شکل سے بیمار بھی دکھائی دے رہا تھا۔

میں نے اسے پیش کش کی آپ کھڑکی والی سیٹ لے لیں‘ ہم دوست اکٹھے بیٹھنا چاہتے ہیں مگر اس نے سر ہلا کر میری پیش کش مسترد کر دی اور وہ دھپ کر کے درمیان میں بیٹھ گیا‘ موٹے آدمی کے جسم سے ناگوار بو بھی آ رہی تھی‘ وہ پورا منہ کھول کر سانس لے رہا تھا اور سانس کی آمدورفت سے ماحول میں بو پھیل رہی تھی‘ ہماری گفتگو بند ہو گئی‘ جبکہ میرا دوست موبائل فون کھول کر بیٹھ گیا‘ وہ میری زندگی کا مشکل ترین سفر تھا‘ میں نے وہ سفراذیت میں گزارا‘ ہم جب لاہور اترے تو میں نے اطمینان کا سانس لیااور بھر ہم باہر آ گئے‘ میں نے اپنے دوست سے پوچھا ’’سفر کیسا تھا‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’زبردست‘ میں نے موبائل فون پر کتابیں ڈاؤن لوڈ کر رکھی ہیں‘ میں سفر کے دوران کتاب پڑھتا رہا‘‘ میں نے پوچھا’’کیا تم موٹے آدمی کی وجہ سے ڈسٹرب نہیں ہوئے‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’شروع کے دو منٹ ہوا تھا لیکن پھر میں نے ایڈجسٹ کر لیا اور چپ چاپ کتاب پڑھتا رہا‘‘ میں نے پوچھا ’’اور کیا تم اس کی بدبو سے بھی بیزار نہیں ہوئے‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’شروع میں ہوا تھا لیکن میں جب کتاب میں گم ہو گیا تو بوآنا بند ہو گئی‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر کہا ’’لیکن میں پورے سفر کے دوران تنگ ہوتا رہا‘ میری سانس تک الجھتی رہی‘ میں اللہ سے دعا کرتا رہا یا اللہ یہ سفرکب ختم ہوگا‘‘ وہ ہنسا اور بولا ’’میں بھی ایسی صورتحال میں پریشان ہوا کرتا تھا لیکن پھر میں نے اپنی پریشانی کا حل تلاش کر لیا‘ میں اب ایڈجسٹ کر لیتا ہوں‘‘ میں رک گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا‘ وہ بولا ’’ہم اس موٹے کے صرف 35 منٹ کے ساتھی تھے‘ وہ آیا‘ بیٹھا‘ اترا اور ہم الگ الگ ہو گئے‘ وہ کون تھا‘ وہ کہاں سے آیا تھا اور وہ کہاں چلا گیا‘ہم نہیں جانتے‘ تم اگر ان 35 منٹوں کو ایڈجسٹ کر لیتے تو تم تکلیف میں نہ آتے، مثلاً وہ موٹا جب ہمارے درمیان بیٹھا تو میں نے فوراً ٹائم کیلکولیٹ کیا‘مجھے اندازہ ہوا یہ صرف 35 منٹ کی تکلیف ہے چنانچہ میں نے موٹے کے موٹاپے پر توجہ کی بجائے کتاب پڑھنا شروع کر دی‘ میری تکلیف چند منٹوں میں ختم ہو گئی‘ تم بھی تکلیف کے دورانئے کا اندازہ کر لیا کرو‘ تمہاری مشکل بھی آسان ہو جائے گی‘‘۔

میں نے اس سے پوچھا ’’تم نے یہ آرٹ کس سے سیکھا تھا‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’میں نے یہ فن اپنے والد سے سیکھا تھا‘ میرے بچپن میں ہمارے ہمسائے میں ایک پھڈے باز شخص آ گیاتھا‘ ہم لوگ گلی میں کرکٹ کھیلتے تھے اور وہ ہماری وکٹیں اکھاڑ دیتا تھا‘ ہماری گیند چھین لیتا تھا‘ وہ گلی میں نکل کر ہمارا کھیل بھی بند کرا دیتا تھا‘ میں بہت دل گرفتہ ہوتا تھا‘ میں نے ایک دن اپنے والد سے اس کی شکایت کی‘ میرے والد نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا‘ بیٹا یہ شخص کرائے دار ہے‘ یہ آیا ہے اور یہ چلا جائے گا‘۔

ہمیں اس سے لڑنے اور الجھنے کے بجائے اس کے جانے کا انتظار کرنا چاہیے‘ میں نے والد سے پوچھا‘ کیا میں احتجاج بھی نہ کروں‘ وہ بولے ہاں تم ضرور کرو لیکن اس کا تمہیں نقصان ہوگا‘یہ شخص تو اپنے وقت پر جائے گالیکن تم احتجاج کی وجہ سے بدمزاج ہو چکے ہو گے‘ تم اس کے بعد لائف کو انجوائے نہیں کر سکو گے چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی لائف پر فوکس کرو‘ تم اپنی خوشیوں پر دھیان دو‘ یہ اور اس جیسے لوگ آتے اور جاتے رہیں گے‘ یہ آج ہیں اور کل نہیں ہوں گے‘۔

تمہیں اپنا مزاج خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں بچہ تھا میں نے اپنے والد کی بات سے اتفاق نہ کیا لیکن ہمارا ہمسایہ واقعی دو ماہ بعد چلا گیا اور یوں ہم پرانی سپرٹ کے ساتھ گلی میں کھیلنے لگے‘ ہم دو ہفتوں میں اس چڑچڑے کھوسٹ کو بھول بھی گئے۔

میرے والد مجھے اکثر کہا کرتے تھے آپ جب بھی تکلیف میں آئیں آپ اس تکلیف کا دورانیہ کیلکولیٹ کریں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر لگا دیں‘ آپ کو وہ تکلیف تکلیف نہیں لگے گی‘ میں نے اپنے والد کی بات پلے باندھ لی چنانچہ میں تکلیف کا دورانیہ نکالتا ہوں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر مبذول کر لیتا ہوں‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
یہ نقطہ میرے لئے نیا بھی ت
ھا اور انوکھا بھی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا یہ تمہاری روٹین ہے‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولا ’’ہاں مجھے جب بھی کوئی تکلیف دیتا ہے میں دل ہی دل میں کہتا ہوں یہ آج کا ایشو ہے‘ یہ کل نہیں ہوگا‘ میں اس کی وجہ سے اپنا آج اور کل کیوں برباد کروں اور میری تکلیف ختم ہو جاتی ہے ۔

وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور میں اپنے راستے چلا گیا لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں جب بھی کسی مسئلے یاکسی تکلیف کا شکار ہوتا ہوں‘ میں دل ہی دل میں دوہراتا ہوں یہ 35 منٹ کاسفرہے‘ یہ ختم ہو جائے گا اور میں جلد اس تکلیف کو بھول جاؤں گا‘مجھے کل یہ یاد بھی نہیں رہے گامیں کبھی ایک ایسے مسافر کے ساتھ بیٹھا تھا جس کی وجہ سے میرا سانس بند ہو گیا تھا ۔

ہم اگر اس مختصر سفر کو شکایت بنالیں گے تو یہ مختصر سفر مشکل ہو جائے گا‘ ہم اپنی منزل سے ہزاروں میل پیچھے اترجائیں گے چنانچہ جانے دیں‘ تکلیف دینے والوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی‘ صرف سفر پر توجہ دیں اور یقین کریں ہماری مشکل‘ ہماری تکلیف ختم ہو جائے گی۔
 

HAMZA JAFFRY
About the Author: HAMZA JAFFRY Read More Articles by HAMZA JAFFRY: 13 Articles with 12029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.