’شمس‘ ڈوب گیا ، مگر رمز ابھی باقی ہے۔جی ہاں! شمس رمزی
کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی ، لیکن ان کی شاعری میں پائی جانے والی رمزیت باقی
رہے گی۔ساتھ ہی میرے ذہن ودماغ میں ان کی شفقتوں کا عکس بھی دھند لا نہیں
ہوگا۔ ان کے صحافیانہ نقوش یوں ہی مٹ بھی کیسے جائیں گے۔
بات گراپنی کروں تو بہت پرانی نہیں ہوگی۔کوئی پانچ برس قبل یعنی دوہزاربارہ
میں پہلی بار شمس رمزی صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔مجھے باضابطہ دلّی آئے
ہوئے کوئی پانچ دن ہی ہوئے تھے۔یوں تو اس سے پہلے بھی دلّی آتاجا تاتھا،
بلکہ یوں کہیے کہ میں دلّی ا س وقت ہی آ گیا تھا، جب دارالسلطنت کے صحیح
مفہوم سے ناآشناتھا۔ یہی وہ زمانہ تھا، جب مَیں نے قرآن حفظ کیا تھا۔ حفظِ
قرآن کے بعد وطن ِ اصلی کارخ کیا۔ پھرنوابوں کا شہراور ہندوستانی سمرقند
وبخارا لکھنو گیا، جہاں چمن زارِشبلی درالعلوم ندوۃ العلماء میں زیر تعلیم
ہوا ۔اس کے بعدوہیں لوٹ آیا، جہاں کبھی دارالسلطنت کے مفہوم سے نا آشنا تھا۔
صحافت کا شوق تھا۔ حالات کا تقاضا بھی۔ اس لیے صبح دلی یونیورسٹی اور ذاکر
حسین کالج میں( ایم اے ) داخلہ کی کارروائی میں مصروف ہوتاتھا توشام میں جز
وقتی ملازمت تلاش کرتا تھا۔ ربِّ کائنات کی قدرت کہ ہفتہ بھرمیں ہی تلاش
مکمل ہوئی۔ روزنامہ’ ہماراسماج‘میں بیٹھنے کا موقع مل گیا۔جہاں شمس رمزی
صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔پہلے دن انھوں نے مجھ سے دو خبریں ٹائپ کروائیں۔
پھراداریہ کی کمپیوزنگ۔اس کے بعد اداریہ کی پروف ریڈنگ۔ پھر یکایک ایک دن
اداریہ لکھنے کی ’درخواست‘ ۔ میں ہکا بکاتھا۔چنانچہ میں نے ان کی درخواست
پر عمل کیا اور نہ ہی ان کی ’درخواست‘ کو’ حکم ‘تسلیم کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ مجھے چند دنوں میں جہاں خالد انور صاحب کی بہت سی باتوں
نے متاثر کیا تھا،وہیں شمس رمزی صاحب کے رویوں نے بھی حوصلہ بخشا۔ پتا نہیں
کہ ’ہمارا سماج‘ میں’ ڈیسک ہیڈ‘ کی حیثیت سے کتنے بڑے بڑے صحافیوں نے فریضہ
انجام دیا ، لیکن میں نے شمس رمزی صاحب کو بہت قریب سے یہ فریضہ انجام دیتے
دیکھا۔ اعتراف کہ ابھی میں نے بہت کم دیکھا ، مگرجو ان کے پاس دیکھا،وہ
شاید ہی کسی ہیڈ صحافی کے پاس دیکھا۔ غالب گمان بھی ہے کہ ملازمین صحافیوں
نے بھی ان جیسا بہت کم دیکھاہوگا۔
مجھے نہیں معلوم کہ شمس رمزی صاحب کی صحافیانہ حیثیت کس قدر مستحکم ہے اور
صحافت کی خاردار وادی میں انھوں نے کتنی مسافت طے کی، لیکن وہ
’فیصل‘اخبارکاتذکرہ کرتے تھے، جو نوے کے آس پاس دریا گنج دلی سے شایع ہوتا
تھا۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے تقریباً تیس برس صحافت کی آبیاری
کی۔ میرایہ اندازہ ان کی زبان سے ہونے والے ’فیصل‘کے تذکر وں پر محیط
ہے،مگران کوقریب سے دیکھنے کے بعدمیرامفروضہ یہ ہے کہ وہ خود کو ہمیشہ
ملازمین صحافیوں کی صف کاایک فرد سمجھتے تھے۔اس لیے وہ ملازمین صحافیوں کی
قدرکرتے تھے۔ چھوٹوں کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کے جملوں میں اس قدر لجاجت
کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمیشہ ان کو اپنا بہی خواہ جانتے تھے۔
رہی بات ان کی شاعری کی توزبان شگفتہ ، فکر اسلام گزیدہ اورموضوعات صحافت
وعشق متاثرہ تھے۔ علم عروض کے معاملہ میں، کم از کم وہ دلّی میں انگلیوں
پرگنے ہی جاسکتے ہیں۔ اگرسیاسی قطعات کے تناظرمیں گفتگوکریں تواِکّا دُکّا
شاعر ہی ان کے ہم پلہ ہوں گے۔ ان کے فکری رویوں پر مبسوط مضمون کبھی
اور۔یہاں پران کے شعری مجموعہ’’غبارشمس ‘‘سے دو ادیبوں کے اقتباسات:
شمس رمزی فنی رکھ رکھاؤکے ساتھ اپنی بات نئے لب ولہجہ میں کہنے کی کوشش
کرتے ہیں اوران کے اشعار میں یہ کوشش بارآورہوتی دیکھی جاسکتی ہے۔ ․․․․․․ان
کی بیشتر غزلیں نئی زمینوں میں ہیں اور ان نئی زمینوں کوانھوں نے جس خوبی
سے برتا ہے ، اس سے ان کی قدرت ِکلام کااندازہ کیاجاسکتاہے۔(مخمورسعیدی )
شمس کی شعری کائنات میں مختلف رنگ اورتجربوں کی مختلف سطحیں نظر آتی ہیں۔یہ
الگ بات ہے کہ عہدِ حاضر کے شکستہ انسان کی شکستہ زندگی، اس کے پردرد نوحے
اورمجروح داستانوں نے ان کوزیادہ متاثرکیاہے۔( شہپررسول)
شمس رمزی کے فکری اورفنی رویوں سے قطع نظر’جودیکھا، جومحسوس کیاہے‘سے چند
باتیں :
روزنامہ ’ہماراسماج‘سے کہیں زیادہ اردوصحافت کووقار عطاکرنے والے بے باک
صحافی عزیزبرنی صاحب کے اخبار’’عزیزالہند‘‘میں مَیں نے شمس رمزی صاحب
کوقریب سے جانا۔ اس اخبار کے وہ اولین بہی خواہوں میں سے تھے۔اسے انھوں نے
نہ صرف اپناوقت دیا، بلکہ عزیزاز جان سمجھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا انھیں
کوئی ’سچا معاوضہ‘ ملااورنہ ہی دل جوئی ملی۔بہرکیف ’’عزیزالہند‘‘کو انھوں
نے سینچنا ۔ سیلم پورجعفرآباد سے نوئیڈا بلاناغہ آتے تھے۔ ابتدائی ایام میں
عزیزبرنی صاحب نے انھیں اختیارات دیے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہرکام بڑے
اہتمام سے کرتے تھے۔ اداریہ لکھتے تھے۔ قطعات کہتے تھے۔پروف پڑھتے تھے۔ سب
سے بڑھ کراپنے ساتھ کام کرنے والے ملازمین کوہنساتے تھے۔ بہلاتے تھے ۔ کام
کراتے تھے اورسب کے دلوں میں اپنے نقوش چھوڑجاتے تھے۔
10جون2013کو شروع ہونے والے ’’عز یزالہند ‘‘کے بیشتراداریے انھوں نے ہی
لکھے ہیں۔ عزیز برنی صاحب ’آزادبھارت کااتہاس ‘ کی تیاری میں مصروف رہتے
تھے۔’ عزیزالہند‘ کاباضابطہ پہلا اداریہ لکھنے کی خوش نصیبی میرے حق میں ہی
آئی تھی۔شفیق من عزیزبرنی صاحب اورشمس رمزی صاحب نے مجھے یہ موقع دیاتھا۔
’عزیزالہند‘میں راقم نے بھی معتد بہ اداریے لکھے۔ شمس رمزی صاحب بڑے
شاعربھی تھے۔ اداریہ چاہے جو لکھے ، اسی کی مناسبت سے شمس رمزی صاحب
’عزیزالہند‘ کے اداتی صفحہ پر قطعا ت کہتے تھے۔ وہ اداریہ لکھتے تواداریہ
کے ساتھ ہی قطعہ بھی دے دیتے تھے۔ اگرراقم لکھتا توسر سے زبردستی اداریہ کی
مناسبت سے قطعہ لکھواتاتھا۔
شمس رمزی کی پیدائش1960 میں بدایوں میں ہوئی اور آج 17 فروری2018 کو ان کے
انتقال کی خبر ملی۔وہ انتہائی ملنسار تھے۔ شفیق کی حد تک چھوٹو ں پرشفقت
فرماتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کاذکربڑے والہانہ
انداز سے کرتے ہیں۔میں بہت سے ایسے نوجوانوں کو جانتاہوں ، جو ملازمت کے
زمانہ میں ان سے قریب تھے اور اخبارات سے الگ ہونے کے بعدبھی رمزی صاحب سے
خوشگوار رابطہ رکھتے تھے۔
میں عملی صحافت سے دور ہوں اور شمس رمزی صاحب بھی تقریباً تین برسوں سے الگ
تھے۔’’ عزیزالہند ‘‘کے بعدانھوں نے باضابطہ کسی اخبار میں ملازمت نہیں کی
لیکن ان سے میرارابطہ تھا،گہراتھا۔ ویسے وہ بہت دنوں سے بیمار تھے ۔ سانس
کا عارضہ تھا ۔کوئی ایک ماہ قبل ان کی طبیعت شدیدخراب ہوگئی تھی۔ میں نے
فون کیا کہ سر آپ سے ملنے کل آؤں گا۔ انھوں نے کہاکہ کل مت آؤ ،پرسوں آؤ ۔
’پرسوں ‘ میں جانہ سکا۔پھر کئی دنوں کے بعدبات ہوئی اورمیں نے کہا سرآج آؤں۔
انھوں نے کہاکہ کل آؤــ․․․کوئی دس دن پہلے انھوں نے کہاتھاکہ’ کل ‘ آو ٔ۔
میں متعینہ’ کل ‘ ان سے ملنے نہیں جاسکااوراب تو ان سے ملنے کے لیے
کوئی’کل‘آئے گا ہی نہیں۔ اے کاش ! کل ، کی تعبیر وتفہیم سے ہم
ہمکنارہوجائیں ۔
بہر کیف، شمس رمزی صاحب بھی میری صحافتی دنیامیں شمس کم، قمر زیادہ
تھے۔امیدہے کہ ان کی صحافتی روشنی سے میں بھی فائدہ اٹھاؤں گااوردیگراٹھانے
والے بھی اٹھائیں گے ۔بس یہاں ان کے دواشعار:
اس زمانے کے تغیرکی بدولت اے دوست
کم نسب جتنے بھی تھے،ان کے مقدر جاگے
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
خموشی چھپاتی ہے عیب اورہنردونوں
شخصیت کا اندازہ گفتگوسے ہوتا ہے
شمس رمزی صاحب کے رابطہ نمبر پر کال کرنے سے معلوم ہوا کہ کل یعنی 18فروری
کو دس بجے ان کی تدفین ہوگی ۔
|