گاندھی پریوار سے مودی پریوار تک

انسان کا فکری قائد اور عملی نمونہ مختلف ہوسکتا ہے۔ اس کی آسان سی مثال کرکٹ کے کھیل میں ہے۔ سر ڈان بریڈمین کو کرکٹ کے سارے شائقین عظیم ترین کھلاڑی تسلیم کرتے ہیں لیکن جب ہم لوگ اسکول میں تھے تو سلیم درانی کا بول بالا تھا۔ کالج میں آئے تو سنیل گاوسکر کا چرچا ہونے لگا اور وہ ہمارے دلوں میں بس گیا۔ہماری اگلی نسل سچن تینڈولکر کے دلدادہ ہوگئی اور پھر دھونی کے چاہنے والوں کا زمانہ آیا۔ آج کل کوہلی کا ڈنکا بجتا ہے اور نوجوان اس کے دیوانے ہیں ۔لوگ جس کھلاڑی کو پسند کرتے ہیں اس کی خوبیوں اور خامیوں کو اپناتے ہیں۔اس لیے کہ اپنے چہیتے کی خامی بھی انہیں خوبی معلوم ہوتی ہے۔ سیاست کی دنیا کا بھی یہی حال ہے۔ اٹل جی نے آر ایس ایس کے اندر تربیت حاصل کی اس کے باوجود ان کے مزاج میں پنڈت نہرو کی خطابت و ظرافت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مودی جی گرو گولوالکر کی فکر کے حامل ہیں لیکن ان کے طرز عمل میں اندرا گاندھی کی آمریت اور رعونت کا رنگ صاف جھلکتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ راہل گاندھی کے اندر بھی مودی جی کی ریاکاری اور عامیانہ پن نظر آتا ہے۔

آرایس ایس کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار نے اپنی سماجی زندگی کا آغاز کانگریس سیوادل سے کیا اور آرایس ایس کا نام اس سے مشابہ رکھا۔ سیوا مشترک تھی کانگریس کو راشٹر سے بدل دیا اور دل کو سنگھ بنادیا۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں کانگریس تقسیم ہوئی اورپارٹی میں جولوگ ان سے بڑے تھے وہ الگ ہوگئے اس طرح اندرا گاندھی بذاتِ خود اپنی پارٹی سے بڑی ہوگئیں۔ کانگریس (آئی) کے نام میں اندرا جی کا ’میں‘ یعنی انا شامل ہوگئی ۔ اندراجی نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی اور پارٹی کے صدر دیوکانت بروا نے بڑے فخر سے اعلان کیا ’’اندرا از انڈیا اینڈ انڈیا از اندرا‘‘۔ یہی زمانہ تھا جب مودی جی سیاست میں کل پرزے نکال رہے تھے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے سے بڑوں کو پارٹی سے بے دخل کرنے کے لیے مارگ درشک بنادیا جس کا مطلب راستہ دیکھنا بھی ہوتا ہے۔ آج کل یہ صورتحال ہے کہ مودی جی پر تنقید کو قوم سے غداری قرار دے دیا جاتا ہے اور ان کے مخالفین کو علی الاعلان پاکستان بھیجنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ ملک میں اعلان کے بغیر عملاً ایمرجنسی نافذ ہے اور ’ہر ہر مودی گھر گھر مودی‘ کا ماحول تشکیل دیا جارہا ہے۔

اندرا گاندھی کا سیاسی قد جب اپنی جماعت سے اونچا ہوگیا تو گاندھی پریوار وجود میں آیا ۔ سنجے گاندھی کو ان کا ولیعہد سمجھ لیا گیا لیکن زندگی نے ساتھ نہیں دیا۔ اندرا جی کی موت کے بعد بلاتوقف سارے بڑے رہنماوں کو پس پشت ڈال کر ناتجربہ کار راجیو گاندھی کے سر پر اقتدار کا تاج سجا دیا گیا ۔ انتخاب میں قوم نے بڑے زور و شور سے اس فیصلےکی توثیق بھی کردی۔ نرسمہا راو نے گاندھی پریوار کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کے بعد اندرا کانگریس کو پھر سے انڈین نیشنل کانگریس بنانے میں کامیابی حاصل کی لیکن ان کی شکست کے بعد پھر سے یہ جماعت سونیا گاندھی کی پناہ میں چلی گئی جو قومی سیاست تو دورمقامی زبان تک سے واقف نہیں تھیں ۔سونیا کامیاب ہوئیں منموہن کی آڑ میں دس سال تک حکومت کرنے کے بعد اپنی سیاسی وراثت راہل گاندھی کو سونپ کرپارٹی کی صدارت سے سبکدوش ہوگئیں۔
 
گاندھی پریوار کی اس روایت کو جاری رکھنا مودی جی کے لیے مشکل تھا اس لیے کہ انہوں نے اپنے ازدواجی تعلقات منقطع کرلیے تھے اس کے باوجود وہ چار سال کے محدود عرصے میں مودی پریوار قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ سارے مودی اپنے اپنے میدان بے مثال کامیابی درج کراچکے ہیں ۔ نریندر مودی نے پہلی بار بی جے پی کو اکثریت سے ہمکنار کیا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا ۔ اسی لیے بی جے پی نے ۲۵ جماعتوں پر مشتمل قومی جمہوری محاذ بنایا تھا ۔للت مودی نے آئی پی ایل کے نام سے ہندوستانی کرکٹ کو ایسے مالا مال کیا جس کا تصور محال تھا ۔ سوشیل مودی انتخابی ناکامی کے باوجود اپنے دشمن نتیش کمار کی حکومت میں نائب وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوگئے اور سب سے بڑے حریف لالو یادو کو جیل بھیج دیا ۔ نیرو مودی نے ہندوستانی بنک کی تاریخ میں عظیم ترین گھپلا کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا اور ملک فرار ہوگئے۔ ہندوستان کی تاریخ میں جس طرح گاندھی پریوار اپنی قربانیوں کے لیے یا د کیا جائے گا اسی طرح مودی پریوار کو بھی اس کی بدعنوانیوں کے لیے بھلا یانہیں جاسکے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ رافیل گھوٹالے میں سنگین الزمات کے باوجود مودی جی پر انگشت نمائی سے گریز کیا جارہا ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451127 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.