شہر قائد کی سب سے بڑی سیاسی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ
(پاکستان) تقسیم کے منفرد مراحل سے گذر رہی ہے۔ یہ وہی تنظیم ہے کہ جس کے
ماضی میں تقسیم کی کاوش تو بہت دور کی بات ہے،سوچ تک ممکن نہ تھی۔ ایک قائد
کا فرمان ہوا کرتا تھا اور سب اس کے فرمان پر تن من دھن قربان ہونے کیلئے
تیار ہواکرتے تھے۔اب یہ بھی اک الگ معاملہ ہے کہ کیا ان کی یہ تیاری طے شدہ
منصوبے کے مطابق ہواکرتی تھی یا اس تنظیم میں سب پر قائد تحریک کا خوف ہی
اس قدرتھا کسی کو اس کے سامنے اظہار خیال کا موقع مل بھی جاتا تو ہمت نہ
کرپاتے تھے۔ بہرکیف وقت تیزی سے گذرتا ہے اور وہ تنظیم جس کی ماضی میں یہ
صورتحال تھی کہ انتخابات کے بعد اس کی مرضی سے ہی حکومت بنا کرتی تھی اور
سندھ کے ساتھ مرکزی حکومت میں بھی اس کے وزراء ہواکرتے تھے۔ قائد کے فرمان
پر جان بھی قربان ہے ،جیسے جملوں اور نعروں سے فضا ابرآلود رہا کرتی تھی
اور ان جملوں اور نعروں پر محالفین کے ساتھ رکھے جانے والے راویئے اس کی
غماز بھی بن جایا کرتی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس قائد تحریک کا کہیں بھی
شہر کی کسی دیوار پر کوئی نام ہے اور نہ ہی اخبارات میں اس کا کوئی ذکر و
تصویر ہے۔ ٹی وی چینلز پر بھی اس کی کوئی خبر ہے نہ ہی اس کے حوالے سے کوئی
ذکر ہے ۔
ایم کیو ایم کے اس قائد کی پاکستان کے خلاف تقاریر پر ملک کی قووتوں نے
ردعمل ظاہر کیا اور اس عمل کے نتیجے میں ہی ایم کیوایم وہ نہ رہی جو کہ
کھبی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ تاریخ کے جھروکوں میں دیکھا جائے تو یہ بات
سامنے آتی ہے کہ ایم کیو ایم سب سے پہلے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے معرض
وجو د میں آئی۔ اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میںتبدیل ہوئی اس کے بعد یہ
متحدہ قومی مومنٹ لندن اور پاکستان کی صورت میں عوا م کے سامنے آگئی۔ اس
کے بعد بھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ یہ تقسیم اور آگے بڑھی اور ایم
کیوایم پاکستان دو اور گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک گروپ پی آئی بی اور
دوسرابہادر آباد کی صورت میں عوام کے سامنے آیا۔ اسی ایم کیو ایم سے نکلے
ہوئے کارکنوں نے پاک سرزمین پارٹی بنائی اور ایک جماعت تاحال مہاجر
قوومومنٹ کی صورت میں موجود ہے اور اس کے قائد آفاق احمد کی صورت میں
جماعت کی رہنمائی اور سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ اس طرح سے عوام میں ہی
یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جماعت تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گذر کر یہاں تک
پہنچ چکی ہے اور اسی جماعت کےکچھ کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تقیسم
اور بھی بڑھے گی۔
گذشتہ چند دنوں سے ایم کیوایم کے اندرونی کہانیوں نے جہاں ذرائع ابلاغ میں
دھوم مچائی رکھی وہیں پر اس کے کارکنوں میں اک عجب سی کیفیت طاری رہی جو کہ
تاحال جاری ہے۔ کارکنوں کو اپنے رہنمائوں کے طرز عمل پر غم و غصہ رہا۔
کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار جو35برسوں سے ایم کیو ایم کی پلیٹ فارم سے اپنی
خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے طرز عمل سے چند دنوں قبل کی یہ صورتحال
سامنے آئی جو تاحال جاری ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان سینیٹ کے انتخابات سے
قبل نشستوں پر امیدواروں کے ناموں سے متعلق اختلافات پیدا ہوئے جواس قدر
شدید ہوچکے ہیں کہ اب یہ ایم کیو ایم بہادر آباد و پی آئی بی دو حصوں میں
منقسم ہوچکی ہے۔ ایم کیوایم کی اس صورتحال پر عوامی رائے جاننے کیلئے جب
سروے کیا گیا تو دلچسپ صورتحال سامنے آئی۔
شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے خالد کا کہنا تھا کہ یہ ایم کیو ایم اس دن ہی
ٹھوٹ گئی تھی جب اس کے قائد نے ملک کے خلاف تقریر کی تھی۔ اس نام نہاد قائد
کو تو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ساری پریشانی اس کے کارکنوں کے
حصے میں آتی ہے۔ کارکنان جو کہ عوام میں ہوتے ہیں وہ جہاں مختلف سیاسی
جماعتوں کے لوگوں سے ملتے ہیں وہاں انہیں متعدد سوالات کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔ جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو اس کی وجہ صدارت کے سوا کچھ نہیں
ہے۔ کاروبارکرنے والے قمر کا کہنا تھا کہ عجب تماشہ بنا دیا ہے اس پارٹی کے
رہنمائوں نے ۔ آج تلک کھبی ایسی صورتحال سامنے نہیں آئی جو اب دیکھنے کو
مل رہی ہے۔ پہلے ایک قائد تھا اور اس ایک قائد کے سامنے کوئی کچھ بھی کہنے
کی ہمت نہیں کرتا تھا اور جماعت میں بھی منظم انتظام تھا لیکن اب بلاوجہ ان
رہنمائوں نے تماشہ بنادیا ہے۔ ایم کیوایم پی آئی بی گروپ کے عقیل کا کہنا
تھا کہ بہادر آباد والوں کو ڈاکٹر فاروق ستار کےساتھ ظلم نہیں کرنا چاہئے
انہیں اس بات کا احساس کرناچاہئے کہ اس فرد نے اپنی زندگی اس جماعت کیلئے
گذار دی ہے اور ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ جہاں تھا وہ آج بھی وہیں پر ہے
۔ہم تو ہر طرح سے ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔ ان کے
ساتھ شاکر کا کہنا تھا کہ ہم تو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ خالد مقبول، عامر
خان، کنور نوید و دیگر سبھی ڈاکٹر فاروق کے پاس آئیں اور انہیں اپنے انداز
میں جماعت کو بہتر انداز میں چلانے دیں۔
ایم کیوایم سے اختلاف رکھنے والے مستنصر کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کو
بنانے والوں نے آج تک اس کا ایک بھی کام نہیں کیا ۔ پہلے مہاجر کا نام لے
کر مہاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا بعدازاں انہی مہاجروں کو ہر قوم سے
لڑوایا اور پھر نوبت تو یہاں تک آگئی کہ آپس میں ہی لڑے۔ ان کا کہنا تھا
کہ میرا مشورہ ہے ایم کیوایم کے دونوں گروپوں کے کارکنوں سے کہ وہ اپنی اس
جماعت کو چھوڑ کرہماری جماعت سمیت کسی بھی دوسری سیاسی ومذہبی جماعت میں
آجائیں۔ اپنے اور اپنے ملک کیلئے کام کریں۔ فیاض کا کہنا تھا کہ اس
صورتحال میں کارکنان عجب کیفیت کا شکار ہوگئے ہیں سرکاری و نیم سرکاری
دفاتر میں باقابل بیان کیفیت کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ علی کاکہنا تھا کہ
ایم کیوایم کیلئے ہم نے بہت قربانیاں دیں لیکن آج رہنمائوں کے اس راویئے
کے باعث ہم معاشرے میں تضحیک کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غضنفر کا کہناتھا کہ ملک
کی ایک بڑی جماعت ہے اور اختلافات ہرجماعت میں ہوتے ہیں لیکن کامران ٹیسوری
کے معاملے پر اس قدر اختلافات قابل مذمت ہیں۔ پارٹی کیلئے اب بھی رہنمائوں
کےدلوں میں بہت کچھ ہے اور چاہتے ہیں کہ ایم کیوایم پاکستان کیلئے بہت کچھ
کرے۔ فیصل سبز واری کے آنسو ئوں تک سے ان کے جذبات عیاں ہوتے ہیں۔ رہنما
نہیں چاہتے کہ ایم کیوایم میں اس نوعیت کے اختلافات ہوں،محب وطن رہنما و
کارکنان اس دنوں منظم سازش کا سامنا کررہے ہیں ۔
غزالہ مجیب کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کی خواتین کارکنان بھی اس صورتحال سے
پریشان ہیں ۔ تنظیم میں خواتین بھی ذمہ داران ہیں اور ان دنوں بہادر آباد
و پی آئی بی میں اختلافات کی شدت قطعی نامناسب ہے۔ کسی جماعت میں اس طرح
کی صورتحال نہیں لیکن ایم کیوایم میں سینٹ انتخاب سے قبل یہ سب کچھ ہونا نہ
سمجھ آنے والی باتیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ایم
کیوایم ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو اور ماضی کی طرح اس بار شہر قائد و اندرون
سندھ سے اپنی سابقہ نشستوں سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرے۔ شعبہ تعلیم سے
متعلق پروفیسر باسط کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں اس جماعت کی طلبہ
تنظیم موجود ہے اور اک مدت سے کام کررہی ہے ۔ ان دنوں ان کے کارکنان بھی
اسی طرح کی کیفیت سے دوچار ہیں جس طرح مرکزی جماعت کے دوحصوں میں موجود
رہنمااور کارکنان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلافات سیاسی جماعتوں میں ہوتے
ہیں اور یہ جمہوری حق ہے تاہم ان اختلافات کا گفتگوو مذاکرات کے ذریعے حل
تلاش کیا جانا چاہئے۔ اس قدر شدید انداز اختیار کرناقطعی مناسب نہیں۔ پیپلز
پارٹی کے ایک کارکن سولنگی کا کہنا تھا کہ ہمارے رہنما نے تو ان کو یہ کہہ
دیا ہے کہ یہ سب لوگ ہماری جماعت میں آجائیں۔ ہماری جماعت سندھ ہی کی نہیں
اس ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے لہذا جب یہ لوگ ہمارے ساتھ ہمارے سفر میں
شامل ہونگے تو ان کو فائدہ ہوگا۔ تحریک انصاف کے اک رہنما سیف خان کا کہنا
تھا کہ عوام نے حکمران جماعت سمیت دیگر جماعتوں کو دیکھ لیا اب ہم صرف ایم
کیوایم کو ہی نہیں اس کے کارکنان کو اور ان کے ساتھ دیگر جماعت کے کارکنان
کو بھی یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کا حصہ بنیںاور اس ملک کی تعمیر
و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
پی ایس پی کے ظہیر نے کہا کہ ایم کیوایم سے ہی نکل کر مصطفی کمال نے پاک
سرزمین پارٹی بنائی اور شہر قائد کی عوام نے اسے دل سے خوش آمدیدکہا ہے۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس جماعت میں دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیوایم
کے کارکنان بھی شامل ہورہے ہیں ۔ ان کی اس تنظیم میں مزید اختلافات پیدا
ہونگے اور یہ لوگ تماشہ بنیں گے اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ پی ایس پی کے
دروازے ان کیلئے کھلے ہیں وہ آئیں اور اس جماعت میں شامل ہوجائیں۔
سروے میں اسی نوعیت کےعوامی خیالات سامنے آتے رہے۔ ایم کیوایم کے اپنے لوگ
اس صورتحال سے پریشان ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کے لوگوں کیلئے ایم کیوایم کی
موجودہ صورتحال دلچسپی سےمزین ہے۔ انہیں نت نئی باتیں بنانے اور ہنسی مزاخ
کے مواقع مل چکے ہیں جن سے وہ مستفید ہورہے ہیں۔ متعدد نے اس خواہش کا بھی
اظہار کیا کہ دونوں گروپ ان اختلافات کو گفتگو سے حل کریں اور مثبت انداز
میں تنظیم کی سرگرمیوں کو آگے بڑھائیں ۔ |