وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنی ایک معصوم خواہش کا
اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے ’’․․․ سیاست میں ووٹ کے تقدس کا خیال رکھا
جانا چاہیے ․․․ سیاستدان کا فرض ہے کہ وہ اپنے مفاد کی بجائے ملکی مفاد کو
پیش نظر رکھے․․․ سیاست گالیوں، جھوٹ اور الزامات پر مبنی نہیں ہونی چاہیے
․․․․ بلکہ سیاستدان کا شعار محبت اور خدمت ہونا چاہیے ․․․ میرا دل چاہتا ہے
کہ میں سیاست کو خیر باد کہہ کر درسگاہوں میں جا کر لیکچر دوں․․․‘‘۔ وہ
سیالکوٹ میں ایک صوبائی وزیر کے ہمراہ ویمن یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم
کرنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اپنے ہاں ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ
انسان کرنا کچھ چاہتا ہے، مگر حالات یا دنیا داری کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ
کچھ اور کرتا رہتا ہے، بعض اوقات تو انسان خود مختار ہونے کے باوجود اپنی
مرضی کا پیشہ اختیار نہیں کر پاتا، اس کمی کا احساس ساری زندگی اسے چین
نہیں لینے دیتا۔ مگر خواجہ صاحب کا معاملہ اس قدر سنگین نہیں، وہ سیاست کر
رہے ہیں تو بہت حد تک مطمئن ہیں، وہ عوام کے شکر گزار ہیں کہ وہ اُن پر
اعتماد کرتے ہیں، یہی ووٹ کا تقدس ہی انہیں سیاست چھوڑنے نہیں دیتا۔
لیکچر دینا کسی حد تک مشکل کام ہے، جہاں تک اس عمل کے لئے خود اعتمادی کی
ضرورت ہوتی ہے، وہ تو اکثر سیاستدانوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، رہی
ڈھنگ سے بولنے کی بات ،تو وہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا، پھر ذخیرہ
الفاظ کی بھی شدید ضرورت ہوتی ہے، موضوع پر گرفت بھی ہونا مجبوری ہے۔
سیاستدان سیاسی جلسوں، نجی محفلوں یا ٹی وی کے ٹاک شوز میں جو گفتگو کرتے
ہیں، وہ علمیت اور عملیت سے خالی ہوتی ہے، وہ ایسی جگالی ہوتی ہے جو انہیں
اپنے پارٹی لیڈر کی تعریف میں مسلسل اور ہر مقام پر کرنا پڑتی ہے، اس کے
لئے دلائل کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی، بس بندہ بلند آہنگ ہو اور مسلسل بولنے
کی مشق رکھتا ہو۔ سیاستدانوں میں بہت سے ایسے ہیں جو بظاہر بھی پروفیسر ہی
لگتے ہیں، اپنی پروفیسرانہ عادتوں سے مجبور بعض اصحاب کو تو باقاعدہ
پروفیسر کہہ کر پکارا بھی جاتا ہے۔ بعض تعلیمی اہلیت اور بولنے کی صلاحیت
سے ما لا مال ہوتے ہیں، مگر ان کی گفتگو میں بھی علمیت کم اور اپنے قائدین
کی تعریفیں زیادہ ہوتی ہیں، تقریب کوئی بھی ہو، موضوع کیسا بھی ہو، اُن کی
تان میاں برادران کی تعریف اور ان کے جملہ مخالفین پر تنقید پر ٹوٹتی ہے،
اپنے وزراء کی یہی کارکردگی حسنِ اتفاق سے اُن کا میرٹ اور ’حُسنِ کارکردگی‘
بھی ہے۔ خواجہ آصف نے لیکچر دینے کی کی خواہش کا اظہار تو کیا ہے، مگر کیا
کریں کہ عوام کے ووٹ اور ان کی محبت خواجہ صاحب کا راستہ روک کر کھڑی ہو
جاتی ہے۔
خواجہ صاحب بظاہر تند خُو سیاستدان ہیں، جذباتی بھی ہو جاتے ہیں اور تلخی
پر بھی اتر آتے ہیں، مگر لیکچر کی بات کرتے ہی انہوں نے گالیوں، الزامات
اور اسی نوع کی دیگر عادات کی نفی کی ہے، اگرچہ وہ خود بھی ایسا شوق فرماتے
رہتے ہیں۔ فرض کریں وہ دل پر پتھر رکھ کر اپنی خواہش میں رنگ بھرنے پر آماد
ہ ہو بھی جائیں تو ان کے لیکچر کس قسم کے ہوں گے، ان کے موضوعات کیا ہوں
گے؟لیکچر دیتے ہوئے وہ خود کو غیر جانبدار رکھ پائیں گے یا روایتی طور پر
جانبداری کی تلوار اٹھا کر ہی اپنے جذبات کا اظہار کریں گے؟چلیں فرض کریں
جانبداری کے چکر میں ، ایک پارٹی کے بارے میں ’سب اچھا‘ نہ سہی، کیا وہ
اچھے کو اچھا اور بُرے کو بُرا کہنے کی ہمت خود میں پاتے ہیں؟ (اس وقت ہمت
تو وہ بہت پاتے ہیں، مگر صرف ن لیگ کو اچھااور دیگر تمام کو بُرا کہنے کی)۔
اُن کا تعلق ایسے شہر سے ہے، جہاں شعر و ادب کی دنیا کے ایسے ستارے نمودار
ہوئے ہیں جن کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ اگر خواجہ صاحب بھی ہمت دکھائی
اور عوام کی خدمت چھوڑ کر نوجوانوں کی رہنمائی کا بیڑہ اٹھائیں، تو ممکن ہے
ان کا نام متنازع ہونے کی بجائے محترم ہو جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر
کوئی یونیورسٹی بھی ہمت دکھا کر انہیں ’ڈاکٹریٹ‘ کی اعزازی ڈگری دے سکتی
ہے، کیونکہ ان کے سیاسی قائد کو ایسی ڈگریاں مل چکی ہیں۔ یوں ان کا نام
بھاری بھرکم بھی ہو جائے گا اور اندرون اور بیرونِ ملک قابلِ احترام بھی ،
یعنی’’ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد آصف‘‘۔ بہت سیاست کر لی ، اب یہ بھی کر
دیکھیں۔
|