مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب استاددارلعلوم
ندوۃ العلماء لکھنونے چند روز قبل مشہور ہندو لیڈر روی روی شنکر کے ساتھ
بابر ی مسجدتنازع کے سلسلے میں ملاقات کی۔ انھوں نے ملاقات کی وی، ڈیوسوشل
میڈیا پر کیا ڈالی کہ پورے ہندوستان میں ایک محشر برپا ہوا ۔سوشل میڈیا پر
لمحہ بہ لمحہ نئے پوسٹس اورخیالات کے سیلاب نے تمام تر حدود و قیود
پھلانگتے ہو ئے مولانا کے خلاف اور حمایت میں ایک محاذ کھول رکھاہے
۔مخالفین اور حمایتیوں کے روز نئے خیالات اور دلائل کے بعد انہیں دیکھنا
پڑھنا بھی ممکن نہیں رہا ہے ۔دراصل پورا ہنگامہ اس بات پر ہے کہ مسلمانانِ
ہند کے اب تک اپنائے گئے موقف کے بالکل برعکس مولانا سلمان ندوی صاحب نے یہ
تجویزکیوں پیش کی کہ ’’ہم متنازع جگہ ہندؤں کو دیدیں اس کے عوض میں حکومت
ہمیں اسے دوگنی زمین کہیں فراہم کرے جہاں مسجد کے علاوہ ایک شاندار
یونیورسٹی تعمیر کی جائے گی ‘‘۔ساتھ ہی ساتھ مولانا کے مطالبات میں یہ بھی
شامل ہے کہ اصل جگہ سے دستبرداری کی صورت میں حکومت بابری مسجد شہید کرنے
والوں کو سزا دیدے ،اس مسئلے کے نام پر اب تک ہو ئے شہیدوں کو معاوضہ فراہم
کیا جائے ،تمام شدت پسند ہندؤ تنظیمیں ہمیشہ کے لئے دیگر جگہوں پر کئے گئے
دعوؤں سے دستبردار ہو جائیں جن میں بہت ساری مساجد،خانقاہیں ،قبرستان اور
مدارس شامل ہیں اور مولانا نے ملک میں خوشگوار برادرانہ ماحول کو بڑھاوا
دینے کے لئے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ جب بھی مستقبل میں ہندؤں اور
مسلمانوں کے بیچ پرتناؤ صورتحال جنم لے گی اس وقت مسلم اور ہندؤ علماء کی
پہلے سے تشکیل شدہ کمیٹی فوراََ حالات کو قابو میں لانے کے لئے مشترکہ موقف
اپناتے ہو ئے دونوں طرف کے شدت پسندوں کے عزائم کو ناکام بنا دی گی ۔
ان تمام نقاط میں اصل ہنگامہ اس بات پر ہے کہ ’’مولانا نے شہید بابری مسجد
کی زمین ہدیہ کرنے کی تجویز کیوں پیش کی ہے؟ ‘‘مولانا کے دوسرے مثبت پر
نقاط پریہ تجویز اس قدر غالب آچکی ہے کہ کوئی نہ ان کی طرف توجہ دے رہا ہے
نا ہی سننے کے لئے تیار ہے ۔اس کی وجہ وہ ذہنیت ہے جس کو پروان چڑھانے میں
میرے سمیت تمام صاحبانِ جبہ و دستار برابر کے شریک ہیں ۔مولانا کی تجویز سے
ایک لمحہ ہٹ کر اگر ہم غور کریں تو محسوس ہوتاہے کہ عوام الناس سے شکوہ کی
کوئی گنجائش خودخواص نے نہیں چھوڑی ہے اس لئے کہ وہ’’ خاص علمی ماحول
‘‘کوطاقت بخشنے میں عرصہ دراز سے مشغول ہیں جہاں رٹی رٹائی باتوں سے الگ
اور ذرا ہٹ کر سوچنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔یہ معاملہ اسی مسئلے کے ساتھ
خاص نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے جمیع فقہی اور شرعی مسائل میں یہ جمود زدہ
بیمار ذہنیت اس حدغالب آچکی ہے کہ کوئی عالم اگر کسی بھی مسئلہ میں ائمہ
اربعہ کے شاگردوں کی بات مع دلائل و جواز پیش کرے تو بھی اس کو اچھا نہیں
سمجھا جاتا ہے ۔مقلدانہ مزاج (جس کو ہم نے صدیوں سے پروان چڑھانے میں کوئی
کمی نہیں چھوڑی ہے )نے ہمیں فقہی مسائل میں ہی نہیں بلکہ علمی ،سائنسی
،سماجی ،تاریخی اور سیاسی مسائل میں بھی نومولود بچوں کے مقام پر لاکھڑا
کیا ہے کہ جس پر ہمارے بڑوں یا بزرگوں نے ایک مرتبہ مہر لگا دی قیامت تک کے
لئے ایسی ’’وحی‘‘بن گئی کہ ایک قدم باہر گناہ اور ارتداد نا صحیح جرم ضرور
ہے ۔مجھے ہر ایسے موقع پر،امام احمدبن حنبلؒاور امام ابن تیمیہ ؒ کے بعد
مولانا سید مودودیؒ یاد آتے ہیں جنہیں علماءِ عصر نے اس قدر مطعون کردیا کہ
ایک کو کوکوڑے کھانے پڑے ،دوسرے کو جیل کے اندر مر جانے پر مجبور کردیا گیا
اور تیسرے کو گالی کے ہم پلہ بنا دیا ۔المیہ یہ ہے کہ ’’تفرداتِ علماء‘‘سے
واقف ہمارے بڑوں نے بھی اجنبی رائے رکھنے یا دینے کو ناقابل معافی جرم بنا
دیا ہے ۔مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کے عقائد،افکار،تصورات بلند
حوصلوں اور عزائم مولانا وحید الدین خاں صاحب کی طرح جمہور سے الگ اور
مختلف نہیں ہیں ۔بابری مسجد قضیہ سے متعلق ایک رائے دینے پر جب ان کے ساتھ
ایسا ’’غیر مہذب‘‘رویہ اپنایا جا سکتا ہے تو پھر دوسروں کے لئے کیا گنجائش
نکل سکتی ہے تصور کرنا اب محال نہیں ہے ۔
مولانا سلمان ندوی صاحب کی تجویزکوخاص مسلم حلقوں نے اُس مخصوص اندازاور پس
منظر میں لینے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے جس میں اس طرح کی تجاویز کو شریعت
کی ترازو میں تولنے کے برعکس اس من پسند ترازو میں تولا جاتا ہے جہاں پلڑے
کو ہر حال میں اپنے ہی جانب جھکانے پر مجبور کیا جاتا ہے ،نہیں تو پوچھا جا
سکتا ہے کہ بابری مسجد تنازعہ سے ذرا ہٹ کر دیکھ لیجیے کہ بین المسلمین
اختلافات میں بھی ہم نے مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی اجازت
تو درکنار بلکہ ہم نے ہمیشہ’’ مسجد جہاں ہے وہاں ہی قیامت تک رہے گی ‘‘کا
فتویٰ صادر کر کے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کردی ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نے
کبھی بھی حضرت امام اہلسنت احمد بن حنبلؒ تو دور کی بات خود حضرت امام محمد
شیبانیؒ کے فتوے کے مطابق فتویٰ نہیں دیا بلکہ ہم بضد امام ابویوسف ؒ کے
فتوے پر رہے آخر کیوں؟خود میرے گاؤں میں ایک مسئلہ پیدا ہوا کہ محلے کے لوگ
ایک مسجدمیں تنگی کے پیش نظر دوسری جگہ مسجد بنانے اور پہلی کو شہید کر کے
قرآنی درسگاہ بنانے کے خواہش مند تھے میں نے ان کے سامنے نامی گرامی مفتیوں
سے بات کی تو انھوں نے پہلی اور آخری بات یہی کہی کہ پہلی مسجد قیامت تک
مسجد ہے لہذا لوگ پہلی مسجد میں دوسری تیسری منزل کا اضافہ کریں مسجد نا
بنائیں حالانکہ انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھتی آبادی کے لئے یہ جگہ ہر لحاظ سے
بہت تنگ تھی ۔ عوام نے نا میری اور نا ہی مفتیوں کی مانی بلکہ اپنے طور پر
شاندار مسجد تعمیر کی جس میں بہت سارے لوگ فتوے کے پس منظر میں ابھی تک
نماز پڑھنے میں تردد محسوس کرتے ہیں ۔مفتیان ِکرام اور علماءِ عظام کے شدت
اور تکرار کے ساتھ ان فتوؤں نے عوام تو عوام لکھے پڑھوں کا بھی یہ ذہن بنا
لیا ہے کہ میرے فیس بک پر سلمان صاحب کے متعلق ایک پوسٹ ڈالنے پر ایک صاحب
نے مولانا کو نعوذباﷲ مرتد قراردیدیا ۔عوام الناس کی بد زبانی ،بدتمیزی،لعن
وطعن،توہین و تحقیر پر کیوں حیرت ہوگی جب پارلیمنٹ ممبر بیرسٹر اسد الدین
اویسی صاحب اور اعظم خان صاحب بھی مولانائے محترم سے متعلق وہ زبان استعمال
کرے جو جاہلوں اور آوارہ لفنگوں کو بھی زیب نہیں دیتی ہے ۔یہ ہے وہ شر جو
میں نے اور آپ نے پھیلا رکھا ہے ،جس کو میں نے اور آپ نے پروان چڑھایا ہے
اور افسوس کہ ایک روز ہم خود اس کی ضد میں آتے ہیں ۔
مولانا سلمان ندوی صاحب کی تجویز سے وحشت زدہ عوام الناس کا کوئی قصور نہیں
ہے جب ہم مخالفین کے خلاف لکھتے اور بولتے ہو ئے انہیں ذلیل کرنے میں کوئی
کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں اور ہم نے انہیں اس کا عادی بنا دیا ہے تو پھر
بڑے بڑے علماء کے ساتھ ایسے شرمناک واقعات پیش آنا ناممکن نہیں ہے ۔اب جہاں
تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولانا نے جو تجویز پیش کی ہے وہ شرعی اعتبار سے
کتنی درست اور مناسب ہے پر ہمیں گھبرانے کے برعکس ٹھنڈے دماغ کے ساتھ غور
کرنا چاہیے ۔محترم ندوی صاحب جن فتاویٰ کو بنیاد بنا کر بطورِ دلیل پیش
کرتے ہیں وہ میرے خیال میں بین المسلمین تنازعات سے متعلق خاص ہیں نہ کہ
خانہ خدا کو مسلمانوں کی مرضی سے بت خانہ میں تبدیل کرنے سے متعلق؟اب سوال
پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُن فتاویٰ کو نظیر بنا کر بابری مسجد کے تنازعے پر فٹ
کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بے شمار مسائل میں فقہاء کرتے ہیں یہ خالصتاََ ایک
نازک علمی معاملہ ہے اور مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب جیسے صاحب علم کے
ذہن میں اس طرح کی نظائرضرور ہوں گی مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر نظائر کے
بالکل برعکس ہم سیدھے طور پر ’’خانہ خدا کو بت خانہ‘‘بنانے کے جواز پر عمل
کرنے کے جواز کا فتویٰ بھی دیں گے تو کیا ہندوستان کے مسلمان اسے قبول کریں
گے ؟میرے علم کی حد تک ہندوستان میں بریلوی مکتبہ فکر کے لوگوں کی اکثریت
رہتی ہے اورپھر ان کے بعد دوسرے مکاتب فکر جن میں دیوبندی ،ندوی،سلفی اور
جماعت اسلامی شامل ہے کا نمبر آتا ہے ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا مولانا کی
تجویز کو یہ تمام مکاتب فکر قبول کریں گے ؟ میرے خیال میں یہ بہت مشکل ہے
کیوں؟
مشکل اس لئے ہے کہ یہ مسئلہ ناصرف حساس مذہبی مسئلہ ہے بلکہ سیاسی بھی ہے
۔بھارت دولخت ہونے کے بعد ہندؤں کا پورے ملک میں بالادست ہونا اظہر من
الشمس ہے ۔وہ جہاں جو چاہتے ہیں بغیر کسی روکاوٹ کے بنادیتے ہیں۔ہندوستان
کی مسلم اقلیتی ریاستوں کے برعکس اگر ہم سیدھے مسلم اکثریتی ریاست جموں و
کشمیر کے صوبہ جموں میں داخل ہو جائیں گے تو لکھن پور پل سے لیکر بانہال
(جو وادی کشمیر کا صدردروازہ ہے )تک انھوں نے کوئی ندی ،کوئی نالہ ،کوئی
پہاڑ اور کوئی میدان نہیں چھوڑا ہے جہاں انھوں نے مندر تعمیر نہیں کئے
ہیں۔لاکھوں بلکہ کروڑوں مندر وں والے ملک میں آخر بابری مسجد ہی نشانہ کیوں
بنائی گئی غور طلب معاملہ ہے ؟ اور پھر اس کو اس قدر گرمانے کاپس منظر کیا
ہے وہ سمجھنا بھی کوئی دشوار معاملہ نہیں ہے ۔دراصل سنگھ پریوار کے لوگ
مسلمانوں سے مسجد چھین کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ
انہیں پتہ چلے کہ دولخت ہونے کے بعد یہ ملک مکمل طور ’’اول درجے کے شہریوں
‘‘ہندؤں کا ملک ہے ۔مودی کے دہلی میں وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد
گذشتہ چار برس میں سنگھ پریوار نے مسلمانوں کو برباد کرنے کے لئے کیا کیا
وہ ہم سب کے سامنے ہیں ؟ بھارت سرکار کے لئے تین طلاق کا غیر اہم اشو میں
دلچسپی کا پس منظر بھی یہی ہے اور حج سبسڈی کی منسوخی کل کی بات ہے
۔میراخیال ہے کہ ایسے میں زخم خوردہ ہندوستانی مسلمان جیتے جی بابری مسجدکی
زمین کو ہندؤں کوگفٹ کرنے کی تجویز قبول نہیں کریں گے ۔
مولانا سید سلمان صاحب جیسے زمانہ شناس عالم کی نگاہوں سے یہ بات بھی اوجھل
نہیں ہوگی یہ مسئلہ مذہبی اور سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ جذباتی مسئلہ بھی ہے
دوسرے خطوں کے مقابلے میں برصغیر کے لوگ ’’زیادہ ہی جذباتی ‘‘ہیں لہذا اس
لحاظ سے بھی مولانا کے خلاف ردعمل آنا حیرت انگیز بات نہیں ہے
۔مولیٰنامحترم کو یہ بھی یاد ہوگا کہ بابری مسجد مسئلہ پر ان سے پہلے
مولانا وحید الدین خان صاحب نے بھی اسی سے ملتی جلتی تجویز یہ پیش کی تھی
کہ اراضی کو حکومت کسی کو دینے کے بجائے اپنی تحویل میں لیکر اس جگہ ہسپتال
بنائے۔مولانا کے ہاں چونکہ ہر دوسرے مسئلے میں تفردات کا غلبہ رہتا ہے لہذا
ان کی تجویز پر اتنی لے دے نہیں رہی جتنی کہ ندوی صاحب کے تجویز پر رہی
۔میں مولانا سلمان ندوی صاحب کے علم اور تفقہ کے مقابلے میں بہت حقیر سا
وجود ہوں ،کمالِ ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بزرگوار سے
اس مسئلے کو لیکر کئی مقامات پر ’’ہینڈل‘‘کرنے میں تسامح ہوا ہے نمبر ایک:
عالم اسلام کونکال کر اگر اسے صرف مسلمانان ہند ہی کا اشو قرار دیا جائے تو
اتنے بڑے مذہبی مسئلے پر ایک دو تو کیا صرف دیوبند اور ندوہ کا فتویٰ بھی
کافی نہیں ہے بلکہ تمام مسلمہ مسالک اور مکاتب فکر کے علماء کا کم سے کم
اتفاق ضروری ہے ۔نمبردو:عوام میں تجویز پیش کرنے سے قبل مسلمان سیاسی
لیڈران اور دانشوروں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی ۔نمبر تین:روی
روی شنکر کے برعکس (جنہیں ہم نے کشمیر میں کئی مسائل کو لیکر غیر سنجیدہ
اور غیر محتاط محسوس کیا ہے)کسی بااثر مذہبی پیشوا جس سے سنگھ پریوارمیں
مقامِ قبولیت حاصل ہوتی کا انتخاب کیا جانا چاہیے تھا ۔نمبر چار:اس حساس
مسئلے پر تجویز دینے سے ایک دو سال پہلے کام شروع کرناضروری تھا ۔نمبرپانچ:
اتفاقی اور اجتماعی فتویٰ اور مشورے کے بعدعوام الناس میں تمام مکاتب فکر
کے علماء لوگوں کا ذہن تیار کرتے تو پھر شاید وہ ساری باتیں باوزن ہوتی جو
اس تجویز کے ساتھ آپ نے پیش کی ہیں ۔
جو کرنا چاہیے تھا وہ نہ کر کے اب جبکہ یہ تجویز سامنے آ چکی ہے اور یہ
عوامی موضوع بن چکا ہے تو مولانا کے پیش کردہ باوزن خدشات پر ملک و ملت کے
بہی خواہوں کو غور کرنا چاہیے باوجود یکہ وہ آپ اپنے ہاتھوں مسجد کی اراضی
گفٹ کرنے کو گوارا نہ کریں مگر سوال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کا ہے کہ
اگر اراضی فریق مخالف کو ملی تو مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچے گی اسے
انہیں باہر کیسے نکالا جا سکتاہے ؟دوم اگر اﷲ نا کرے فسادات ہوئے تو اس
صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟کیس جیتنے یا ہارنے کے بعد تین ہزار
مساجداور درگاہوں پر اپنی نگاہیں ٹھہرانے والے مسئلے کا حل کیا ہے؟مولانا
سلمان ندوی صاحب کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ،امام محمدؒ
اور امام ابن تیمیہؒکے فتاویٰ کوبنیاد بنا کر’’مسجدجو عرصہ سے نہ صرف اقامت
صلوٰۃ سے محروم ہے اور شہید کر دئے جانے کے بعدویران ہی نہیں بلکہ
عملاََانتہا پسندوں کے ہاتھوں بت خانے میں تبدیل ہو چکی ہے ‘‘کو سپریم کورٹ
کا فیصلہ آنے سے قبل ہی جبری قبضے کو قبول کر کے اپنی شرائط پر بات چیت کا
آغاز کردیا جائے۔انہیں خدشہ ہے کہ سپریم کورٹ اراضی ہندوں کو دے یا نا دے
مسلمان دونوں صورتوں میں نقصان میں ہیں ہاں اگر وہ ازخود ان کے جبری قبضے
کو قبول کرکے انہیں دیدیں تو شاید نقصانات کا دائرہ محدود ہو سکتا ہے ۔
بابری مسجد سے متعلق مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کی ’’شاذرائے‘‘پیش
کرنے پر عوامی حلقوں کا شدید ردعمل بالکل حیرت انگیز نہیں تھا مگر مسلم
پرسنل لابورڈ نے حیدرآباد کے اجلاس میں مولاناکوبورڈ سے اخراج کرکے اپنے
دیوالیہ پن کا مظاہرا کیا ۔حیرت یہ ہے کہ بورڈ میں ہندوستان کے چوٹی کے
علماء اور دانشور شامل ہونے کے باوجود اس طرح کا افسوسناک فیصلہ بعض سازشی
عناصر کی کوششوں کے نتیجے میں لیکر بورڈ کی پہلے سے خراب شبیہہ کومزید
بگاڑنے کا ذریعہ بنا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مولانا نے بورڈ سے مختلف
رائے دیکر کون سا گناہ یا جرم انجام دیدیا جس کی سزا بورڈ کے اصولوں کے
مطابق یہ ہو ۔شایدآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ یہ بھول چکا ہے کہ اس کا اصل
کام ’’مسلم پرسنل لا‘‘کا تحفظ ہے اور مولانا نے یہ رائے بابری مسجد سے
متعلق دی ہے پرسنل لا سے متعلق نہیں اور اگر بحیثیت عالم ،رہنما اور لیڈر
کے وہ پرسنل لاسے متعلق رائے دے بھی دیں تو بھی اسے ’’اخراج‘‘کا کیس کسی
بھی طرح بنتا ہوا نظر نہیں آتا ہے ۔مولانا نے جب پرسنل لا سے جڑے تین طلاق
پر بورڈ کے بالکل برعکس رائے دیدی تب بورڈ میں کسی کی رگِ حمیت نہیں پھڑکی
اور پھر سب سے بڑا المیہ یہ کہ ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘کے نائب
صدر اور معروف ’’شیعہ عالم ڈاکٹر کلب صادق صاحب‘‘نے نیوز18چینل کو انٹرویو
دیتے ہو ئے’’ اجودھیا میں ودیا مندر‘‘ بنانے کی رائے پیش کی اور اخبارات
میں شائع ہوئی تو بورڈ ممبران میں سے ایک نے بھی اس پر ناراضگی نہیں جتائی
!پھر مولانا سید سلمان ندوی صاحب کے خلاف ہی اتنا غم و غصہ کیوں ؟یہی وجہ
ہے کہ میرے سمیت بہت سارے نوجوان اور بزرگ مولانا کے معاملے میں بورڈ کی
جانب سے اپنائے گئے دوہرے میعار کو شک کی نظر سے دیکھتے ہو ئے اسے ایک سازش
قرار دیتے ہیں جیسا کہ بورڈمیں شنوائی سے قبل ہی مولانا کو ناصرف بورڈ سے
نکالنے کا مطالبہ سامنے آیا بلکہ ظفر یاب جیلانی صاحب کے اعلان کے بعد بورڈ
ممبران نے جشن مناکر نعرے بلند کئے گویا کہ بورڈ نے مولانا کی رکنیت ختم کر
کے کوئی قلعہ فتح کیا ہو ۔پھر سب سے افسوسناک یہ کہ بعض بورڈ ممبران نے
مولانا کو آر ایس ایس کا ایجنٹ قرار دیکرآپ اپنے چہروں پر کالک ملنے کی
شرمناک کوشش کی اور کسی نے ان بے شرموں کو ٹوکنا گوارا نہیں کیا تو کیا ان
کی خاموشی کو تائید تصور کیا جائے گا؟اسی سے حوصلہ پاتے ہوئے بعض کمینوں نے
ٹیلی ویژن چینلز پر آکر اب ناقابل یقین الزامات عائد کرنے کا آغاز کیا ہے ۔
مولانا کے خلاف پروپیگنڈا کے ڈانڈے بہت دور تک ملتے ہیں ۔بہت سوں کے دلوں
میں مصر میں اخوان المسلمون کے قتل عام پر عالم عربی کی بالعموم اور خلیجی
ممالک پر بالخصوص تنقید کرنا اس قدر ناگوار گذری کہ وہ مولانا سے انتقام
لینے کے انتظار میں بیٹھے بس گھٹ گھٹ کر مرنے ہی والے تھے کہ گویا بورڈ نے
ان کے زخموں پر مرہم رکھدیا ۔علماءِ عجم میں مرشدی حضرت علامہ سید ابوالحسن
علی حسنی ندویؒ کے بعد عالم عربی میں علم و تفقہ اور غیرت و حمیت کے حوالے
سے جو شہرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کو نصیب ہوئی ہے سے بعض لوگ
خار کھائے آپ اپنے غضب میں پھٹے جا رہے تھے یہاں تک کہ تمام تر’’ مفادات و
مراعات کی آفروں‘‘ کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہو ئے مظلومین کے ساتھ کھڑے ہو
کر سلمان ندوی صاحب نے حسینی النسل ہونے کا ثبوت فراہم کیا جبکہ ٹھیک اسی
قتل عام کے بیچ بہت ساروں نے عربوں کے حق میں فتوے دیکر یا خاموش رہ کر
ٹھیک ٹھاک مال کما کر اپنی اصلیت بھی ظاہر کردی ۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے
کہ مولانا اگراخوان کے قتل عام پردوسروں کی طرح خاموش رہتے تو نا صرف یہ کہ
وہ ’’عالم عربی کے چہیتوں‘‘میں سر فہرست ہو تے بلکہ دوسروں کے مقابلے میں
تحائف و ہدایا وصولنے میں بھی سب سے آگے ہوتے مگر ان کے ضمیر نے یہ گوارا
نہیں کیا ۔انھوں نے جس طرح فلسطین،افغانستان،عراق،شام،یمن اور دیگر مظلومین
پر ہو رہے ظلم و جبر پر ہر وقت احتجاج کیا اسے بڑھکر عالم عربی کی اسلامی
تحریکات میں سرخیل اخوان المسلمون پر ہو رہے مظالم پر احتجاج کر کے صحیح
معنوں میں علامہ مرشدی ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کے سچے پیروکاروں اور ان کے
نقش قدم پر چلنے والے عاشقوں میں اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر کے ایک
مثال قائم کی ۔ مولانا اس سب کے باوجود معصوم نہیں ہیں بلکہ ایک بشر ہیں
اور انسان سے سوچنے ،سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے میں غلطی کا امکان موجود
رہتا ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ جو مسلمانوں کا ایک غیرسرکاری ادارہ ہے کا رویہ
اگر ایک معزز ممبر کے ساتھ ایسا سوتیلا اور افسوسناک ہو سکتا ہے تو انہی
ہاتھوں میں ریاست ہو تو ہم جیسے عام انسان ان سے کیا توقعات وابستہ کر سکتے
ہیں ؟ |