اﷲ بھلا کرے فیس بک دوستوں کا کہ وہ اکثرمعلومات فراہم
کرتے رہتے ہیں۔مجھے چند دن پہلے فیس بک پر کسی دوست کی ایک پوسٹ ملی جس نے
یہ مضمون لکھنے پر آمادہ کیا۔پوسٹ کی ایک طرف بھارت کا ایک متشد ہندو ایک
بزرگ مسلمان پر تشدد کر رہا ہے۔مسلمان پر تشدد کرتے ہوئے اسے کہہ رہا ہے۔
بول جے سری رام ۔بول جے سری رام۔مسلمان جے سری رام کہنے سے انکار کر رہا ہے۔
مسلمان ہندوکے تشدد کی وجہ سے نڈھال ہو گیا۔ بار بار کہہ رہاہے مجھے نہ مار۔
مجھے نہ مار۔ متشدد ہندو ہے کہ اسے مارے ہی جا رہا ہے۔مار کھاتے کھاتے اس
کی آواز بیٹھ گئی۔ نحیف آواز میں بزرگ مسلمان کے منہ سے فریاد نکل رہی ہے۔
اے پروردیگار۔ اے پروردیگار۔اﷲ گواہ ہے یہ پوسٹ دیکھ کر میرے آنسو جاری ہو
گئے۔ اس ظلم بھری ویڈیو کی دوسرے طرف کی پوسٹ دیکھی۔ ایک عرب ریاست ابو
ذہبی میں ہندوؤں کے پہلے مندر کا افتتاع ہو رہا ہے۔مندر کی دیواروں پر ہر
طرف پر درجنوں بت نظر آ رہے ہیں۔ اس موقع پر ہندو پنڈت زعفرانی لباس زیب تن
کیے ہوئے ہیں۔ابوذہبی کے حکمرانوں میں سے کچھ لوگ عرب کا روائتی سفید لباس
زیب تن کیے ہندو پنڈتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ابو ذہبی کے حکمران جے سری
رام۔ جے سری رام کے ہندوؤں کے مشرکانہ مذہبی نعرے لگا رہے ہیں۔ افسوس صد
افسوس کہ ایک طرف غریب مسلمان جو بھارت میں اقلیت بھی ہے،ہندوانہ سوسائٹی
کے اندر مجبور بھی ہے۔اپنے ایمان پر پہاڑ کی طرح گھڑا ہے۔ دوسری طرف آزاد
خود مختیار ریاست کے دولت مند ابو ذہبی کے حکمران ہیں کہ جے سری رام۔جے سری
رام کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یا اﷲ مسلمانوں نے ایسے دن بھی دیکھنے تھے؟ایک
ہندو کے تشد کرنے پر بھی جے سری رام کا نعرہ نہیں لگا رہا۔ کسی اسلام دوست
مسلمان نے یہ دونوں ویڈیو ایک ساتھ برابر میں پوسٹ کیں تاکہ ہم مسلمان خود
اندازہ کریں کہ ہم پستی کی کون سی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ ان دونوں ویڈیو کو
دیکھے آج تین دن ہو گئے ہیں۔ اس پرکچھ لکھنے پر دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر
بلا آخرمسلمانوں کی آگاہی کے قلم اُٹھایا ہے۔
صاحبو!پہلے عرب میں بتوں کی پوجا پر بات کرتے ہیں ۔آخر میں تجزیہ کریں گے
کہ کس بات پر ابوذہبی کے حکمران اپنی مسلمان توحیدی ریاست میں پہلابتوں سے
بھرا مندر بنانے پر رضا مند ہوئے ہیں۔کیا ان عربوں کو کوئی مالی امداد
چاہیے ؟کیا ان کے پاس دولت کی کمی ہے؟یا کوئی انجانا ڈر ہے۔ آخر کیا وجہ ہے
کہ بتوں سے نفرت کرنے والے عربوں کے ملک میں بتوں سے بھرا مندر بن گیا ہے۔
رسول ؐاﷲ کے دور میں خانہ کعبہ کے اندر ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔اﷲ کے رسولؐ
نے فتح مکہ کے بعد ایک ایک کر سارے بتوں کو توڑ دیاتھا۔ عرب ایک اﷲ کو
مانتے تھے۔ جب اﷲ کے حکم پر عرب کے مشرکوں کو کہا جاتا کہ یہ زمین آسمان کس
نے بنائی ہے۔ تو وہ کہتے تھے اﷲ نے بنائی ہیں۔ رسول ؐ اﷲ مشرکوں سے کہتے
تھے تو پھر بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو۔ صرف ایک اﷲ کی عبادت کرو۔ مشرکوں کا
جواب ہوتا تھا کہ یہ بت ہمارے سفارشی ہیں۔بت ہماری فریادوں کو اﷲ تک
پہنچانے کا وسیلہ ہیں۔ یہی بات بھارت کے بت پرست ہندو بھی کہتے ہیں۔قرآن
کہتا کہ اﷲ انسان کے دل کے قریب ہے ۔ اﷲ انسانوں کی فریادیں سنتا ہے۔ اﷲ
اپنے مومن بندوں کی جائز دعاؤں کو قبول بھی کرتا ہے۔ قرآن جہاں تک کہتا کہ
اﷲ شرک کے سوا سارے گناہ معاف کر دے گا۔ قرآن شریف میں ہے کہ ’’اﷲ کے ساتھ
جس نے کسی اور کو شریک ٹھرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے
سخت گناہ کی بات کی‘‘(النساء۴۸) شرک کے معنی یہ ہیں کہ کسی دوسرے کو سمیع و
بصیر، علم الغیب ، مختار،قادر و متصرف اور الوہیت کے دوسرے اوصاف سے
مُتّصِف قرار دے اور اس بات کا انکار کرے کہ اکیلا اﷲ ہی ان صفات کا مالک
ہے۔ اﷲ کے حقوق میں دوسروں کو شریک کرناشرک ہے ۔صفات الہی اور حقوق اﷲ میں
دوسروں کو شریک کرنا شرک ہے۔ اﷲ کے سوا کسی اور سے دُعا مانگنا اور اﷲ کے
سوادوسرں کو مدد کے لیے پکارنا شرک ہے۔ کسی کو اﷲ کی اولاد قرار دینا شرک
ہے ۔اﷲ کے سوا کسی کو ولی بنانا بھی شرک ہے۔شرک محض جھوٹ اور ظلم عظیم
ہے۔شرک اﷲ کی ناشکری ہے۔اﷲ شرک سے پاک ہے۔ مشرکین کو دین حق کا قیام
ناگوارگزرتاہے۔ مشرکین بدترین خلائق ہیں۔۔شرک انسان کی فطرت کے خلاف ہے اﷲ
نے انسان کو سلیم فطرت پر پیدا کیا ہے لہذا شرک سے بچنا چاہیے۔ شرک کے حق
میں کوئی دلیل و سند نہیں یہ صرف جہالت کی پیدا وار ہے۔شرک بہت بڑا جھوٹ
ہے۔ساری کائنات توحید کی گواہی دے رہی ہے کہ اﷲ حق ہے پھر یہ شرک کہاں سے
آگیا۔شرک کی بنیاد اوہام پر ہے بے تکی باتوں اور لایعنی باتوں پر شرک کی
بنیاد ہے۔ اﷲ چائے توسب کچھ بخش دے مگر شرک کی اﷲ کے ہاں بخشش نہیں
ہے۔۔قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح ؑ میں جب شرک شروع ہواتو
اُس نے مصنوعی معبود بنا لیے تھے اور انہیں پوجنا شروع کر دیا۔ بعد میں اہل
عرب نے بھی ان ہی معبودوں کو پُوجنا شروع کردیاتھا اور آغاز اسلام کے وقت
عرب میں جگہ جگہ اُن کے مندر بنے ہوئے تھے اُن معبودوں کے نام یہ ہیں ۔وَدّ
بنی کلب کا معبود تھا۔اس کا استھان دومۃالجندل میں بنا رکھا تھا۔بت ایک
نہایت عظیم الجثہ مرد کی شکل کا بناہوا تھا۔سُواع قبیلہ ہذیل کی دیو یٰ تھی
اس کا بت عورت کی شکل کا بنایا گیا تھا ۔رُہات کے مقام پر اس کا مندر واقع
تھا۔ ےَغُوث قبیلہ طے کی شاخ انعُم اور قبیلہ مذحج کی بعض شاخوں کا معبود
تھا انہوں نے یمن اور حجاز کے درمیان ضرش کے مقام پر اس کا بت نصب کر رکھا
تھا اس کی شکل شیر کی تھی ۔ یعُوق قبیلہ خیون کا معبود تھا۔یہ گھوڑے کی شکل
کا تھا۔نَسرہ قبیلہ ذوا لکلاع کا معبود تھا ۔ بلغع کے مقام پر اس کا بت نصب
تھا اِس کی شکل گِدھ جیسی تھی۔ سِعریٰ عرب کے معبودوں کا نام تھا۔ عزّیٰ
عزت سے ہے اور اس کے معنی عزّت والی کے ہیں یہ قریش کی خاص دیوی تھی ۔اس کا
اُستھان مکّہ اور طائف کے درمیان وادی نخِلہ میں حُراض کے مقام پر واقع تھا۔
مناۃ کا اُستھان مکّہ اور مدینہ کے درمیان بحرِاحمر کے کنارے قُدَید کے
مقام پر تھا ۔خاص طور پر خُزَاعہ،اُوس اور خزرَ کے لوگ اس کے بہت معتقد تھے۔
لات کا اُستھان طائف میں تھا بنی ثقیف اس کے معتقد تھے۔ان دیویوں کو کافر
وں نے اﷲ کی بیٹیاں قرار دے دیا تھااور یہ بیہودہ عقیدہ ایجاد کر لیا
تھا۔مکہ، طائف،مدینہ اورنواحی حجاز کے سب لوگ سب سے زیادہ پوجتے تھے۔
ہندوؤں نے بھی دولت کی دیوی بنائی ہوئی ہے۔کیا ہندوؤں مشرکوں اوراورزمانہ
اسلام سے پہلے کے عرب کے مشرکوں میں کوئی فرق ہے۔ مسند احمد میں رفاعہ جہنی
کی جو روایت آئی ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں ۔ جو بندہ صدقِ دِل سے اس بات کی
گواہی دے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس بات کی گواہی دے میں اﷲ
کا رسول ؐ ہوں پھرسیدھے راستے پر چلے تو وہ جنتّ میں داخل ہو گا ۔ترمذی کی
ایک اور راویت ہے ۔جو بندہ کلمہ توحید پڑھے اور پھر گناہ کبیرہ سے دور رہے
تو وہ جنت میں جائے گا۔ یہ رواتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں محض زبان سے اﷲ کے
سوا کوئی معبود نہیں کہہ دینے سے جنّت کی ضمانت نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ
رسول ؐاﷲ کی بتائی ہوئی سیدھی راہ پر چلنا اور گنا کبیرہ کے قریب نہ پھٹکنا
دخول جنّت کے لیے ضروری ہے۔ہم نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتوں کی تاریخ
ان کوپوجنے اور ان سے نجات کی بات نکل کی۔ اب نہ جانے عرب کی ایک ریاست میں
پہلی دفعہ بتوں سے بھرا مندر بنانے کی اجازت کیوں دی گئی۔ کیا خدا ناخاستہ
عرب بت پرست ہو گئے ہیں۔کیا عربوں کو بھارت کے ہندوؤں یا بت پرست ملک سے
کوئی مالی امداد چاہیے۔ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ نہ بت پرست
ہیں نہ بھارت کی مالی امداد چاہتے ہیں۔ان کے ہاں تو بھارتی محنت مزدروی
کرنے کے لیے آتے ہیں۔ابو ذہبی کو بھارت سے کوئی مالی امداد نہیں چاہیے۔یہ
صرف خوف کی وجہ ہے۔یہ بات نظر آتی ہے کہ بھارت نے امریکا کے ذریعے ایران کی
بڑھتی ہوئی جارحیت سے ڈرایا ہو گا۔اور کہا ہو گا کہ دیکھوں یمن کی لڑائی
میں پاکستان نے سعودی کی کوئی مدد کی۔تمھاری حفاظت بھارت کرے گا۔ ان حالت
کا پاکستان کو بغور جائزہ لینا چاہیے۔پاکستان جو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی
قوت ہے۔اس کو عربوں کو یقین دھانی کرانی چاہیے کہ ان کی طرف کوئی بھی انگلی
اُٹھا کر دیکھے گا تو پاکستان ان کی حفاظت کرے گا۔ چائے وہ ایرن کی جارحیت
ہی کیوں نہ ہو۔ویسے بھی اسلام کا اصول ہے کہ مسلمانوں میں لڑئی کی شکل میں
پہلے دونوں میں صلح کرائی جائے۔ اگر دونوں فریق صلح پر راضی نہ ہوں تو
زیادتی کرنے والے کے خلاف مظلوم کی جنگ سے مدد کی جائے تاکہ مسلمانوں میں
امن قائم ہو جائے۔ دوسری طرف عربوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہے کہ بت
پرست ہندوؤں کے عزاہم کیا ہیں۔ وہ تو جہاں تک کہتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں
ہمارے بت رکھے ہوئے تھے۔جنہیں مسلمانوں کے آخری پیغمبرؐ نے توڑا تھا ۔ہم
دوبارہ عر ب پر قبضہ کر کے خانہ کعبہ میں اپنے بت رکھیں گے۔کیا ابو ذہبی
میں پہلا مندر بنا کر اس کی شروعات تو نہیں کر دیں ہیں؟ اس لیے عرب کے
مسلمانوں ہوشیار ہو جاؤ۔مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں تقویٰ کی بنیاد پر
اکٹھے ہونے کی کوشش کریں گے۔ مسلمان ملکوں کی اپنی اقوام متحدہ بنائیں۔ ایک
دوسرے کے مسائل خود حل کریں۔ دنیا سے برابری کے تحت تعلوقات قائم کریں۔
بقول مصور پاکستان اورشاعر اسلام حضرت علامہ شیخ محمد اقبالؒ:۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر۔ |