سائباں - دوسری قسط

میں۔ چاہتی ہوں کہ مرے ریڈرز اس منی ناول کو پڑھ کر اپنی۔ راۓ کمینٹ باکس میں۔ ضرور ڈین

" میں کچھ نہیں جانتا مجھے بقایا دو لاکھ روپے دو یا پھر گھر کی فائل دے دو ۔۔۔وحید کے ساتھ میری چھ مہینے کی ڈیل تھی کہ وہ چھ مہینے میں ادا کردے گا مگر اب سال ہونے کو آیا ھے ۔۔تمہاری عدت بھی ابھی پوری ہوگئی ھے۔ ۔۔اب تم مجھے پیسے دو یا گھر کی فائل میرے حوالے کردو ۔۔""
رشید بیگ سے وحید نے اچھے وقتوں میں گھر کا سودا کیا تھا گھر وحید نے خرید لیا تھا ۔۔مگر صرف دو لاکھ روپے اس غریب کے پاس نہ تھے جسکا اسنے وعدہ کیا تھا کہ جلد ھی ادا کردےگا ۔۔اسے کیا معلوم تھا وہ حنا اور بیٹیوں کو۔دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ابدی نیند سونے جارہا ھے ۔۔رشید نے کئی دنوں سے فون پر دھمکانا شروع کردیا تھا کہ وہ گھر پر قبضہ کرلےگا مگر آج وہ کسی ناگہانی آفت کی طرح نازل ہوگیا تھا ۔۔آج کا دن بہت خاص تھا حریم کی تائی جان اسکا رشتہ لیکر آرہی تھی ۔۔اور حنا اپنی بیٹیوں کے ساتھ انہی تیاریوں میں۔ مگن تھی کہ اچانک دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی دل اس دستک پر ڈوب رہا تھا ۔۔منال نے دروازہ کھولا تو رشید بغیر اجازت کے اندر داخل ہو چکا تھا اور بغیر کسی تمہید کے حنا کے سامنے دو لاکھ روپے کے لئے دھاڑنے لگا تھا ۔۔
""مگر رشید...صرف دو لاکھ روپے کے لئے تم مرے گھر پر قبضہ نہیں کر سکتے ۔۔اور فائل ہم تمہیں کیوں دیں تم ہمیں کچھ مہینوں کی موحلت دے دو ۔۔میں جلد از جلد تمہارے پیسے چکا دونگی ۔۔"" حنا کی آنکھیں پر اعتماد تھی لہجہ مضبوط چاہے دل میں وہ ہزار خدشات کا توفاں سمبھال رہی تھی ۔۔اسے مضبوط رہنا تھا اپنی بیٹیوں کے لئے ۔۔
دلِ بے خبر ، ذرا حوصلہ
نہیں مُستقِل کوئی مَرحلہ

کوئی ایسا گھر بھی ھے شہر میں
جہاں ھر مکین ھو مطمئن
کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ھے
جسے خوفِ آمدِ شب نہیں
یہ جو گردبادِ زمان ھے
یہ ازل سے ھے کوئی اب نہیں

دلِ بے خبر ، ذرا حوصلہ
نہیں مُستقِل کوئی مَرحلہ

یہ جو خار ھیں تیرے پاؤں میں
یہ جو زخم ھیں تیرے ھاتھ میں
یہ جو خواب پھرتے ھیں دَر بہ دَر
یہ جو بات اُلجھی ھے بات میں

یہ جو لوگ بیٹھے ھیں جا بجا
کسی اَن بَنے سے دیار میں
سبھی ایک جیسے ھیں سر گراں
غَمِ زندگی کے فشار میں

یہ سراب ، یونہی سدا سے ھیں
اِسی ریگزارِ حیات میں
یہ جو رات ھے تیرے چار سُو
نہیں صرف تیری ھی گھات میں

دلِ بے خبر ، ذرا حوصلہ
نہیں مُستقِل کوئی مَرحلہ

تیرے سامنے وہ کتاب ھے
جو بِکھر گئی ھے وَرَق وَرَق
ھمیں اپنے حصّے کے وقت میں
اِسے جَوڑنا ھے سَبق سَبق

ھیں عبارتیں ذرا مُختلف
مگر ایک اصلِ سوال ھے
جو سمجھ سکو ، تو یہ زندگی
کسی ھفت خواں کی مثال ھے

دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ
نہیں مُستقِل کوئی مَرحلہ

کیا عجب ، کہ کل کو یقیں بنے
یہ جو مُضطرب سا خیال ھے
کسی روشنی میں ھو مُنقَلِب
کسی سرخوشی کا نَقِیب ھو

یہ جو شب نُما سی ھے بے دِلی
یہ جو زرد رُو سا مَلال ھے۔

دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ
دِلِ بے خبر ، ذرا حوصلہ

""میں کچھ نہیں سننا چاہتا ۔۔میں نے جو کہ دیا وہ کہہ دیا اب تمہاری مرضی ۔۔ایک ہفتہ دیتا ہوں اگر پیسے ادا نہیں کئے تو اپنا انتظام کہیں اور کر لینا ۔۔ورنہ بچیاں اور سامان باہر پھینک دینگے میرے آدمی ۔۔"" رشید اس وقت کسی فلم کا غنڈہ معلوم ہورہا تھا ۔۔گو کہ وہ ایک اچھا انسان رہا ھے ۔۔کرائے کے معاملے میں بھی کبھی اسنے جلد بازی یا زور دھمکی سے کام۔ نہیں لیا تھا مگر اب وحید ھی نہیں رہا تھا جس سے رشید کے مراسم تھے۔ ۔جب سائبان ھی نہیں تھا تو حنا کے پیروں سے زمین کیوں نا کھینچی جاتی ۔۔رشید دھمکی دے کر دروازے کو پٹختا باہر جا چکا تھا ۔ حریم اور مشال یہ باتیں سن چکی تھی ۔۔حنا کو محسوس ہورہا تھا کہ اس بھری دنیا میں وہ اور اسکی بیٹیاں اکیلی رہ گئی ہیں مگر جو پوری دنیا کا بنانے والا پیدا کرنے والا ۔۔جو پوری کائنات کا سائبان ھے وہ بھلا کسی کو اکیلا چھوڑ سکتا ھے ۔۔جسنے انسان کی چھت زمین اور رزق اسکے پیدا کرنے سے پہلے لکھ لیا ہوتا ھے۔ ۔جسکو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبّت ھے ۔۔مشال اب کمرے میں سجدے میں جھکی نظر آئی ۔۔حریم آنکھوں میں اداسی آنسو اور ڈولتے دل کے ساتھ کچن کے کاموں میں خود کو مصروف رکھتی رہی۔ ۔حنا نے اپنی بے ترتیب دھڑکن کو سمبھالتے ہوئے انشال کو آواز لگائی ۔۔
"انشاء ۔۔۔پانی پلادو بیٹا "
وو صحن میں ھی تخت پر بیٹھ گئی اپنے پیروں پر سر ٹکائے ۔۔ اس سوچ میں کہ کہاں سے لاۓ گی وہ دو لاکھ روپے ۔"ایک ہفتے کا وقت دیتا ہوں " یہ جملہ اسے سکون نہیں لینے دے رہا تھا ۔۔انشال پانی لیکر آئی ساتھ ھی مشال بھی صحن میں۔ آگئی ۔۔
ممما ہم نے رشید انکل کی ساری باتیں سن لی ہیں اور سمجھ لی ہیں آپ فکر نہ کریں اللّه بہت بڑا ھے ۔۔سب ٹھیک ہوجاۓگا ۔۔"" وہ مان کو اپنے ساتھ لگائے تسلی دے رہی تھی ۔۔
مما اب ہم کہاں جائیں گے ۔۔""انشال بے دھیانی میں سوال کر گئی ۔۔
ہم کہیں نہیں جارہے ۔۔نہ جایں گے ۔۔۔سنا تم نے ۔۔یہ گھر میں نے اور تمہارے بابا نے بہت محنت سے خریدا ھے اور اسے بھی پہلے میں حریم کو۔صرف ایک سال کا لیکر نکلی تھی سسرال سے ۔۔اس گھر میں میری یادیں میرے بچوں کا بچپن میرے شوہر کی محبّت ھے میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگی ۔""۔زارو قطار آنسو بہےجا رہے تھے ۔۔مشال کی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھی اور اپنے اس سوال پر انشال بھی نادم ہوئی ۔۔ گھڑی دن کے 3 بجا رہی تھی ۔۔5 بجے مہمانوں نےآنا تھا ۔۔حریم نے قریب آکر حنا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لےلیا ۔۔
""مما ۔۔اگر آپ اسطرح کرینگی تو آپکی طبیعت بھی خراب ہوجایگی ۔۔اور پھر آپکو کچھ ہوا تو ہمارا کون ھے ۔۔ہماری چھت ہمارے بابا تو ویسے بھی ہمارے ساتھ نہیں اب کیا آپ ہم ہماری زمین ہماری جنّت بھی چھین لینگی ۔۔؟؟ ""
WAm cfحریم کا پرنم لہجہ بہت کچھ کہ رہا تھا ۔۔جسے مشال۔ سمجھ گئی تھی ۔۔حنا کی طبیعت کافی دنووں سے خراب رہ رہی تھی اور حنا کسی طور ڈاکٹر کی طرف جانے سے انکاری تھی ۔۔کیوں کہ اپنی حالات کا اندازہ حنا کو۔تھا ۔۔ڈاکٹر ٹیسٹ اور دوائیوں میں الجھا دیتے ہیں بس اس لئے وو دو لینے نہیں جاتی تھی ۔۔حنا کی کھانسی روز بروز بڑھ رہی تھی ۔۔
حریم۔ کی بات سن۔ کر حنا نے اپنی بیٹیوں کو گلے سے لگا لیا ۔۔
چلئے مما کھانا کھا لیتے ہیں مہمان آجائیں گے پھر ""مشال نے ماحول کا رخ بدلنا چاہا

""گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ھے
پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے ""۔۔

کھانے کے بعد حریم اپنا سب سے اچھا سوٹ پہن کر ہلکی پھلکی تیاری میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔صحن کے تخت پر نئی چادر بچھائی گئی ۔۔کرسیاں لگائی ۔گئی میز سجائی گئی ۔۔اور بلآخر مہمان بھی آگئے ۔۔۔
تائی جان کے ساتھ فروا ۔۔فضہ اور سائب بھی تھے ۔۔سائب تایا جان کا بڑا بیٹا جب کے فروا سائب کے بعد اور پھر فضہ سبسے چھوٹی بیٹی ۔۔سائب ابھی ایم بی اے کر رہا تھا ۔۔جبکے فروا مشال کے ساتھ میڈیا سائنس کی سٹوڈنٹ تھی۔ فضہ انٹر کے بعد بی بی اے کرنے کی خواہش رکھتی تھی ۔۔
تایاجان خود بھی ایک فیکٹری کے مالک تھے ۔۔اور مختلف علاقوں میں انکے گھر جو کرایا پر دئے ہوئے تھے ۔۔انکا اپنا گھر شہر کے ایک۔ پوش علاقے میں تھا ۔تائی جان حنا کا صاف ستھرا سجا سجایا گھر دیکھ کر بہت متاثر ہوئی ۔۔حریم کے لئے کوئی انکار کر ھی نہیں سکتا تھا وہ تھی ھی ایسی ۔۔اسکی خاموش طبیعت اسکی خوبصورتی کو اسطرح مکمل کرتی تھی جیسے کسی شاعر کی غزل ہو ..
۔۔خود سائب بیحد خوش اخلاق اور پر کشش شخص تھا ۔۔۔وحید اور تایا کی فیملی کا بہت کم ایک دسرے سے ملنا جلنا رہا تھا ۔۔کبھی کبھی کسی شادی یا عید تہوار میں کچھ گھنٹے ساتھ گزر جاتے ۔۔سٹیٹس کا فرق کبھی حنا کو۔ یہ اجازت نہ دیتا کہ اسکی بیٹیاں کسی بھی طرح غیر مطمئین ہوں ۔
واہ ماشاء اللّه حنا۔ ۔۔حریم تو پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوگئی ھے ۔۔اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارا کیا ارادہ ھے میں نے تو اپنا ارادہ تمہیں فون پر بتا دیا تھا ۔۔حریم بلآخر وہاب کی بھتیجی ھے ۔۔اپنا خون ھے اور وحید مرحوم کی اولاد ھے ۔تمہاری تربیت کے زیر اثر رہی ھے اور تمہارا گھر تمہاری خوش ذوق طبیعت کا ثبوت پیش کر رہا ھے ۔۔۔" اسما بیگم کی نگاہیں گھر کے اندر کی ہر چیز کو رکھنے کے قرینے سے متاثر ہوئی تھی ۔انکی مسکراہٹ سے اندازہ ہورہا تھا کہ انھیں حریم کا ماحول بھی بہت پسند آیا تھا جو حنا کی بدولت تھا ۔
"اللّه کا کرم ھے سارا بھابی جان ورنہ ہم انسانوں میں اتنی طاقت کہان کہ کسی کو نکھار سکیں ۔۔سائب بھی ماشاء اللّه وہاب بھائی کی شبیہہ ھے ۔۔اور جس طرح وہاب بھائی نے کبھی آپکو کوئی تکلیف نہیں ہونے دی ۔۔امید ھے حریم کو بھی سائب کی طرف سے یہی ساتھ ملیگا باقی ہماری طرف سے انکار کی کیا وجہہ ہوسکتی ھے ۔۔حریم اپنوں میں بیاھی جاۓ گی تو مجھے بھی تسلی رہیگی ۔۔""
چاۓ کے گھونٹ بھرتے ہوئے حنا حریم کو محبّت سے دیکھ رہی تھی ۔جب کہ سائب کی نگاہیں نہیں حریم کی طرف سے ہٹنے سے انکاری تھی ۔۔جھکی ہوئی نگاہیں لئے دل کی بے ترتیب دھڑکن۔۔بے حد خدشات ۔۔کچھ آگے کی زندگی سے ڈرتی ہوئی حریم اسی سوچ میں تھی کہ کیا وہ حنا کی طرح ایک گھر شوہر اور اولاد کی ذمہ داریاں ادا کر پاۓ گی ۔۔۔
فروا اور فضہ کو مشال چھت پر لے گئی تھی ۔۔کیوں کہ اسکے مطابق رشتہ حریم اور سائب کا ہورہا ھے ۔۔بارے لوگوں میں ہم چھوٹے بچوں کا کیا کام ھے ۔۔انشال سب کے لئے میکرونی اور کافی کے ٹرے چھت پر ھی لے گئی ۔۔منال بھی نمکو ۔سینڈوچ اور کولڈ ڈرنک لیکر پوھنچی ۔جیسے ان لوگوں کو پہلی بار ایک دسرے کو جاننے کا موقع ملا تھا ۔۔فضہ اور فروا کو بہت مزہ آرہا تھا ۔۔چھت پر ایک طرف جھولا رکھا ہوا تھا ۔۔زمین پر چٹائی بچھا کر گاؤ تکیے اور فلور کشن رکھ دئے تھے ۔۔چھت کے اطراف کی۔ دیواروں میں مشال نے پودے سجا رکھے تھے ۔۔۔چھت پر صرف ایک کمرہ بنایا گیا تھا جو فلحال تو ٹن کی چھت کے ساتھ کچے سے حلیہ میں تھا ۔۔
"مشال ۔۔تم میڈیا سائنس پڑھ کر کیا کروگی " فروا نے اپنے موبائل میں نظریں جمائے ہوئے سینڈوچ کا پیس اٹھا کر کہا تھا ۔۔
" میں۔ ۔میڈیا جوائن کروگی ۔۔" مشال اس وقت آسمان پر آزادی۔سے ارتے پرندوں کو تک رہی تھی ۔
"میڈیا ؟؟ لائک وہاٹ ؟؟ ایکٹر بنو گی یا ماڈل " فضہ نے قدرے حیرانگی سے سوال کیا ۔
"پیاری کزن کیا آپکو معلوم نہیں کہ ایکٹر اور ماڈل بننے ک لئے میڈیا سائنس میں ماسٹرز ضروری نہیں ۔۔جسٹ لوک اینڈ کونفیڈینس چاہیے ۔۔میں صحافت کے شعبے کی بات کر رہی ہوں ۔۔" مشال نے بیحد اطمینان سے فضہ کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنے مخصوص شیریں لہجے میں جواب دیا ۔۔
"ناٹ بیڈ ۔۔ویسے بھی تمہارے کالمز کبھی کبھی نظر سے گزرتے ہیں ۔تم۔ بہت اچھا لکھتی ہو ۔۔" پتہ ھی نہیں چلا کب سائب چھت پر آگیا تھا ۔۔حریم بھی پیچھے تھی ۔۔
"میرے کالمز ؟؟ آپ نے کیسے پڑھے ؟؟ اس بارے میں تو ہمارے علاوہ کوئی نہیں جانتا "" بے یقینی تھی یا حیرانگی مشال دنگ تھی ۔۔
ہاں۔۔۔بھئ آپکو کیا لگا کہ ہم آپکی خبر نہیں رکھتے ۔ہمیں تو یہ بھی پتہ ھے انشال بہت اچھاگاتی ہیں اور مستقبل قریب میں انکا ارادہ ریڈیو کا ھے کیوں صحیح کہا نا ۔۔انشاء ؟؟۔ سائب کے لہجے میں شرارت اور محبّت چھلک رہی تھی نگاہیں حریم کی طرف کئے وہ مشال اور انشال سے بیک وقت مخاطب تھا ۔۔
""اااااووووووووہ ہ ہ اب سمجھ آئی مجھے ۔۔مخبری کی جارہی ھے ہماری اس گھر سے ۔۔وہ بھی حریم آپی کر رہی ہیں ۔
اوہ مطلب یہ لوو پلس ارینج میرج ہوگی"" انشال نے ایک ھی لمحے میں سائب کی دل کی بات کو جان کر ایک ھی سانس میں بیان کر دیا تھا ۔ اور مشال کی اس بات پر حریم کے چہرے پر بکھرتے قوس قزاح سے رنگ جو خود ھی اسکی خاموش محبّت کا ثبوت تھے دیکھ لئے تھے ۔۔سائب کی صورت میں حریم نے سائباں کو پا لیا تھا۔ ۔
((((Continue))))

فائزہ شیخ
About the Author: فائزہ شیخ Read More Articles by فائزہ شیخ: 9 Articles with 6756 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.