آفندی نے گھور کے انعم کو دیکھا،،رانا بڑی مشکل سے خود کو
سنجیدہ کرنے کی
کوشش کررہا تھا۔مگر اس کو خوف تھا آفندی کہیں اس کے چہرے کو نہ پڑھ لے
آفندی نے خود کو ان دونوں کے بیچ میں حائل کر دیا۔پرسکون لہجےمیں بولا:
آپ دونوں کی فضولیات ختم ہو چکی ہوں تو ہم کام کی بات کرلیں،،،؟؟؟انعم نے
جھٹ سے کہا،،جی بالکل،،ووی آر ریڈی ٹو ڈائے،،،!!
آفندی نے سوالیہ انداز میں رانا کی طرف دیکھا،رانا نے اک لمبی سانس
لی،،،میجر
صاحب،،! انعم یہ برقعہ نہیں پہن سکتی۔
آفندی نے رانا کو حیرت سے دیکھا،،،رانا از اٹ یور پرابلم،،،؟
رانا کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہو گیا،،جھٹ سے بولا،،ناٹ ایٹ آل
سر،،!!آفندی
نے ‘‘گڈ‘‘ کہا،اور اک بڑا سا نقشہ ٹیبل پر پھیلا دیا۔
اک سپاٹ پر اسٹک رکھ کر کہا،،ووی آر ہیئر ناؤ،،، اس کے بعد اس کی اسٹک ذرا
اونچے مقام کو چھو کر رک گئی،،،اینڈ ووی ہیو ٹو بی دیئر،،،ہمارا گیٹ اپ
چینج ہو
گا،،ہمیں بالکل قبائلی پٹھان نظر آنا ہے۔پشتو بولنی ہے،،سیم ڈریس وِد
ڈیفرینٹ
لُکس،،!
اٹس ایزی ٹو گیٹ اوور گولز،،نیم چینج،،مقامی کوڈ یوز کرنے،،کس طرح جانور کو
پکڑنا
کنٹرول کرنا،،سب کچھ اچھی طرح پریکٹس کرلینا۔
ایسا نہ ہو کہ ہم لڑنے سے پہلےہی ایکسپوز ہو جائیں،،،ہم نے صبح تین بجے اس
جگہ کو چھوڑ دینا ہے ہمارے پاس بہت ٹائم ہے۔
گھر کا چوکیدار سیدھا اندر آگیا۔آفندی نے اسے ،،،ان دونوں کو سب کچھ
سیکھانے
کے لیے کہا۔کہاں سے آئے ہو،،کیا کرتےہو،،سب کچھ۔
آفندی کمرے سے باہر جانے لگا،اک دم سے رک کے بولااک کی بار وہی میزبان اسکا
مخاطب تھا،‘‘ جو نالائق اسٹوڈنٹ ہو میرے حوالے کر دینا‘‘
انعم نے آفندی کا جملہ سن کر ناک سکوڑا،دھیمے لہجے میں بولی ‘‘کھڑوس کہیں
کا‘‘
میزبان نےحیرت سے انعم کو دیکھا، رانا سمجھ گیا،،،کہ میزبان کو انعم کی بات
پسند
نہیں آئی۔جھٹ سے بولا،آپ کہہ سکتی ہو ڈی جی صاحب کی بیٹی بھی ہو،،،!! ڈاکٹر
سرجن بھی ہو،،ہماری آفیسر بھی ہو۔
یہ سن کر میزبان نے جھٹ سے انعم کو سیلیوٹ مارا،،،اور ‘‘ویلکم میم‘‘ اس کے
منہ سے
نکل گیا۔
رانا کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا،،انعم نے جھٹ سےدروازے کی طرف دیکھا کہیں
آفندی یہ
ساری کارستانی نہ سن لے۔انعم نے رانا کی طرف دیکھا۔
رانا خوف زدہ ہونے کی ایکٹنگ کرتےہوئے بولا،،مرنا تو ہے ہی اک دن ،،بندہ
پہاڑوں میں
مرے یا دریا میں،،کیا فرق پڑتا ہے،،،!!
انعم مسکرا کر بولی،،،ہائے میرا ویر ،،، میں صدقے،،،!!! ،،،(جاری)
|