وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے چندروزپہلے
ضلعی ترقیاتی بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ضلع اٹک میں ساڑھے
پانچ سو کے قریب انقلابی ترقیاتی پروگرام جاری ہیں جن میں محکمہ صوبائی
بلڈنگز کے تحت 44، سڑکوں کی تعمیر و مرمت کی 38، پبلک ہیلتھ کی 30،لوکل
گورنمنٹ کی 7اور وزیر اعظم ترقیاتی پروگرام کی 467کی سکیموں پر کام جاری ہے
جن کی تکمیل سے ضلع اٹک میں ترقیاتی انقلاب آئے گا۔ترقیاتی انقلاب کے بارے
میں مزید بتاتے ہوئے انھوں نے اٹک میں میڈیکل کالج اور کینسر ہسپتال کی
تعمیر کاعندیہ بھی دیا ہے جس کے لیے بہ قول ان کے کوششیں جاری ہیں ۔
ترقیاتی پروگرام بارے وفاقی وزیر صاحب کے بیان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا
ہے کیوں کہ شہر میں مختلف نوعیت کے پراجیکٹس پر کام جاری ہے جن میں سڑکوں
کی تعمیر ومرمت کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر پارکنگ ایریا کی تعمیر ، گلیوں کی
مرمت اور جگہ جگہ لگے کوڑا کرکٹ کے ڈھیرکے سد باب کے عملی اقدامات کے ساتھ
ساتھ دیہی علاقوں میں گیس و بجلی کی فراہمی ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان
لوگوں کی بات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے جن کے مطابق اٹک کو پچھلے چار
سال سے گھاس تک نہیں ڈالی گئی اور اب جب کہ الیکشن قریب ہیں تو ایک دم
مختلف نوعیت کے پراجیکٹس پر کام شروع کر کے الیکشن کی تیاری شروع کر دی گئی
ہے اور الیکشن میں کامیابی کے حصول کے لیے مختلف نوعیت کے وعدوں او
راعلانوں سے عوام کو بہلایا جارہا ہے جن میں میڈیکل کالج اور کینسر ہسپتال
کی تعمیر کا وعدہ سرفہرست ہے ۔
خیر ان افراد کی بات میں دم تب ہے کہ شیخ آفتاب احمد صاحب نے اٹک کے لیے
میڈیکل کالج کا اعلان تو بہت عرصہ پہلے کا کیا ہوا ہے مگر ابھی تک یہ وعدہ
وفا نہ ہوا ہاں البتہ اب اس وعدہ کے ساتھ کینسر ہسپتال کا وعدہ بھی منسلک
ہوگیا ہے۔ جب کہ 2013کے الیکشن سے پہلے جلسوں میں بارانی یونیورسٹی کے لیے
کیا گیا وعدہ ابھی تک وفا نہ ہوا گو کہ بارانی یونیورسٹی کی عمارت چار سال
اور آٹھ ماہ میں تقریباً مکمل ہوگئی ہے مگر تعمیر کی گئی عمارت میں کلاسز
کا آغاز کب ہوگا یہ ابھی تک کسی کو پتا نہیں ہے، ہوسکتا ہے موصوف اس بار
الیکشن کے جلسوں میں میڈیکل کالج اور کینسر ہسپتال کی تعمیر کے ساتھ ساتھ
بارانی یونیورسٹی کی نئی عمارت میں کلاسزکے اجراء کا بھی وعدہ کریں ۔
یہ تو وہ وعدہ تھا جو ہمارے محترم وفاقی وزیر صاحب نے 2013کے الیکشن سے
پہلے جلسوں میں کیا تھا مگر وعدوں کی ایک لمبی قطار ان کی حکومت نے بھی
الیکشن سے پہلے کی تھی جو ابھی تک وفا نہ ہوئے ۔ بھولنے والی قوم کو یہ ایک
وعدہ یا دکروانا تھا باقی اس قوم کا فرد ہونے کی وجہ سے میں بھی بھول گیا
کہ حکومت نے 2013کے الیکشن سے پہلے کون کون سے وعدے کیے تھے ۔۔۔خیر مٹی پاؤ
ملک میں جاری ترقیاتی کاموں سے یاد آیا کہ ملک پرغیر ملکی قرضوں کا بوجھ
مسلسل بڑھنے لگا ہے موجودہ حکومت نے رواں مالی سال کے گزشتہ چھے ماہ میں
4.10ارب ڈالر غیر ملکی قرضہ لیا ہے جب کہ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے
آخر تک 4.22ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ادا کرنے ہیں ۔ اقتصادی امور ڈویژن
کے مطابق وزارت خزانہ نے دسمبر 17میں 97کروڑ نیا قرضہ لیا ہے ۔ اس دوران
ایشیائی ترقیاتی بینک سے 47کروڑ ڈالر اور چین سے 36کروڑ ڈالر قرضہ لیا تھا
جب کہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے قلیل المدت بنیادوں پر دو کروڑ 12لاکھ ڈالر
قرضہ حاصل کیا گیا۔
یہ تو خیر پاکستانی عوام کے لیے قرضوں کے بارے میں ہلکی سی جھلک ہے ورنہ
حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ کیا ہونا ہے ۔ کشکول توڑنے
کا وعدہ موجودہ حکومت نے بھی کیا تھا مگر باقی وعدوں کی طرح وہ بھی شرمندہ
تعبیر نہ ہوسکا تو کشکول توڑنا تو دودھ کی نہر کھودنے کے مترادف ہے مگر
چلیں اس وقت عوام تو خوش ہوگئی تھی کہ ہمارے تجربہ کار افراد اب کی باری
میں انقلاب لے ہی آئی گی مگر حالات جوں کہ توں تو دور کی بات اور خراب
ہوگئے ہیں ۔ یہاں تک معاملات رہتے تو کچھ بہتر تھا حالات نئی حکومت کے لیے
بھی کچھ سازگار نہیں ہیں چاہے وہ تجربہ کار ٹیم آئے یا کوئی اور۔۔۔ایک
رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام پر جون کے بعد آنے والی نئی وفاقی
حکومت کو آئندہ پانچ سال میں مختلف بین الاقوامی قرض دینے والے اداروں کو
27ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کرنی ہیں ۔ وزارت اقتصادی امور ڈویژن کے
سرکاری دستاویز کے مطابق 27ارب ڈالر سے زائد کے قرض میں سے پیرس کلب کو
79.4ارب ڈالر ، نان پیرس کلب کو 68.3ارب ڈالر، بین الاقوامی مالیاتی اداروں
کو56.9ارب ڈالر، کمرشل بینکوں کو 93.4ارب ڈالر اور بین الاقوامی مارکیٹ سے
خریدے گئے بانڈز کی واپسی کی مد میں 11.4ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں ۔
سرکاری دستاویز کے مطابق نئی وفاقی حکومت کو مالی سال 2018-19میں 41.6ارب
ڈالر، مالی سال 2019-20میں 94.6ارب ڈالر ، مالی سال 2020-21میں 39.4ارب
ڈالر ، مالیاتی سال 2021-22میں 18.5ارب ڈالر اور مالی سال 2022-23میں
20.4ارب ڈالر کی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو ادائیگیاں کرنی ہوں گی ۔
اقتصادی امور ڈویژن کے ذرائع نے مزید بتایا کہ بین الاقوامی اداروں کو
ادائیگیوں کے علاوہ وفاقی حکومت اور پرائیویٹ اداروں نے سی پیک کے لیے دیے
جانے والے چینی قرضوں کی بھی ادائیگیاں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے غیر ملکی
زرمبادلہ سے کی جائے گی کیوں کہ پرائیویٹ اداروں کو چینی قرض کے لیے گارنٹی
حکومت پاکستان نے دی ہوئی ہے ۔ اقتصادی امور ڈویژن کے ذرائع نے میڈیا کو
بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے رواں مالی سال جون تک بین
الاقوامی مالیاتی اداروں کو 22.4ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں اور موجودہ
حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو ادائیگیوں کے لیے مشکلات کا سامنا
ہے جس کے لیے وزارت خزانہ نے چین ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت
دیگر دوست ممالک سے مالی امداد کے لیے درخواست کی ہوئی ہے ۔
تجربہ کار افراد کشکول توڑتے توڑتے کشکول کو اتنا توڑا ہے کہ ٹوٹے کشکول کا
ہر حصہ ایک نیا کشکول بن گیا ہے جس سے ملک نہ صرف لاچار ہو چکا ہے بلکہ ان
قرضوں کے بنا چلنا مشکل ہورہا ہے لیکن چلیں عوام نئی سڑکیں ، نئے پل ، نئی
گلیاں ، نئے پارک وغیرہ بنتا دیکھ کر خوش ہورہی ہے کہ ہمارا ملک ترقی کی
راہوں پر گامزن ہے۔
|