آخر اجتماعات کیوں اور کیسے کامیاب ہوجاتے ہیں؟ایک فکری سوال

دین کی دعوت دینا انبیائے کرام کی سنّت کریمہ ہے ۔نبی آخرالزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد اس ذمہ داری کا باراُمت محمدیہ کے کاندھوں پر ہے ۔صحابہ کرام ،تابعین اورتبع تابعین نے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔اسلام کی ان مقدس اور برگزیدہ شخصیات کے بعد اسلاف کرام اور علماے عظام دعوت دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔خانقاہی نظام نے ہندوستان میں اسلام کی ترویج واشاعت میں اہم کردار ادا کیاہے۔اس کے بعد مدارس اورمساجد میں موجود مکاتب کے فارغین نے اﷲ کے پسند دیدہ دین کو پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔الحمدﷲ !آج ملک ہندوستان میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے ۔دعوت وتبلیغ کے اس سلسلے کو خانقاہیں ،دارالعلوم ،مدارس،تحریکیں اور تنظیمیں قائم رکھے ہوئے ہیں۔خانقاہیں تزکیہ نفس اور تزکیہ باطن کے ذریعے اسلام کی شمع روشن کررہی ہیں تو مدارس کے فارغین دور درازکے دیہی و شہری علاقوں میں پہنچ کر ’’قال اﷲ قال الرسول ‘‘کی پُر سوز صدائیں پہنچا رہے ہیں۔تحریکیں اور تنظیمیں زمینی سطح پر دینی کام کا دائرہ وسیع کیے ہوئے ہیں اورانفرادی محنت کے ذریعے یہ دینی تحریکیں اُمت دعوت تک پیغام بھی پہنچا رہی ہیں اور مسلمانوں میں پائی جانے والی اخلاقی برائیوں کا سد باب بھی۔اصلاح معاشرہ کے لیے تحریک وتنظیم کے ذمہ داران واراکین گلی کوچوں اور شہروں میں اجتماعات ،اجلاس اور کانفرنسوں کا انعقاد کرتے ہیں اور ان کے بااخلاق مبلغین وداعیان دین گھروں گھر جا کر دین کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ہوٹلوں ،چوک ، چوہراہوں، شاہراہوں،اداروں،کلبوں اور سوسائٹیوں میں دین کا سچا جذبہ رکھنے والے یہ مجاہدین اﷲ کا پیغام لے کر پہنچتے ہیں۔کوئی ان کی بات سنتا ہے تو کوئی انکار کردیتا ہے ۔کوئی چائے کی چسکیوں میں مست ہوتا ہے تو کوئی کاروبار چھوڑ کر پیغام الٰہی کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوجاتا ہے ۔غرضیکہ مختلف مصائب وآلام کی موجودگی میں علما،حفاظ،ائمہ کرام اور داعیان دین قرآن واحادیث کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔بہت سے صبر آزما لمحات بھی آتے ہیں اور یہی امتحان وآزمائش کی گھڑی ہوتی ہے،یہی انسان کی پرکھ ہوتی ہے کہ وہ دین کا جذبہ رکھتا ہے یا سستی شہرت کی ہوس اسے یہاں کھینچ لائی ہے۔تاریخ گواہ ہے ایسے نازک ترین حالات میں دیوان گان عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ثابت وسالم رہیں،ان کے پائے ناز میں ذرہ برابر جنبش نہ ہوئی اور ہرس وہوس کے پجاری معمولی سی مصیبت کے آتے ہی عیش کدوں میں بیٹھ گئے۔

شہر مالیگاؤں کی تاریخ مختصر ہی صحیح مگر تاریخ ہند میں اسے کافی اہمیت حاصل ہے ۔ہمارا ہر مختلف جہت سے ممتاز،بے مثل اور بے مثال ہے ۔یہاں بھی بہت سی دینی تنظیمیں دین اسلام کی خدمات انجام دے رہی ہیں،اسی میں ایک نام سواد اعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر تحریک ’’سنّی دعوت اسلامی‘‘ کا بھی ہے جس کی خدمات کا دائرہ صرف برصغیرہی میں نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک اس کا فیضان حاصل کررہے ہیں۔اس تحریک کے امیر داعی کبیر حضرت علامہ محمد شاکر علی نوری صاحب نے ایک سال قبل دھولیہ اجتماع میں اس مرتبہ ہورہے مالیگاؤں اجتماع کی تاریخ کا اعلان کیا تھا،واضح ہو کہ مالیگاؤں میں سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام ۱؍اور ۲؍مارچ ۲۰۱۸ء بروز جمعرات اور جمعہ کو دو روزہ عظیم الشان اجتماع کاانعقادہورہا ہے ۔یکم مارچ جمعرات کا دن خواتین اسلام کے لیے خاص ہے ،صبح دس بجے تلاوت قرآن مجید سے اجتماع کا آغاز ہوگا اور بعد نماز مغرب دعا کی جائے گی جب کہ اجتماع کا دوسرا دن مرد حضرات کے لیے مختص ہے اور رات دس بجے دعا پر اجتماع کا اختتام ہوگا۔ ایک سال قبل اعلان کے بعد سال بھر اجتماع کے خاکے پر غوروخوض ہوتا رہا اور جنوری ۲۰۱۸ء کو کام کا آغاز ہوا۔خیر عرض مدعا یہ ہے کہ کام شروع ہونے کے بعد شہر میں نہ ہونے کی وجہ سے راقم الحروف اجتماع کی ابتدائی تیاریوں میں حصہ نہیں لے سکا۔وطن واپسی پر ۱۲؍فروری کو اجتماع گراونڈ پر پہنچا۔اجتماع کے لیے جس گراؤنڈ کا انتخاب کیا گیا تھا واپسی کے بعد اس کا منظرنامہ ہی تبدیل ہوچکا تھا۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ شہر کا کوئی بھی شخص دو ماہ قبل اس گراؤنڈ کو دیکھتا توایسی زمین پر اجتماع ہونے کا یقین کرنا اس کے لیے محال ہوجاتا۔

اجتماع گراؤنڈ پر بیٹھے بیٹھے ذہن میں سوال آیا کہ اچانک اجتماع کا اعلان ہوجاتا ہے ،آج کے دور میں ہر انسان اپنی اپنی اُلجھنوں میں مصروف ہیں،ہر کوئی خاطر خواہ وقت دینے سے قاصر ہے پھر بھی یہ اجتماعات کامیاب کیوں ہو جاتے ہیں؟آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ لاکھوں فرزندان توحید اپنی ہتھیلیوں پر اپنے سروں کا نذرانہ لیے کشاں کشاں اجتماع گاہ کھینچے چلے آتے ہیں؟ذہن میں سوال آتے ہی پورا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا،اجتماع گاہ کا وہ گراؤنڈ جس کی پوری زمین خاردار جھاڑیوں سے بھری تھی،نہ کوئی پختہ سڑک اور نہ ہی ہموارپگڈنڈی۔نہ پانی کا انتظام اور نہ ہی کسی قسم کی سہولت،رات میں کوئی اکیلا اندر چلاجائے تو وحشت طاری ہو جائے،مگر اب صاف وشفاف گراؤنڈ،پانی وبجلی کی سہولت،صبح سے دوسرے دن فجر تک دیوانوں کا ہجوم،صداے اﷲ اکبر سُن کر کام کاج چھوڑ کر دوڑتے ہوئے عارضی عبادت گاہ پہنچ کر سر بسجود ہوجانا،نہ کھانے کی فکر اور نہ ہی دھوپ کا خیال،کپڑے میلے،بدن میلا،ہاتھ پیر میں وزن اٹھانے اور جھاڑیاں کاٹنے کے زخم ۔دیر رات گئے تک مستانوں کے جیسے کام کرنا اور فجر بعد آرام کی بجائے اپنے کام کاج کے لیے نکل جانا ۔سوچتے سوچتے اس نتیجے پر پہنچا کہ اجتماع کی کامیابی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے علما کا خلوص اور دین کی دعوت پہنچانے کا شدید جذبہ،لوگوں کی حصول علم دین کی تڑپ،مبلغین کا بھوکے پیاسے گھروں گھر جا کر دعوت دینا،قلم کاروں کا مضامین لکھ کر اجتماع میں شرکت کی رغبت دلانا،پرنٹ میڈیا ،الکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ساتھیوں اور صحافیوں کا دل و جان سے محنت کرنا۔مگر ان سب پر ٹھوس اور مضبوط دلیل دل نے یہ محسوس کی کہ ان سب کا جذبہ ،خلوص اور محنتیں سب برحق،سب پر یقین مگر ایک وجہ ایسی ہے جسے دیکھ کر دماغ تسلیم کر لیتا ہے کہ ہاں یہی وہ وجہ ہے جس کے سبب آبادی سے کوسوں دور منعقد ہونے والے اجتماعات بھی کامیاب ہو جاتے ہیں،وہ اصل وجہ یہ ہے کہ ایسے ہزاروں دیوانے صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک اجتماع گراؤنڈ پر موجود ہوتے ہیں جنھیں نہ خود کا خیال ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا احساس کہ کوئی ہمیں دیکھ رہاہے ،وہ مست ہوتے ہیں اپنے کام میں،کوئی بانس گاڑھ رہا ہوتا ہے تو کوئی گڑھا کھود رہا ہوتا ہے،کوئی وضو خانے اور طہارت خانے کے انتظامات میں مشغول ہیں تو کوئی عارضی بیت الخلاء کی تعمیر میں مگن ۔کوئی اپنے گھر سے ڈھنڈا اور میٹھاپانی لا کر کام کرنے والوں کو پلا رہا ہے تو کوئی آدھی رات کو چائے کا انتظام کر کے لوگوں کو راحت پہنچا رہا ہے ۔اﷲ اجر عظیم عطا فرمائے مالیگاؤں کے باشندوں کو کہ انہوں نے نہ صرف خاردار جھاڑیوں کو کاٹا بلکہ مٹی سے ایک ایک کانٹا چُن کر پورا میدان بھی صاف کیا،چُن چُن کر کانٹوں کا انبار لگایا جاتااور پھر اسے جلا دیا جاتا تاکہ کسی میں مہمان رسول کو تکلیف نہ ہو۔اس حدیث کی عملی تصویر نگاہوں نے دیکھی کہ ’’جو اپنے لیے پسند کرو ،وہی اپنے مومن بھائی کے لیے پسند کرو‘‘ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہمارے پیروں میں کانٹا چبھے۔بس کیا تھا ذہن میں پیدا ہوئے اس سوال کا جواب مل گیا کہ فرزانوں کے سبب نہیں بلکہ اﷲ ورسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان دیوانوں کے سبب اجتماعات کامیاب ہوتے ہیں جو خلوص اور دیوانگی کے ساتھ زمانے سے بے پرواہ ہو کر اﷲ کے دین کو غالب کرنے کے لیے بغیر کسی لالچ وشہرت کے رات دن ایک کردیتے ہیں۔اﷲ ایسے دیوانوں کا سایہ دراز فرمائے اور ان کے خلوص کو صدقہ ہمیں بھی عطا فرمائے۔آمین

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 672254 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More