پہلی چیز ناشکری ہے ۔ اس دنیا میں ہر مخلوق کے پاس جو کچھ
ہے وہ دراصل اللہ تعالی ہی کی عطا ہے ۔ مگر مخلوقات میں سے صرف انسان ہے جو
باشعور بھی ہے اور بااختیار بھی۔ وہ حساس بھی ہے اور احسان شناس بھی۔ ان
صفات کی حامل مخلوق یعنی انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ احساس شکر گزاری
میں جیئے ۔ وہ اپنے شعور اور عقل و فہم کو استعمال کرتے ہوئے زندگی کے ہر
معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نعمت و عطا کے پہلو کو تلاش کر کے دل و جان کی
گہرائیوں سے اپنے محسن حقیقی کی شکر گزاری اختیار کرے ۔
مگر انسان کا المیہ یہ ہے کہ اسے کوئی نعمت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ ہر چیز کو
اپنا حق سمجھتا ہے ۔ شکر کرنا تو دور کی بات ہے وہ الٹا ناشکری کا رویہ
اختیار کرتا ہے ۔ زندگی میں لاکھ چیزیں اسے ملی ہوتی ہیں اور ایک چیز اگر
نہ ملے یا مل کر چھن جائے تو وہ طوفان اٹھادیتا ہے ۔ شکوہ شکایت، غصہ،
جھنجھلاہٹ اور مایوسی اس کا احاطہ کر لیتی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ انسان
کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ اس کے پاس ان گنت نعمتیں موجود ہیں کبھی کبھار
کوئی نعمت لے لیتے ہیں یا دیتے نہیں ہیں ۔
تاہم جو اس احساس میں جیتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کی عطا ہے اور وہ قول و فعل
اور رویے سے شکر گزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا عام طریقہ یہ
ہوتا ہے کہ ان سے نعمتیں واپس نہیں لیتے بلکہ ان میں اضافہ بھی کرتے ہیں ۔
یہی بات سورہ ابراہیم میں بنی اسرائیل سے مخاطب کر کے اس طرح کہی گئی ہے کہ
تم شکر گزاری کرو گے تو ہم تمھاری نعمتیں بڑ ھادیں گے ، (ابراہیم7:14)۔
اسی طرح جب لوگ نافرمانی اور گناہ کا رویہ اختیار کرتے ہیں تب بھی اللہ
تعالیٰ لوگوں پر مصائب و آلام کثرت کے ساتھ بھیجنا شروع کر دیتے ہیں ۔ لیکن
انسان اگر گناہ سے بچ کر جیے اور جب جب نافرمانی ہوجائے تو معافی مانگتا
رہے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول کرتے ہوئے گناہ کی پاداش
میں کوئی تکلیف اور سختی نہیں بھیجتے ۔ قرآن مجید میں کفار مکہ کو یہ بات
اس طرح کہی گئی ہے جب تک وہ معافی مانگتے رہیں گے ہم عذاب نہیں بھیجیں گے ،
(انفال33:8) یا پھر سورہ شوریٰ میں کہا گیا کہ جو مصائب تم پر آتے ہیں وہ
تمھارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں ، (شوریٰ30:42)۔
شکر و استغفار کے حوالے سے دو تین باتیں مزید سمجھ لینی چاہییں ۔ ایک یہ کہ
قرآن کریم کے بیانات میں جو قانون بیان ہوا ہے وہ ان اولین مخاطبین کے لیے
تھا جن کے درمیان رسول موجود تھے اور جب رسول موجود ہوتے ہیں تو اللہ
تعالیٰ عالم اسباب سے بلند ہوکر معاملات شروع کر دیتے ہیں ۔ اس لیے وہاں تو
یہ قانون سوفیصد قابل عمل ہوتا ہے ۔ لیکن باقی انسانیت کے لیے بھی وہ یہی
شروع کر دیں توآزمائش ختم ہوجائے گی۔ اس لیے باقی لوگوں کے معاملے میں
عموماً یہی ہوتا ہے کہ شکر و استغفار کے نتیجے میں مصائب بہت کم ہوجاتے ہیں
، مگر آزمائش کے اصول پر بعض لوگوں پر اس رویے کے باوجود بھی مصائب آ جاتے
ہیں ، گرچہ ایسا کم ہوتا ہے ۔
دوسرا یہ کہ ہم مصائب کے حوالے سے ناگہانی معاملات کا بیان کر رہے ہیں ۔
انسان اگر شکر و استغفار کے ساتھ خود ہی قانون قدرت کی خلاف ورزی کرنا شروع
کر دے تو اس کے نتائج پھر ہر حال میں نکلیں گے ۔ مثلاً خراب اور نامناسب
خوراک اگرمستقل کھائی جائے گی تو تھوڑ ے عرصے ہی میں انسان بیمار پڑ جائے
گا چاہے وہ کتنا ہی شکر کیوں نہ کر رہا ہو۔
تیسرا یہ کہ شکر اور استغفار دونوں صرف زبانی کلامی چیزیں نہیں بلکہ عملاً
کرنے والے کام بھی ہیں ۔اپنی نعمتوں میں سے دوسروں کو دینا، مال لوگوں پر
خر چ کرنا، اپنی طاقت سے دوسروں کی خدمت کرنا یہ عملی شکر گزاری ہے ۔ اسی
طرح گنا ہوں پر اصرار سے بچنا، خودکو بہت نیک نہ سمجھنا وغیرہ استغفار کی
سچائی کا ثبوت ہے ۔
اس ضمن کی آخری بات یہ ہے کہ آدھا عمل صالح اور آدھا گناہ ، اسی طرح آدھی
شکر گزاری اور آدھی ناشکر ی انسان کو بڑی مہنگی پڑسکتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اپنے نیک بندوں کا معاملہ دنیا ہی میں صاف
رکھیں ۔مگر نیک بندے کچھ اچھے اعمال کے ساتھ کچھ گناہ مستقل طور پر کرتے
رہیں یا زبان سے شکر کرتے ہوئے عملاً شکر نہ کریں تو پھر ایسے لوگوں کا
حساب کتاب صاف کرنے کے لیے بعض اوقات بڑی مصیبتیں ان کا رخ کر لیتی ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ انسان نے اگر یہ راستہ اختیار کیا ہے تو پھر اسے پورا
ہی اختیار کرے ۔ بیچ میں رکھنے کا مطلب اپنی شامت کو آواز دینا ہے ۔۔
|