دنیا میں اربو ں لوگ ایسے ہیں جو غربت و مفلسی میں
جیتے ہیں ،اور غربت ومفلسی کا کفن پہن کر دفن ہو جاتے ہیں۔لیکن انسانیت پہ
ستم یہ ہے کہ انہی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو مرنے سے پہلے بھی رات کو
دن کی چادر پہنانے میں اربو ں کھربوں ڈالر خرچ کردیتے ہیں۔
29 اگست 1958 امریکی ریاست انڈیانا (Indiana )میں پید اہونے والے ایک بچے
نے غریب اور سیاہ فام گھرانے میں آنکھ کھولی۔اس بچے کو اپنی سیاہ رنگت سے
سخت نفرت تھی ۔ یہ جب آئینے کے سامنے کھڑاہوتا تو اپنی تخلیق پر شرمندہ
ہوتا ، خود کو کوستا ، اور دل ہی دل میں کھڑتا رہتا ۔بعد میں اسی بچے نے
اپنی اس ا حساس محرومی کو ختم کیا ،خود کو چیلنج کے لیے تیار کیا ، اور
اپنی کالی سیاہ رنگت کو سفید چمڑی میں بدل کر دنیا کو حیران کر دیا ۔ اس
بچے نے جب ایک نجومی کو ہاتھ دیکھایا تو نجومی بولا:’’ تم ستر سال جیو گے‘‘
بچے نے بڑے ہی طنز سے جواب دیا :’’ نہیں میں ایک سو پچاس سال کی عمر پاؤں
گا ‘‘ مگر وہ اپنی یہ خواہش پوری نا کر سکا ۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس نے
اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ،یہ ہم آپ کو آگے چل کر
بتائیں گے۔
امریکہ میں ایک سوسال تک نسل پرستی رہی۔پھر بیسویں صدی کے شروع میں جب سیاہ
فاموں کو حقوق ملنے لگے تو سیاہ فام انگریز، مختلف سرکاری شعبوں سے وابسطہ
ہو گئے ۔یہ بچہ اس سیا ہ فام خاندان کاساتواں بچہ تھا ۔ اس بچے نے اس دور
میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک بینڈ بنایا۔ یہ سب بھائی چرچز ، ریلوے
اسٹیشنوں ، اور لوگوں کی آمد رفت والی جگہ پر کھڑے ہوجاتے ،یہ گانا گاتے
،لوگوں کو خوش گوار ماحول فراہم کرتے ،اس طرح یہ سب بھائی چند ڈالر جمع کر
لیتے تھے۔1969 میں ان بھائیوں نے ایک البم ریلیز کیا ، لیکن یہ کامیاب نہ
ہو سکا ۔اس بچے پرباپ اور بڑے بھائی بہت ظلم کرتے ۔اسے مارتے ،اس کا کھانا
بند کر کے اسے بھوکا رکھتے ،تکلیف میں اکیلا چھوڑ دیتے ،اور گھرمیں اس کے
ساتھ بیٹوں جیسا نہیں، بل کہ نوکروں جیسا سلوک کرتے ۔بچے سے یہ ظلم برداشت
نہ ہوا ،اور اس نے خاندان سے قطع تعلقی اختیار کرلی۔ 1978 میں اس بچے نے
مشہور امریکی موسیقار ’’کونسی جونز ‘‘ کے ساتھ مل کر ایک البم تیار کیا ،جس
کی ایک کروڑ کاپی پلک جھپکتے ہی فروخت ہوگئی۔قسمت اور دولت اس بچے پر ایسی
مہربان ہوئی کہ یہ راتوں رات ایک مشہور سلیبرٹی بن گیا۔
اس کی یہ کامیابی غرور و تکبر میں بدل گئی ۔وہ دور تھا جب اس نے نجومی کو
ہاتھ دیکھا کر ایک سو پچاس سال زندہ رہنے کا چیلنج کیا تھا ۔اس بچے کو چار
چیزوں سے سخت نفرت تھی ۔ ایک اسے اپنی کالی سیاہ رنگت سے سخت نفرت تھی ،وہ
گوروں کی طرح دکھنا چاہتا تھا ۔دو اسے اپنی گمنامی سے نفرت تھی ،وہ دنیا کا
مشہورترین انسان بننا چاہتا تھا ۔تین اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی وہ اپنے
ماضی کو خود سے الگ کر دینا چاہتا تھا ۔چار اسے عام لوگوں کی طرح ساٹھ ستر
سال میں مرجانا اچھا نہیں لگتا تھا ،وہ ڈیڑھ سوسال جینا چاہتا تھا ۔اس نے
1982 میں اپنا دوسرا البم تھرلر(Thirller )ریلیز کیا ۔یہ دنیا میں سب سے
زیادہ بکنے والا البم تھا ۔اس البم کی ایک ماہ میں ساڑھے چھ کروڑ کاپی
فروخت ہوئی ،اور اس طرح یہ البم ’’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ کا حصہ بن گیا
۔اب یہ بچہ گمنامی کی قید سے باہر آچکا تھا ۔اپنی گمنامی کو شکست دینے کے
بعد اس نے اپنی سیاہ جلد کو سفید کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس نے امریکہ ویورپ کے
55چوٹی کے سرجن اکھٹے کئے ۔پیسا پانی کی طرح بہایا ،اور اپنے جسم کی درجنوں
پلاسٹک سرجریز کرائیں ۔حتی کہ 1987 میں اس نے اپنی کالی سیاہ رنگت کو شکست
دے دی ،اور سفید گورا چٹا نسوانی نقوش کا حامل لڑکا بن کر سامنے آگیا ۔
1987 میں ہی اس نے Bad) ) کے نام سے ایک اورالبم ریلیز کیا ،جس میں وہ گورا
دیکھایا گیا ۔اس البم کی بھی تین کروڑ کاپی فروخت ہوئی ۔اس کے بعد اس نے
بڑے بڑے ملکوں کے دورے کیے۔اور ان دوروں سے کروڑوں ڈالر کمایے۔اس کی
مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ،جہاں اس کی پرفارمنس ہوتی ،وہاں لوگ جذبات میں
دیواروں میں سر مار کر اپنا سر پھاڑ لیتے ،یا آگ لگادیتے تھے ۔یہ وہ گلوکار
تھا جس کے کنسرٹ میں ’’ایمبولنس ‘‘اور’’ فائر برگیڈ‘‘ کی گاڑیاں موجود ہوتی
تھیں۔اپنی کالی سیا ہ رنگت اور گمنامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعداس نے
اپنے ماضی کو مٹانے کے لیے گورے ماں باپ حاصل کیے ۔سیاہ فام دوستوں سے جان
چھڑالی ۔اور خود کومشہور کرانے کے لیے لیزا پریسلے(Lisa Marie presley ) سے
شادی کرلی ۔اب یہ اپنے تلخ ماضی سے بھی دور ہوگیا تھا ۔وقت تھا اپنی آخری
خواہش ڈیڑھ سو سال جینے کی تکمیل کا ۔وہ اپنی اس خواہش کو پانے کے لیے عجیب
حرکتیں کرتا تھا ۔وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا ،جراثیم و بیماریوں سے
بچنے کے لیے دستانے پہنتا،اور وہ بھیڑ میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا
لیتا تھا ۔مخصوص خوراک استعمال کرتا ،اس نے 12 ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے
،یہ ڈاکٹر زروز اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے ،اور اس کے کھانے
پینے کا روز لیبارٹری ٹیسٹ کرتے۔
اس نے روزانہ ورزش کے ساتھ اپنے لیے فالتو اعضا کا بندوبست بھی کر رکھا تھا
۔لوگوں نے ضرورت کے تحت اس کو جگر ،آنکھیں ، پھیپھڑے ، عطیہ کر دیے تھے ،وہ
اعضا ڈونیٹ کرنے والوں کو پیسے دیتا ،ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا تھا
۔اب اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے گا ۔پھر 25 جنوری
2009 کی رات آئی ۔وہ انسان جس نے 25 سال تک ایسی غذا نہیں کھائی تھی جس سے
اس کے ڈاکٹروں نے منع کیا ہو ۔جس کے گھر میں روز جراثیم کش ادویات چھڑکی
جاتی تھیں۔جو لوگوں سے دستانے پہن کر ہاتھ ملاتا ، ماسک پہن کر بات کرتا
تھا ،صرف 25 منٹ کے اندر چٹکی میں اس کی سانس جسم سے کھینچ لی گئی ۔ڈیڑھ سو
سال تک جینے والا امریکہ کا مشہور پاپ سنگر ’’مائکل جوزف جیکسن ‘‘دنیا کا
سب سے زیادہ ایوارڈ لینے والا مہنگا ترین سنگر تھا۔مائکل جیکسن کی موت کی
خبر کو گوگل پر10 منٹ میں آٹھ لاکھ لوگوں نے پڑھا۔یہ گوگل کی تاریخ کا ایک
ریکارڈ تھا ،جس کی وجہ سے گوگل سروس بیٹھ گئی اور گوگل صارفین کو No access
کا سامنا کرنا پڑا ۔ا س ہیوی ٹریفک کی وجہ سے گوگل کمپنی کو 25 منٹ تک اپنے
صارفین سے معافی مانگناپڑی ۔مائکل جوزف جیکسن کی موت بے انتہا احتیاط کی
وجہ سے ہوئی تھی ۔ایک دن وہ اِس دنیا سے اُس دنیا شفٹ ہوگیا ،جہاں ہر زندہ
انسان نے جانا ہے۔یہ ہزاروں خواہشوں سے موت کو شکست دینے کی ایک جنگ تھی جو
مائکل جیکسن نے لڑی ۔اس کی موت ایک اعلان ہے کہ انسان ساری دنیا کو فتح کر
سکتا ہے ، مگر موت کو شکست نہیں دے سکتا ۔ |