شام میں مغرب کی جنگی پالیسی

March 2011
میں ایک لڑکے سے شرارت کروا کر اسعماری طاقتوں نے یہ گھناونا کھیل شروع کیا۔ اس سے بغاوتی جملے لکھوائے اور دوسری طرف حکومت سے کہا کہ اگر یہ تحریک چل پڑی تو تمہرا کیا بنے گا۔ وہ دن اور آج کا دن دونوں گروپوں کو تھمنے نہیں دیا۔ اس کے بعد اس جنگ کو وسعت دیتے گئے اور پھر اس میں اپنے اپنے مفاد تلاش کرنے لگ گئے۔ شامی جو کرسی کے طلبگار تھے اپنے ہی آدمیوں کو موت کا نشانہ بناتے چلے گئے۔ نئے سے نئےاداکار میدان میں آتے گئے۔ اب اس جنگ کو عالمی وسعت مل چکی ہے۔ اامریکہ اپنے بیانیہ سے سب کو یہ سمجھا رہا ہے کہ اس جنگ میں شامل ہو کر مسلمانوں کو دہشت گردی سے ہٹیا جا سکتا ہے ورنہ یہ مسلمان ساری دنیا کے انسانوں کو کھا جائیںگے۔

پچیس ہزار سے زائد شامی اپنی جان سے ہاتھ ھو چکے ہیں۔ اور یہ کوئی دس یا بیس سال کے اعداد و شمار نہیں بلکہ پچھلے چار برس کی بات ہے۔ گیارہ ملین سے زیاہ خانہ بدوش ہو چکے ہیں یہ جنگ شام والے آپس میں لڑ رہے ہیں مگر ان کی پشت ہمیشہ کی طرح دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفاد کے لئے کر رہی ہیں۔ ایک طرف امریکہ ہے اپنے تمام حواریوں سمیت جن میں سر فہرست امن کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے اور دوسری طرف روس نے بھی اپنا ڈول ڈال دیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح بڑی طاقتیں آآپس میں سمجھوتہ کر کے کسی تیسرے ملک کے در پے ہوتی ہیں اور اپنا مفاد حاصل کرتی ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کی بھی یہی وجہ ہے۔ جو وجہ ہمیں اقوام متحدہ یا مغربی میڈیا بتانا چاہتا ہے اور بتاتا ہے وہ ہرگز نہیں ہے۔ شام میں نہ تو کوئی اسلامی طاقتوں سے خطرہ ہے اور نہ ہی کوئی داعش یا ایسی کوئی تنظیم حکومت بنانے جا رہی ہے۔ یہ تو صرف وجوہات ہیں دنیا کی آنکھ مین دھول جھونکنے کے لئے۔ دونوں طرف شام عوام ہیں جو مر رہے ہیں۔ اور ان کو مروانے والے بھی شامی ہی ہیں جو اس ملک پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مغرب کو اپنے ہتھیار بیچنے ہیں اور اپنی دھونس اور اجارہ داری قائم رکھنی ہے اس لئے وہ اس جنگ میں پیش پیش ہے۔

شام میں جمہوریت کے نام پر خانہ جنگی
شام میں جمہوریت کے نام پہ شرم ناک جنگ کا ذمہ دار مغرب ہے۔ اس نے ہر طرف جمہوریت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ کبھی اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھا کہ وہاں کتنی جمہوریت ہے۔ فرانس میں کیسی جمہوریت ہے کہ مسلمانوں کو پردہ نہیں کرنے دیا جاتا۔ اذان نہیں دی جانے دی جاتی۔ انگلینڈ میں کیسی جمہوریت ہے/ خود امریکہ میں کتنی جمہوریت ہے جہاں مسلمان کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔

March 2011 میں ایک لڑکے سے شرارت کروا کر استعماری طاقتوں نے یہ گھناونا کھیل شروع کیا۔ اس سے بغاوتی جملے لکھوائے اور دوسری طرف حکومت سے کہا کہ اگر یہ تحریک چل پڑی تو تمہرا کیا بنے گا۔ وہ دن اور آج کا دن دونوں گروپوں کو تھمنے نہیں دیا۔ اس کے بعد اس جنگ کو وسعت دیتے گئے اور پھر اس میں اپنے اپنے مفاد تلاش کرنے لگ گئے۔ شامی جو کرسی کے طلبگار تھے اپنے ہی آدمیوں کو موت کا نشانہ بناتے چلے گئے۔ نئے سے نئےاداکار میدان میں آتے گئے۔ اب اس جنگ کو عالمی وسعت مل چکی ہے۔ اامریکہ اپنے بیانیہ سے سب کو یہ سمجھا رہا ہے کہ اس جنگ میں شامل ہو کر مسلمانوں کو دہشت گردی سے ہٹیا جا سکتا ہے ورنہ یہ مسلمان ساری دنیا کے انسانوں کو کھا جائیںگے۔

اب اس جنگ کو اٹھارہ سال ہو گئے ہیں مگر یہ نہ تو اقوام متحدہ سے ختم ہو رہی ہے اور نہ ہی عرب شہنشاہوں سے۔ امریکہ عربوں کو دھمکا رہا ہے کہ اگر اس جنگ میں شامی حکومت کامیاب ہو گئی تو عربوں کی خیر نہیں اور اپنے حواریوں کو باور کرا رہا ہے کہ اگر اس جنگ میں متحدہ اپوزیشن کامیاب ہو گئی تو تمہاری خیر نہیں۔ دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے کیونکہ اس وقت تک اب کوئی بھی حرکت میں نہین آتا جب تک کہ آگ اس کے گھر تک نہ پہنچ جائے۔

akramsaqib
About the Author: akramsaqib Read More Articles by akramsaqib: 76 Articles with 58842 views I am a poet,writer and dramatist. In search of a channel which could bear me... View More