معروف تعلیم داںپروفیسر سلیم مغل نے دعوہ انٹرنیشنل
اسلامک یونیورسٹی کے ریجنل برانچ میں خطاب کرتے ہوئےکہا کہ سعودی عرب میں
اک عجائب گھر تعمیر ہوا جسے انواع و اقسام اشیاءسے مزین کیا گیا ۔ اس عجائب
گھر میں اک صحافی کی ہاتھوں سے تحریر کردہ تحریروں کو بھی رکھا گیا جسے بہت
پسند کیا گیا اور تاحال پسندیدگی کا وہی عالم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ
تحریروں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ تحریریں اس صحافی کے 27برسوں کی ہاتھوں سے
لکھی گئی تحریریں تھیں جنہیں اس نےضائع کرنے کے بجائے سنبھال کر رکھا
ہواتھا ۔ پروفیسر سلیم مغل کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں لکھائی کی جانب
توجہ معدوم ہوتی جارہی ہے ۔ کاغذ کی بچت کمپیوٹر کے ذریعے حدوں کو پہنچ چکی
ہے۔جس سے کتابوں سمیت کتب خانوں کی اہمیت بھی مانند پڑ رہی ہے۔
عالمی سطح پرکسی بھی موضوع کو اہمیت دینے کی غرض سے اسے منایا جاتاہے۔ ان
ایام میں بعض دنوں کو نہ صرف یاد رکھا جاتاہے بلکہ خصوصی اہتمام کے ساتھ
انہیں منایا جاتاہے۔ شہر قائد کی عوام سمیت پوری ملک کی عوام کو اس تناظر
میں دیکھا جائے تو 14فروری کو منایاجانے والا ویلنٹائن ڈے تو یاد ہوتا ہے
لیکن لائبریری ڈےسمیت متعدد ایام انہیں یاد نہیںہوتےہیں۔ پروفیسر سلیم مغل
کی تقریر میں وہ واقعہ بھی اسی اہمیت کواجاگر کرنے کیلئے کافی ہے کہ ہاتھوں
کی لکھائی سمیت کتابوں اور کتب خانوں کی اہمیت حد درجہ ہے ، ماضی میں طلبہ
سمیت عام لوگوں میں پڑھنے کا رجحان پایا جاتا تھا تاہم منظم سازش کہیں
یاکچھ بھی اور ، کتاب کی اہمیت اب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی جارہی
ہے ۔ شب و روز میں بھی ایسے لوگ کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جن کے پاس
کوئی کتاب ہوتی ہے یا وہ مطالعہ کتب میں مصروف ہوں۔ کتاب سے تعلق کم سے کم
تر ہوتا جارہا ہے۔ انٹر نیٹ کی جہاں اور بھی متعدد سہولیات ہیں وہیں پر یہ
بھی سہولت ہے کہ کوئی بھی فرد اپنے موبائل فون کے ذریعے کسی بھی کتاب کا
معالعہ کرلیتا ہے۔ تاہم یہاں یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ کتاب اور موبائل
کے کتاب کے مطالعے میں صرف فرق نہیں واضح فرق ہے ۔ اردو زبان کا استعمال
تحریری انداز کے ساتھ مطالعے میں بھی کم ہوتا جارہا ہے ، رومن اردو کا نام
دے کر موبائل فونز میں انگریزی میں اردو کی عکاسی ہوتی ہے جس سے تحریری
صلاحیت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ انفرادی واجتماعی طور پر اردو کو
اس کی شان واپس دلانے کیلئے تحریک برپا ہیں لیکن ان کی رفتارقابل توجہ ہے۔
یہی صورتحال اردو کی کتابوں کے مطالعے سے بھی عیاں ہوتی ہے۔ شہر قائد میں
متعدد لائبریریاں موجود ہیں اور اک سروے کے ذریعے یہ نقطہ بھی سامنے آیا
ہے کہ ان کتب خانوں میں کتابوں کے مطالعے کم اور اپنے اسباق کے زیادہ ہوتے
ہیں ۔ جس پر لائبریرین مطمئن نہیں ہیں۔
انٹر بورڈ سندھ کی ہدایت پر کالجز میں کتاب اور کتاب خانوں کی اہمیت کو
اجاگر کرنے کیلئے یوم کتب منانے کی تاکید کی گئی۔ جسے پر متعدد کالجز نے
عملدرآمد کیا ۔ چند روز قبل عزیزآباد میں شہید ملت کالج کے شعبہ لائبریری
کے زیراہتمام یوم کتاب خانہ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کالج کی پرنسپل نے
مہمان خصوصی جبکہ دیگر اساتذہ و تمام طالبات نے بھرپور شرکت کی۔ تقریب میں
کتاب اورکتب خانہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف تقایر، نظم و ٹیبلو
پیش کئے گئے۔جن سے اساتذہ سمیت تمام طالبات بہت محظوظ ہوئے ۔ تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے کالج کی پرنسپل محترمہ شائستہ اقبال نے کہا کہہ ہمارے دین میں
علم کے حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ۔لہذادینی اور دنیاوی علوم کو
حاصل کرنے کی جستجو جاری رکھنی چاہئے ۔ان کا کہنا تھا کہ علم کے حصول کیلئے
چین تک جانے کو کہا گیا ہے لہذا ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک علم کا حصول
جاری رہنا چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسانی کی زندگی میں کتاب کی بہت
اہمیت ہےاور موجودہ دور میں کتاب کے مطالعہ کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔انہوں
نے تقریب کے انعقاد کیلئے کالج کے شعبہ لائبریری کے انچارج مہرین نازسمیت
تمام منتظم طالبات کو مبارکباد دیتے ہوئے اس نوعیت کے پروگرامات جاری رکھنے
کی تاکید کی۔یوم کتب خانہ کی تقریب سے دیگر اساتذہ نے بھی خطاب کیااور
انہوں نے بھی کتاب سے تعلق کو بڑھانے پر زور دیا ۔ تقریب میں طالبات نے
منفرد انداز میں سب کو خوش آمدید کہا جس کیلئے انہوں نے فوجیوں کی طرح
باقاعدہ پریڈ کی اور آخر میں یوم کتاب خانہ میں خوش آمدید کی تحریر سب کے
سامنے پیش کی ۔ جسے طالبات نے خوب پذیرائی دی ۔قومی نغموں پر مختلف طالبات
نے اپنے فن کا مظاہر ہ کیا ۔ اس دوران تقاریر میں طالبات نے کتاب اور کتاب
خانہ کی تاریخ و اہمیت کو بھر پور انداز میں اجاگر کیا۔ تقریب سےخطاب کرتے
ہوئے شعبہ لائبریرئ کی انچارج مہرین ناز نے کہا کہ موجودہ دور میں منظم
سازش کے ذریعے کتاب سے تعلق کو کم کیا جارہاہے۔ انٹرنیٹ کی سروس کو عام
کرکے کتاب کی اہمیت کو کم کردیا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب
تک مسلمانوں کاتعلق کتاب سے مضبوط رہا وہ ترقی کرتے رہے اور تعلیم سمیت ہر
شعبہ زندگی میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ تاہم سب کے سامنے یہ بات عیاں ہے
کہ موجودہ دور میں کتاب سے تعلق کم ہوگیا ہےاور اس تعلق کو بڑھانے کیلئے
تاریخ کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ مہرین ناز نے اس موقع پر کتاب کی اہمیت کو
اجاگر کرنے کیلئے " میں ہوئی افسردہ ہوئی بہت" کے عنوان سے دلچسپ اور
پرمعنی نظم سنائی۔ اس نظم میں انہوں نے کتاب کےساتھ ہونے والے سلوک کو
روداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے ماضی اور حال پر روشنی ڈالی ، جسے تمام
شرکاء نے بہت پسند کیا۔ انہوں نے بھی طالبات سمیت اساتذہ و دیگر عملے کی
کاوشوں کو سب کے سامنے قابل تعریف انداز میں رکھا جس پر شرکاء نے تالیاں
بجاکرپذیرائی دی۔ بعد ازا ںاختتام پر سب مل کر تقریب کا اختتام قومی ترانے
پر کیا۔
بظاہر تقریب کا خاتمہ ہوگیا اور اس ایک کالج میں نہیں جہاں بھی جس کالج میں
بھی اس نوعیت کی تقریب منعقد ہوئی اس کے مفید اور مثبت اثرات ضرور مرتب
ہونگے۔ تاہم ذرائع ابلاغ کیلئے یہ نقطہ قابل توجہ ہے کہ اس نوعیت کی تقاریب
کو اہمیت دیں۔ تعلیم اور تعلیمی خبروں کو اپنے ٹی وی اور اخبارات میں مناسب
جگہیں دے کر کتاب اور کتاب خانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں اپنے کردار
ادا کریں۔ |