چند لفظوں کی کہانی

فضل دین کی بیٹی کی کار حادثے میں اچانک موت ہوگئی۔ جوان لڑکی تھی۔ کالج سے گھر آرہی تھی کہ ٹرک نے کچل دیا۔ لڑکی نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ میت گھر پہنچنے پر کہرام مچ گیا۔ آس پڑوس کے لوگوں کا رش لگ گیا۔ تمام رشتے دار دور پار سے آگئے۔ماں پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ باپ کا برا حال تھا۔ ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یا اﷲ اتنی جوان موت۔۔ اب کیسے صبر آئے گا۔ ہر شخص جنازے میں ایسے رو رہا تھا جیسے بچی اسکی ہو ۔ میت کی تدفین ہوئی۔ گھر میں سوگ کا عالم تھا۔ رشتے دار دوست احباب تدفین کے بعد افسوس کر کے اور میت کی کڑوی روٹی کھا کر گھروں کو چلے گئے۔ لڑکی کے چند قریبی رشتے دار ماں باپ کو سنبھالنے کی خاطر ان کے پاس رک گئے۔

پورے سال جس گھر میں قرآن کی تلاوت نہ ہوتی تھی اب روز بچی کے ایصال ثواب کے لئے قرآن پڑھے جانے لگے۔ یہ سلسلہ ۳ روز تک اپنے جوبن پر تھا۔قل کی شام فاتحہ اور کھانے کے بعد ایک عجیب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ گھر کی بیٹھک سے لوگوں کے بولنے اور ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ اسی لڑکی کے ماموں اپنے بچپن کا کوئی قصہ مزے لے کر سنارہے تھے اور باقی رشتہ دار زور زور سے ہنس رہے تھے۔لمحے کو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ گھر موت کا نہیں کسی کی شادی کا گھر ہے۔ کیا اتنی جوان لڑکی کی موت کا غم لوگ صرف ۳ دن میں بھول گئے؟

یہ چھوٹی سی کہانی ہمارے معاشرے کی بے حسی کی نشاندہی کرتی نظر آرہی ہے۔ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ کیا ہم اپنا بچپن اور اپنے بزرگوں کی تربیت بھول چکے یں ؟ بچپن میں جب محلے میں کسی کی موت ہوجاتی تھی تو گھر کے بزرگ ٹی وی دیکھنے سے بھی منع کرتے تھے کہ مبادا ناچ گانے کی آواز پڑوسیوں کے گھر تک پہنچے تو انکی دل آزاری نہ ہوجائے۔ ایک گھرانے کے غم میں پورا محلہ شریک ہوتا تھا۔ رشتے داروں سے بڑھ کر محلے والے ساتھ نبھاتے تھے۔ تین روز تک میت کے گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا۔ رشتے دار اور اہل محلہ ہی کھانے پینے بکا بندوبست کرتے تھے۔میت کے اہل خانہ کی دلجوئی کی جاتی تھی۔ انکے غم کو اپنا غم سمجھا جاتا تھا اور اکثر گھرانے اپنے گھر کی خوشی کی تقریبات بھی منسوخ کردیتے تھے۔ کیا وہ زمانہ اچھا تھا کہ آج کا دور بھرپور ہے؟ جب کسی کے گھر پر موت ہوجائے تو محلے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ جب اس گھر کے باہر گاڑیوں کی لائن لگتی ہے اور ایمبولینس کا سائرن گھر کے باہر بجتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا انتقال ہوگیا ہے۔ آج ایک گھر میں موت ہوجائے تو صرف جنازہ اٹھنے تک لوگ غمزدہ نظر آتے ہیں۔ قل تک یہ غم ہلکا ہوجاتا ہے اور پھر صرف میت کے گھر والے ہی غم زدہ نظر آتے تھے۔ رشتے دار اور احباب بڑی بے شرمی سے ہنسی ٹھٹھے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ سوگ صرف تین دن کا ہوتا ہے۔ لیکن اﷲ کے نبی ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ جنازے پر ہنسنے والے پر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر موقع کا احترام لازم ہے۔موت کے گھر میں ہنسی مذاق اور بے ہودگی مناسب نہیں لگتی۔ یہ رویہ معاشرتی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے۔اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ واقعی انسان خسارے میں ہے۔ ساری زندگی انسان جن رشتوں کو اہمیت دیتا ہے انکو وقت دینے کے لئے اکثر نمازیں چھوڑ دیتا ہے۔ پوری زندگی اسی فکر میں گزار دیتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ہر طرح کے جتن کرتا ہے۔ وہ لوگ اس کی موت کے بعد اسی کے گھر میں بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے نظر آتے ہیں۔ تو اس سے اندازہ لگائیں کہ ان رشتوں کو نبھا کر انسان نے ساری عمر کیا پایا ؟ صرف خسارہ ؟؟؟

خدارا دوسروں کے غم کو محسوس کرنا سیکھیں۔ جانا سب نے ہے۔ یہ وقت آپ پر بھی آنا ہے۔ اور پھر آپ کی موت پر آپکے قریبی لوگ ہنسی مذاق کریں اور قل کی محفل میں رنگ جماتے نظر آئیں تو ؟؟؟ کیسا لگے گا ؟؟؟

Ambreen Siddiqui
About the Author: Ambreen Siddiqui Read More Articles by Ambreen Siddiqui: 2 Articles with 1857 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.