بے قراری سی بے قراری ہے (قسط ٤)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

عمارہ کا ذہن مارکیٹنگ میں بہت چلتا۔ وہ اپنے پاپا سے بھی بزنس ٹیکٹک ڈسکس کرتی رہتی، چھوٹی چھوٹی باریکیوں کو بھی مس نہیں کرتی۔ اسے اپنے پلان کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں تھی۔ اس کے بقول اگر امریکہ میں صرف تین فیصد بزنس کامیاب ہوتے ہیں۔ تو پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اسی لیے وہ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ اپنے بہت سے پیسے بھی خرچ کر رہی تھی۔ ہمارا نوے فیصد وقت انھی باتوں کو ڈسکس کرتے گزرتا۔
اس کی یہ ساری کوششیں دیکھ کر شرمندگی ہوتی، کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ کہنے کو تو ہم دونوں برابر کے حصہ دار تھیں۔ اس نے تو کمپنی کا نام اور ہماری پوسٹس بھی چوز کر لی تھیں
کمپنی کا نام " مستور "رکھا۔ یعنی چھپی ہوئی۔
مجھے یہ نام پسند آیا تھوڑا نان ٹریڈیشنل سا تھا۔ اس نے مجھے ڈیزائن سیکشن کا ہیڈ بنایا اور خود سی ای او بن گئی۔ یہ باتیں ابھی تک کاغذوں پر ہی تھیں جانے کب یہ باتیں حقیقت بن جائیں۔
میں بھی فارغ نہیں بیٹھی۔ نئے ڈیزائنز اور رنگوں کی انسپائریشن کے لیے دنیا بھر کے فیشنز کو دیکھ رہی تھی۔ پاکستانی ڈیزائنرز نیا کام تو کرتے نہیں۔ بس باہر کے برینڈز کو تھوڑا سا موڈی فائی کر کے چلا دیتے ہیں۔ اس میں برائی یہ ہے کہ آپ مغربی ڈیزائن سے متاثر ہو کر ایسا کرتے ہیں۔ جبکہ ہماری روایت میں زیادہ خوبصورت چیزیں موجود ہیں۔ میں اپنی انسپائریشن اسلامی تہذیب سے لینا چاہتی تھی۔
میں دیکھتی رہتی کہ دنیا بھر میں مسلم لڑکیاں کیا نیا پہن رہی ہیں۔ خصوصی طور پر وہ کون سے رنگوں کو اپنا رہی ہیں۔ مجھے اردن اور ترکی کے فیشن ڈیزائنرز بہت پسند تھے۔ یہ لوگ جدت اور قدامت دونوں کو لے کر چل رہے ہیں۔ اوپر سے اپنی تہذیب پر فخر بھی کرتے ہیں۔
ہم دونوں دنیا سے بے خبر اپنی ہی دھن میں لگی رہیں۔ جبکہ باقی ساری لڑکیاں اپنا مستقبل محفوظ کرنے میں۔ ہر روز کسی نہ کسی لڑکی کی منگنی یا شادی ہو رہی ہوتی۔
ان کی ڈائمنڈ کی رنگز دیکھ کر دل میں عجیب سی بے چینی ہونے لگتی؟
جانے میرے ہاتھ میں ایسی رنگ کب آئے گی؟
میں ان آوارہ خیالوں میں کبھی کبھار کھو جاتی۔
ایسے میں کہیں سے عمارہ ڈرامہ کوین بنتے ہوئے کہتی۔ کوئی میری دوست کی بھی منگنی کرادے بیچاری کی عمر نکلی جا رہی ہے۔ دکھوں کی ماری بیچاری کیسے ساری زندگی اکیلے گزارے گی۔ یہ کہہ کر وہ رونے کی ایکٹنگ کرنے لگتی۔
قریب بیٹھی لڑکیاں چونک جاتیں۔ میں عمارہ کی کمرپر ایک گھونسا مارتی۔ عمارہ کی بچی تم کب سدھرو گی۔ بند کرو اپنا یہ ناٹک۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں انٹر میں تھی، جب میرے لیے پہلی بار رشتہ آیا۔ رشتہ بھیجنے والا مجھ سے پندرہ سال بڑا تھا۔ وہ اپنی دکان چلاتا تھا۔ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔
میں جیسے ہی کالج سے آئی، اماں نے مجھے کپڑے تبدیل کر کے تیار ہونے کا کہا۔ میرا تھکا ہونے کا بہانا بھی نہ چلا۔ جیسے تیسے تیار ہو کر کمرے میں ہی بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اماں کے ساتھ ایک اجنبی خاتون کمرے میں آئیں۔۔ وہ خاتون مجھے پہلی ہی نظر میں زہر لگی۔ وہ چھچھورے انداز سے اپنے پیسوں کی نمائش کر رہی تھی۔ کوئی بیس تولے سونا اس نے پہنا ہو گا۔ کپڑے اتنے تنگ کے مجھے شرم آنے لگی۔ جب اس نے بولنا شروع کیا تو اس کا پینڈو پن کھل کر ظاہر ہو گیا۔
اس نے مجھے یوں دیکھنا شروع کیا، جیسے قصائی بکری کو دیکھتا ہے۔ اس کی نظریں میرے جسم کے ایک ایک حصے پر رک رک جاتیں۔ میں شرم سے خود کو چادر کے نیچے چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
اس کے سوال بھی عجیب تھے۔ ایسے جیسے کوئی انسان نہیں سارے گھر کی نوکرانی ڈھونڈ رہے ہوں۔ میری تعلیم انھیں بہت زیادہ لگی۔ میں نے بھی کورے کورے جواب دیے۔ جن کو سن کر ان کا مزاج بگڑ گیا۔
بعد میں معلوم ہوا، یہ ابا کے دور پار کے رشتے دار ہیں۔ جنھوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی ابا کو دریافت کیا ہے۔ انھوں نے جب ابا سے میرے رشتے کی بات کی تو ابا خوشی خوشی مان گئے۔ وہ تو پہلے ہی اپنی لڑکیوں کو جلدی بیاہ دینے کے حق میں تھے۔
اس دن کے بعد سے مجھے دھڑکا رہتا۔ کہیں ابا کسی بھی ایرے غیرے سے میری شادی نہ کر دیں۔ کیونکہ ابا کا تو ایک ہی پیمانہ ہے: لڑکا شریف خاندان سے ہو اور چار پیسے کماتا ہو۔
تعلیم، اخلاق، کردار، اور خوبصورتی ان کے نزدیک بے معنی ہیں۔ میں ایسے کسی آدمی سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ جو مجھے پاؤں کی جوتی اور نوکرانی سمجھتا ہو۔ افسوس اکثر مردایسے ہی نظر آتے۔
پر دل کہتا، ایسا کوئی ضرور آئے گا۔ جو مجھے ایک دوست سمجھے گا۔
خوش قسمتی سے اس خاتون کو میں بالکل پسند نہیں آئی۔ اس کے بعد بھی تین چار خاندان آئے۔ کسی کو میں پسند نہ آتی، کسی کی جہیز کی ڈیمانڈ بہت ہائی ہوتی۔ میں ہر انکار کے بعد شکرانے کے دو نفل پڑھتی۔
ابا نے کبھی نہیں بتایامگر مجھے معلوم تھا۔ اس کی وجہ ان کا ایک خوف تھا۔ بنگلہ دیش میں ابا سے بڑی تین بہنیں تھیں۔ دادا سکول میں ٹیچر اور ترقی پسند خیالات رکھتے تھے۔ وہ اپنی بیوی اور بچیوں کو پردہ نہیں کروا تے۔ انھوں نے اپنی ساری بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا ئی، نوکری کرنے کی بھی اجازت دی۔ ان کی دو بیٹیاں شادی سے پہلے بھی نوکری بھی کرتی تھیں۔ ابا سب سے چھوٹے تھے۔ باقی سب بہنیں ان سے پندرہ بیس سال بڑی تھیں۔ دادا نے اپنی دو منجھلی بیٹیوں کے رشتے طے کر دیے تھے۔ بڑی بیٹی نے مزید تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کرنے کے چکر میں شادی سے انکار کر دیا۔ دادا پہلے ان کی شادی کرنا چاہتے مگر وہ خود منع کر دیتیں۔
سقوط ڈھاکہ سے ایک سال پہلے معلوم ہوا، بڑی پھپو کسی لڑکے سے محبت کرتی ہیں۔ دونوں کی محبت ابھی خفیہ اور خط و کتابہت تک محدود تھی۔ باہر کی دنیا میں نفرت کی دیواریں کھڑی ہو گئیں۔ وہ لڑکا کسی زمانے میں ان کا کلاس فیلو تھا۔ بعد میں مکتی باہنی میں شامل ہو گیا۔ اس نے پھپو کے محبت نامے پھیلا دیے۔ پھپو سمیت سارا خاندان بدنام ہو گیا۔ دادا پاکستانی حکومت کے حامی تھے اسی لیے ان کو بدنام کرنے کا کوئی بھی حربہ مخالفین ہاتھ سے نہ جانے نہ دیتے۔
کالج میں بھی دادا پر آوازیں کسی جانے لگیں۔ خاندان اور محلے والے بھی باتیں بنانے لگے۔ پھپو کو شدید صدمہ ہوا۔ وہ پڑھی لکھی اور بہت خوبصورت تھیں۔ وہ بے وفائی اور بدنامی کا یہ داغ برداشت نہ کر سکیں اور ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ ہر وقت روتی رہتیں۔
ابا نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اس بات کا قصور وار دادا کی آزاد خیال سوچ کو ٹھہراتے۔ ابا نے جب آخری بار اپنی پاگل بہن کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں دکھ اور بے بسی تھی۔ ابا نے اپنا یہ دکھ سوائے دادی کے کسی سے شئیر نہیں کیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بچیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
میں بھی نہیں چاہتی تھی، میری وجہ سے کچھ بھی ایسا ہو جس سے امی ابا شرمندہ ہوں۔ دادی کو بھی اپنی تینوں بیٹیوں اور بیو گی کا شدید دکھ تھا۔ لیکن وہ اسے اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر گئیں۔ انھوں نے مجھے ہمیشہ اپنی بیٹی ہی سمجھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یونیورسٹی میں آئے دن فیشن شو کروا ئے جاتے۔ یہ کوئی بہت بڑے پیمانے کے تو نہیں ہوتے لیکن ان میں باہر کے کافی لوگوں کو بلا یا جاتا۔ زیادہ تر لوگ صرف خوبصورت لڑکیوں کو دیکھنے آتے۔ ان میں فیشن آئیڈیاز بہت ہی سٹوپڈ ہوتے۔ جن میں ویسٹرن ڈیزائنز کی بھونڈی سی کاپی کی گئی ہوتی۔ جس کا مقصد صرف لڑکیوں کے جسم دکھانا ہوتا۔ کبھی کبھی تو یہ جان بوجھ کر کیا جاتا تاکہ انویسٹرز کو پیسہ لگانے پر قائل کیا جا سکے۔
فیشن میں صرف کیٹ واک نظر آتی ہے، اصل محنت بیک گراؤنڈ میں کرنی پڑتی ہے۔ ایک ایک ڈیزائن پر کئی کئی دن کی محنت۔ پھر ہر ویری ایشن کو بنوانا، اسے پہن کر دیکھنا، اس کے مختلف کومبینشن بنانا۔ یہ کام بس سننے میں ہی آسان ہے۔
فیشن شو کروا نے کاتو ہم نے ابھی تک سوچابھی نہیں۔ بس ایک دو ماڈلز کے ساتھ فوٹو شوٹ ہی کروا ئے تھے۔ اس کام کے لیے بھی عمارہ کے لنکس کام آئے۔ اس کے سوشل سرکل میں کئی لڑکیاں ایسپائرنگ ماڈل تھیں۔ جو مفت ہی اس کام پر تیار ہو گئیں۔ ہم نے اپنے سارے ڈیزائنز کی ایک بک بنوائی اور پریزنٹیشن بھی تیار کر لی۔ اب سب سے مشکل کام تھا کسی انویسٹر کو ڈھونڈنا جو ہمارے ان ڈیزائنز کو سپانسر کرے۔ ہم نے سوچا کہ یہ کام بہت آسان ہو گا۔ کیونکہ عمارہ اپنے تعلق داروں میں کسی نہ کسی کو قائل کرہی لیں گی۔
یہ بھی ہماری خوش فہمی ثابت ہوئی۔ یہ کام تو سب کاموں سے مشکل نکلا۔
میٹنگز کا کام میں نے عمارہ پر چھوڑ دیا کیوں کہ وہ ان کاموں میں اچھی تھی۔ ویسے بھی میٹنگز شام اور رات کو ہوتیں جن میں میرا جانا نا ممکن ہوتا۔ عمارہ نے بھی اصرار نہ کیا۔ مجھے تو جیسے یقین ہو گیا کہ بس کچھ ہی دنوں میں ہمارے ڈیزائنز مارکیٹ میں لانچ ہو جائیں گے۔
ہر میٹنگ کے بعد عمارہ کا پارہ چڑھا ہوا ہوتا۔ وہ نان سٹاپ صلواتیں سناتی۔ یہ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو، چار پیسے کیا آ گئے چلے ہمیں بتانے کہ فیشن کیسے ہوتا ہے۔
کہتے ہیں یہ اسلامی فیشن کیا ہوتا ہے؟
دنیا کپڑے اتارنے کی طرف جا رہی ہے اور آپ لوگ مزید کپڑے پہنا رہے ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ یہ رنگ اچھے نہیں ہیں، آپ وہ زارا کے ڈیزائن کی کاپی کیوں نہیں کرتیں۔
ایک نے تو کہا کہ پاکستانی فیشن پہنتا کون ہے۔ ہم نے تو آج تک پاکستان سے شاپنگ نہیں کی۔
ہر کوئی انڈین برائیڈل فیشن بنانے کو کہہ رہا ہے۔
کئی تو اتنے کمینے ہیں کہ کہتے ہیں۔ انھیں پیسے کے علاوہ بھی کوئی فائدہ ہو گا۔ یو نو واٹ اٹ مینز، یعنی ماڈلز کے ساتھ۔ ۔ ۔
میرا تو دل کیا کہ اتار لوں جوتا اور ان کی ٹنڈوں پر دو چار لگاؤں تاکہ ان کی عقل ٹھکانے آئے۔
یار یہاں چیزیں واقعی اتنی سیدھی نہیں ہیں۔ ہمارے اس اسلامی فیشن والے آئیڈیے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ ان کے خیال میں یہ پاکستان میں نہیں چلے گا۔ ابھی تک دس انویسٹرز نے انکار کر دیا ہے۔
جب تک ہمارے فائنل پیپر آئے پندرہ سولہ بڑے انویسٹرز جھنڈی دکھا گئے۔ ہم تقریباً مایوس ہو گئے۔ پروجیکٹ تک انیس لوگوں نے انکار کر دیا۔ عمارہ کا حال مجھ سے زیادہ برا تھا۔ اسے اپنی ناکامی پر بہت غصہ آیا۔ اس کو اپنے سارے سوشل لنکس سے کورا جواب مل گیا۔ سب لوگ اسے ایک چھوٹی بچی کے طور پر لیتے۔ اسے سمجھا تے کہ پاکستان میں یہ بزنس والا کام بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہاں کامیابی کے کوئی اور ہی طریقے ہیں۔ یہاں کامیابی محنت اور ٹیلنٹ سے نہیں ملتی۔
میری پریشانی کی وجہ وہ خواب بھی تھا۔ جو ہر دوسرے دن مزید تفصیل اور جذبات کے ساتھ دکھائی دیتا۔ جاگنے کے بعد بھی میری مٹھیاں بند ہوتیں جیسے ان میں ہنٹر پکڑا گیا ہو۔ اس بھیڑیے کی آنکھیں جاگتے میں بھی میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتیں۔ مجھے نہ جانے اس تشدد میں اتنا مزہ کیوں آ رہا تھا۔
سمجھ نہیں آ رہی اس ڈراؤنے خواب کے کیا معنی لوں؟ کہیں اس کا تعلق میری شادی سے تو نہیں؟ کیونکہ میری تعلیم ختم ہوتے ہی ابا نے میری شادی لازمی کروا دینی تھی۔ ایک بار میں شادی کے چکر میں پڑ گئی تو میرے سارے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔ میں کچھ بھی نہیں کر پاؤں گی۔ یہ خدشات کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے۔
ابا اور اماں کی حرکتیں ان دنوں مشکوک ہوتی جا رہی تھیں۔ میری چھوٹی بہن شگفتہ نے بتایا: گھر میں کئی رشتے والیوں کے چکر لگ رہے ہیں۔ بہت سے پرانے رشتے داروں کے ہاں اماں نے آنا جانا شروع کر دیا ہے۔
میرے دل میں ہول اٹھنا شروع ہو گئے۔۔ اماں کی پسند ہمیشہ سے اپنا خاندان ہے جس میں سارے ہی کپڑے کا کام کرنے والے ہیں۔ ان کے سارے لڑکے ایسے تھے جو بزنس ابا کے مشورے پر اور گھر اماں کی مرضی پر چلاتے تھے۔ ان کی بیویاں سونے میں لدی بس گھر بیٹھی موٹی ہوتی جاتیں۔ ان کی باتیں مجھ سے تو برداشت ہی نہیں ہوتیں۔ انھیں پتا ہی نہیں کہ دنیا میں ان کے گھر سے باہر بھی کچھ ہے۔
ایک دن وہی گھر میں بکرا منڈی لگی۔ یعنی مجھے دیکھنے کے لیے لوگ آئے۔ لڑکا مجھ سے دس سال بڑا اور بالوں سے محروم۔ کیونکہ وہ اپنی سیوک گاڑی میں آئے تھے۔ لڑکا اپنی دکان چلاتا تھا اسی لیے امی ابا کی تو پوری کوشش تھی کہ کسی طرح یہ رشتہ ہو جائے۔ میری متوقع ساس نے پان چباتے ہوئے یوں دیکھا جیسا پان کی طرح مجھے بھی چبا کر پیک باہر پھینک دیں گی۔ مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر پسندیدگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ہاں میری باقی باتیں انھیں پسند نہیں آئیں۔
لڑکی ماسٹر کر گئی ہے۔ گھر کے کاموں سے زیادہ کتابوں اور رنگوں میں مگن رہنا پسند کرتی ہے۔ ایسی لڑکیاں گھر کیا بسائیں گی۔ میرا لڑکا دیکھو میٹرک فیل ہے مگر دنیا جانتا ہے۔
ان کے جانے کے بعد اماں نے کہا، یہ تم ہر کسی کو اپنی تعلیم اور شوق کے بارے میں کیوں بتاتی ہو؟
اماں میں ایسی ہی ہوں، میں جھوٹ کیوں بولوں۔
اماں ناراض تو ہوئیں پر مجھ سے بحث نہ کی۔
نوجوانی میں اماں کو بھی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اب بھی کبھی کبھی میری جمع کی ہوئی ڈھیر ساری کتابوں میں کوئی اٹھا کر پڑھتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک اداسی ہوتی جیسے کوئی بھولا بسرا خواب یاد آ گیا ہو۔
کہتیں میں لٹریچر میں ماسڑ کر کے ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ مجھے ناول اور کہانیاں بہت پسند تھیں۔ کبھی کبھار خود بھی کہانیاں لکھتی جو ایک دو بار ڈائجسٹ میں شائع ہوئیں۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔ کوئی کوئی لڑکی خوش قسمتی سے میڑک کرتی۔
ہماری بوڑھی عورتیں کہتیں: ببوا: ہم تو انڈیا میں پالکی کے بغیر کہیں جاتی ہی نہیں تھیں۔
ہمارا تعلق مغلیہ خاندان سے ہے، ہماری اتنی ساری جاگیریں تھیں کہ مردوں کو کوئی کام کاج کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ ہم عورتوں کے لیے چار چار خاندانی ملازمائیں ہوتیں۔ ایک ایک وقت میں سو سو لوگوں کا کھانا پکا کرتا۔ پھر پتا نہیں پھر کس کی نظر لگ گئی۔ ہمارا سب کچھ ہی چھن گیا۔ یہ بٹوارا تو ہمیں راس نہیں آیا۔ ہمیں تو کراچی کا یہ موسم بھی زہر لگتا ہے۔ دہلی میں ہماری حویلی کے سامنے اتنا بڑا باغ تھا یہاں تو دڑبوں میں رہ رہے ہیں سارا دن نوکروں کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔ پان بھی اچھا نہیں ملتا۔ اوپرسے یہ لڑکیوں کا گھر سے باہر جانا۔
توبہ توبہ ہم نے تو نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔
اماں کو میڑک کے بعد ہی سکول سے اٹھوالیا گیا۔ وہ سارا دن گھر کا کام کرتیں اورمستقبل کے سہانے سپنوں میں کھوئی رہتیں۔ چوری چوری رسالے اور ڈائجسٹ بھی پڑھ لیتیں۔ شاید اسی لیے وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتیں۔ ابا کو بھی انھوں نے زبردستی منا لیا۔ مجھے یونیورسٹی جاتے دیکھ کر خوش ہوتیں۔ میری سہیلیوں کے بارے میں دلچسپی سے پوچھتیں۔ اپنی طرف سے لڑکوں سے بچنے کی نصیحتیں بھی کرتی۔
ایک دن ایک انوکھا سا رشتہ گھر آیا۔ ان لوگوں کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ پہلے اماں کو شک ہوا کہ کہیں میرا کوئی جاننے والا تو نہیں جو انجان بن کر آیا ہے۔ میں نے یہی سمجھا کہ یہ معمول کی کاروائی ہے۔ اماں نے کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ مجھے اب تجسس ہوا۔ اماں کی یہ سیکریسی سمجھ نہیں آ رہی۔ پتا نہیں اماں کیا چاہ رہی تھیں۔ شاید رشتہ اتنا برا تھا کہ اماں نے بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔ میں اپنے ذہن میں الٹی سیدھی چھلانگیں لگاتی رہی۔
یونیورسٹی تقریباً ختم ہو گئی پھر بھی ہم یونیورسٹی جاتیں اور اپنے بزنس پلان پر کام کرتیں۔ گھروں میں یہی بتایا کہ کلیرنس چل رہی ہے۔ اس دوران شگفتہ بھی یونیورسٹی جانے والی ہو گئی۔
شگفتہ کے شوق میرے جیسے نہیں تھے۔ وہ بہت زیادہ حسابی قسم کی لڑکی تھی۔ ہر چیز کو فائدے نقصان میں دیکھتی۔ شاید ابا کی لاڈلی ہونے کا اثر تھا۔ کہتی، فائنانس میں ماسٹر کر کے کسی ملٹی نیشنل میں جاب کرے گی۔ پڑھنے میں بہت تیز تھی اسی لیے سب سے اچھی یونیورسٹی جانا چاہتی تھی۔ مجھے یقین تھا اپنے ٹیلنٹ کی وجہ سے پہنچ جائے گی۔
اماں کے اصرار پر بھی برقع نہ پہنتی اور کہتی! آپی میں لوگوں کو احساس دلانا چاہتی ہوں: میری کوئی کمزوری نہیں ہے۔ میں عورت ہوں مگر کسی سے کم نہیں۔ یہ برقع پہننے کا مطلب ہی یہ ہو گا کہ میں کمزور ہوں۔ خود کو بچانے کے لیے یہ پہنتی ہوں۔ میں اپنی تہذیب کے مطابق دوپٹا اور مناسب لباس تو پہنوں گی، یہ عبایا والا کام مجھ سے نہیں ہو گا۔
میں اس سے بحث نہیں جیت سکتی تھی وہ اپنی عقلی باتوں سے مجھے قائل کر لیتی۔ وہ میری طرح خوابوں اور رنگوں میں رہنے والی نہیں، بلکہ تھوڑی سے زیادہ پریکٹیکل تھی اسی لیے کسی شہزادہ گلفام کی منتظر نہیں تھی۔ میری اس بات پر ہنستی کہ کوئی آئے گا جسے دیکھ کر میرا دل گواہی دے گا۔ وہ کہتی جس دن کسی بھی پڑھے لکھے اور سمجھ دار لڑکے کا رشتہ آئے گا وہ شادی کر لے گی۔

 

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 32769 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.