آج وہ سکول سے جب واپس آیا تو بہت زیادہ خوش تھا، آتے
ساتھ ہی اماں کے گلے کا ہار ہو گیا.
ساجدہ نے اپنے گیارہ سالہ بیٹے کی آنکھوں میں جھانکا تو ایک سرخوشی سی نظر
آئی. بڑے لاڈ سے آفاق نے ساجدہ کو مخاطب کر کے کہا :
"اماں، آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا ، دیکھے آج میرے سہ ماہی امتحان ختم ہوگے
ہیں اب آپ مجھے بسنت کے لیے ڈہیر ساری پتنگیں لے کر دینگی. "
ساجدہ نے مسکرا کر بیٹے کا ماتھا چوما اور کہا :
"میرا سہنا پتر. لے دونگی پتنگ.
پر پتر اس پتنگ بازی سے میرا دل ذرا گھبراتا ہے. "
پر آفاق کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کو مانتے ہی بنی.
بسنت آکر گزر گی اور آفاق کا دن بدن پتنگ بازی کا شوق پروان چڑھتا گیا. اب
تو یہ حال ہوگیا تھا کہ پیدل چلتے ہوئے بھی اس کی نظریں آسمان کی طرف لگی
رہتی کہ کہیں سے کوئی کٹی پتنگ نظر آئے تو وہ اس کو لوٹ لے.
اس کی الماری اب کافی رنگ برنگی پتنگوں کا گھر بن گئ تھی.
آج صبح سے بادل چھائے ہوئے تھے، ساجدہ کے منع کرنے کے باوجود پتہ نہیں کس
وقت آفاق آنکھ بچا کر چہت پر چلا گیا.
اچانک باہر سے لوگوں کی چیخنے چلانے کی آواز آئی.
ساجدہ کے باہر آنے پر اس کو پتہ چلا، اس کا لاڈلا بیٹا پتنگ کو لوٹنے کی
کوشش کرتے ہوئے بجلی کے تار کا شکار ہو گیا تھا.
کون ان کو ہسپتال لے کر گیا، کب ڈاکٹر صاحب نے کب اس کو کہا کہ
"اب اس کا پیارا آفاق نہیں رہا، بس ایک خلا تھا جس میں وہ معلق تھی. آفاق
تو بڑی بات ماننے والا بچہ تھا آج کیسے مچل کر چہت پر چلاگیا تھا. "
آفاق کے جنازے پر اس کو یہ سرگوشی بھی سننے کو ملی کہ سارا قصور ماں کا ہے،
جس نے بچے کا دھیان نہ رکھا. ایک صحافی محترمہ نے تو یہ تک کہہ دیا :
"خیال تو بچوں کا رکھ نہیں سکتے تو پانچ، پانچ بجے پیدا کیوں کرتے ہیں؟
وہ پتھرائی ہوئ آنکھوں سے خلا میں دیکھتے ہوے یہی سوچتی رہی کہ یہ کیسے لوگ
ہیں؟ کون سے ماں یا باپ ایسے ہیں وہ اپنے ہاتہ سے اپنے بچے کو موت کے منہ
میں جاتا دیکھے اور کچھ نہ کرے؟
لیکن وہ لب بلب نکتہ چینی سنتی رہی اور سوچتی رہی کہ یہ انسانیت کا تقاضا
ہے کہ کسی کے زخموں پر نمک پاشی کی جائے؟ یہ لوگ تنقید برائے تنقید کرنے کو
کب خیر باد کہینگے؟ شاید جس دن ان کا کوئی ______؟ |