کالج اساتذہ کا استحصال کیوں؟؟؟

کالجزاور ان میں مقررکردہ لیکچررز ، پروفیسرز کا ہر لحاظ سے استحصال وزیر اعلیٰ پنجاب کے بلند و بانگ دعوے " تعلیم سب کے لیے اور میرٹ کی بنیادوں پر بھرتی" صرف دعوے ہی رہ گئے ہیں۔ سابق حکمرانوں اور رہنماؤں کی طرح موجودہ حکومت اپنی 5سالہ مدت اقتدارمیں بھی کچھ نہ کرسکی۔ جس ملک میں اساتذہ کا یہ حال ہوگا وہ ملک کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔اساتذہ کرام جو قوم کو سنوارنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ان کے مطالبات ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیئے جاتے ہیں۔ کیا اس ملک میں کوئی مطالبہ بغیر احتجاج کے نہیں مانا جاسکتا؟ کیا ہر بات منوانے کے لیے بچوں کی طرح ضد کرنا ہوگی؟

وزیرتعلیم سید رضا علی گیلانی تعلیم کی ترقی کے ساتھ ساتھ کالجز کو بھی بہت تیزی سے ترقی دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی کاوشوں سے ضلع اوکاڑہ کے تمام کالجز کو پوسٹ گریجوایٹ کردیا گیا ہے تاکہ طلباء کو ماسٹرز کے لیے اپنے ضلع سے باہر نہ جانا پڑے ۔ خوش قسمتی سے ضلع بھر میں 17سرکاری کالجز ہیں جو شاید پنجاب میں کسی بھی چھوٹے اور پسماندہ ضلع میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کالجز کے باہر بڑے بڑے پوسٹ گریجوایٹ کالجز کے بورڈ چسپاں کرکے صاحب اقتدارنے اپنے سینے پر تعلیم کی ترقی کے میڈل لگا لیے ہیں۔ لیکن کیا کبھی کسی نے ان کالجز میں پڑھانے والوں کے بارے میں سوچا ہے کہ ان کے کیا حقوق ہیں؟ ان کے کیا جائز مطالبات ہیں؟

کالجز اساتذہ کی تنظیم PPLAکے زیر اہتمام کئی مرتبہ کالج اساتذہ کے حقوق کی آواز بلند کی گئی لیکن ہمیشہ کی طرح بے سود۔ مرضی کے فیصلے لیے جارہے ہیں اور سب کا نزلہ صرف سکول اور کالجز پر ہی نکلتا ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیز کو کامیاب ادارہ قرار دیتے ہوئے مراعات اور فنڈز سے نوازا جاتا ہے۔ کالجز کو نہ تو فنڈز کی ضرورت ہے اور نہ ان میں پڑھانے والے اساتذہ کی کوئی ضروریات زندگی ہیں۔PPLAکی طرف سے کچھ ڈیمانڈزرکھی گئیں جو کہ پوری نہ ہوسکیں یہاں تک کہ حکومت کی مدت بھی ختم ہوچلی ہے۔ کالج اساتذہ روزانہ کی بنیادوں پر اپنے ہی کالجز میں علامتی بائیکاٹ ریکارد کرواتے رہے کیونکہ ان کا تعلق معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے سے ہے ، انہوں نے اسکا ثبوت بھی دیا اور سڑکوں پر باقی محکموں کی طرح احتجاج کرنے سے گریز کیا۔

حال ہی میں سینٹ نے یونیورسٹیز اساتذہ کی65سال ریٹائرمنٹ کی عمر کابل پاس کیا ہے اور اس کو مزید کاروائی کے لیے آگے بھیج دیا ہے جس پر جلد ہی عملدرآمدہوجائے گا کیونکہ اس بل کا تعلق کالجز سے نہیں ہے اس وجہ سے اس کو پاس کرنے اور نوٹیفیکیشن جاری ہونے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں آئے گی۔دوسری طرف یونیورسٹی اساتذہ پہلے ہی کالجز سے one grade upہیں کیونکہ ان کو ڈائریکٹ 18سکیل میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ تیسری اہم بات کہ حال ہی میں سندھ حکومت نے PHDاساتذہ کا الاؤنس 25000روپے ماہانہ کردیا ہے جبکہ پنجاب میں یہ الاؤنس 10000روپے ماہانہ ہے۔ارباب اختیار سے سوال ہے کیا اس ملک میں PDH کا طریقہ کار ہر صوبہ میں مختلف ہے؟ کیا اس کی ڈگری HECجاری نہیں کرتی؟ کیا اس کوPHDکرنے کے لیے سب کو ایک ہی مرحلہ سے نہیں گزرنا پڑتا؟ پھر ایک ہی ملک میں مختلف صوبوں میں یہ تضاد کیوں؟ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے اور لکھنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ پنجاب میں تعلیم کی صورتحال سندھ کی نسبت 100%بہتر ہے مگر وہاں اساتذہ کا ہر لحاظ سے خیال رکھا جا رہا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تو پنجاب میں بھی کالج اساتذہ کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ صرف پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی ہوا تھا۔

سوال یہ ہے کہ وزیراعظم اور صدر بننے کیلئے عمر کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ جہاں چاہے اپنی مرضی سے آئین میں ترمیم کر کے کوئی چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن جائے اور جب چاہے آئین میں ترمیم کر کے نااہل شخص کو دوبارہ پارٹی کا لیڈر مقرر کر دیا جائے۔اور 70سال کا معمر شخص ملک کا صدر اور وزیر اعظم بننے کا اہل ہے اور 60سال کی عمر میں کالج کا استاد نا اہل ہو جاتا ہے۔کیا کالج کے 100طا لب علوں کو پڑھانا ایک ملک کو چلانے سے زیادہ مشکل ہے۔پھر یہ طالب علم کالج اساتذہ کے ہاتھوں سے نکل کر ہی یونیورسٹیز میں بیٹھتے ہیں۔حال ہی میں ایک نو ٹیفکیشن کا سوشل میڈیا پر بڑا چرچا تھا کہ جس میں سرکاری ملازمین کا ہاؤس رینٹ بڑھا دیا گیا ہے باقی سرکاری ملازمین کی طرح کالج اساتذہ میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن یہ خوشی بھی جلد ہی دم توڑ گئی جب یہ بات سامنے آئی کہ ہمیشہ کی طرح وہ اس کے بھی اہل نہیں ہیں۔اس الاؤنس کا اطلاق صرف عدلیہ اور سیکریٹریٹ پر ہو گا۔ کیونکہ اس ملک میں اور اس صوبے میں کام صرف یہ دو محکمے ہی کرتے ہیں۔ایک نئی خبر کالج اساتذہ پر بجلی بن کر گری جس کا نو ٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے جس میں ان کی کیجوئل چھٹیوں کی تعداد 25سے کم کر کہ 18کر دی گئی ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد اور کالجز کا استحصال نہیں ہے؟ کیا یہ حکومت کالجز اساتذہ کو بھی سڑکوں پر ہی دیکھنا چاہتی ہے؟۔

کالج اساتذہ کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنے اندر اتحاد و یگانگت کو پیدا کرنا ہوگا ۔ ارباب اختیار کو کالج اساتذہ کا استحصال ختم کرتے ہوئے ان کے تمام جائز مطالبات ماننے ہوں گے۔ یونیورسٹی اساتذہ کی طرح ان کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی بصورت دیگر کالج اساتذہ بھی سڑکوں پر نکلنے کو مجبور ہوں گے جس کے ذمہ داری ارباب اختیار پر ہوگی۔سند ھ کی طرح پنجاب میں بھی کالج اساتذہ کا پی ایچ ڈی الاؤنس بڑھانے کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات دینا ہوں گی تاکہ وہ خوش اسلوبی اور ایمانداری کے ساتھ قوم کو سنوارنے کی خدمات جاری رکھیں۔
 

Dr Rabia Akhtar
About the Author: Dr Rabia Akhtar Read More Articles by Dr Rabia Akhtar: 17 Articles with 13588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.