خواتین ورکرز کے حقوق اور بے حس معاشرہ

8 مارچ 1907ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں گارمنٹس ورکرز یونین سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں خواتین نے مظاہرہ کیا، جن کا مطالبہ تھا کہ انہیں بھی مردوں کے برابر حقوق دیئے جائیں، اس مظاہرے کو روکنے کیلئے حکومت نے پولیس کا استعمال کیا اور کئی درجن خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس واقعے کے بعد سے یورپی ممالک میں ہر سال عالمی کانفرنس برائے خواتین کا انعقاد کیا جانے لگا اور خواتین کے مسائل پر بات چیت ہونے لگی، اس کانفرنس میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئزر لینڈ سمیت کئی دیگر مغربی ممالک سے خواتین شامل ہوتیں اور اپنے مسائل سے دنیا کو آگاہ کرتیں،. خواتین کے لیے کس طرح کے حقوق چاہیئیں، کیا وہ جو مغرب نے بتائے یا وہ جنہیں اسلام تفصیل سے قرآن پاک میں بیان کرچکا ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو مغربی ممالک میں خواتین کی ترجیحات اور ترغیبات الگ نوعیت کی ہیں پھر ان کیلئے قوانین و حقوق بھی اسی کے مطابق ہیں. اس کے برعکس اگر اسلامی اور ایشیائی ممالک کی خواتین پر نظر ڈالی جائے تو یہاں معاملہ الگ ہے، مثلًا اگر کوئی عورت معاش کے حصول کیلئے مجبورا گھر سے نکلنا چاہتی ہے تو اسے اسلام یہ حق فراہم کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی حفاظت اور حرمت کے پیش نظر چند شرائط بھی عائد کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی عورت سماجی، قانونی، معاشی اور سیاسی حقوق کے حصول میں کامیاب ہوچکی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ خاندانی نظامِ زندگی اور ذہنی سکون سے محروم ہوچکی ہے۔ اسلام نے قرآن میں مردوں اور عورتوں کے ایک دوسرے پر یکساں حقوق تو بتائے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ مردوں کو عورتوں پر ایک طرح کی فضیلت بھی دی ہے۔اسلام نے خواتین کے جو حقوق بیان کئے ہیں، انہیں مغربی ممالک بھی کسی حد تک اپنا چکے ہیں، لیکن ان کی جانب سے عورتوں کو دیئے گئے حقوق میں مکمل آزاد بنادیا گیا ہے، اس کے برعکس اسلام نے عورتوں کے حقوق کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کیلیے کچھ حدیں بھی مقرر کی ہیں، اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ان میں روحانی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی حقوق شامل ہیں، اگر مرد و عورت اسلام کے بنائے گئے ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھ لیں تو انہیں خاندانی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ہمارے معاشرے میں عورت کے ملازمت کرنے کے رجحان کی نفی کی جاتی ہے۔ عورتیں جس طرح گھر سے ملازمت کرنے نکلتی ہیں وہ کوئی اچھا تجربہ نہیں ہوتا.شادی سے پہلے رشتے داروں کا منفی ردعمل پھرشادی کے بعد سب سے زیادہ خوف خاوند کی طرف سے دیکھنے میں آتا ہے۔عورتیں اپنی نجی زندگی کا تقریباً تمام حصہ منقطع کر دیتی ہیں۔ سماجی زندگی کے احیا کا سوال کرنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمارے معاشرے میں عورت کی زندگی ایک جوا ہے جو کامیاب ہو گیا تو ہو گیا، ورنہ گھاٹا اُس کا مقدر۔ایسی خواتین کی اکثریت اپنے گھروں میں خوش نہیں رہتی۔آپ کو ہر ملازمت کرنے والی کے ہاں اس طرح کی کہانیاں ملیں گی. عورتوں کے حقوق اور اُن کی حالتِ زار دو مختلف موضوع ہیں۔ جو عورتوں کے مسائل جاننا چاہتے ہیں وہ کبھی عورتوں سے پوچھیں کہ وہ کن حالات میں ملازمت کر رہی ہیں۔ صبح دفتر یا اسکول یا کوئی بھی دوسری جاب تک پہنچنے تک انہیں کن کن مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مرد عملہ انہیں کس کس طرح بلیک میل کرتا ہے۔ عورت خواہ کسی بھی عہدے پہ ہو، وہ جنسی ہراسمنٹ اور سماجی نا انصافی کا شکار کسی نہ کسی حالت میں ہو رہی ہوتی ہے۔ عورتیں ملازمت کر کے بھی معاشرے کی ناکارہ صنف ہی رہتی ہیں۔ وہ بچوں کو پڑھا رہی ہیں مگر مرد انہیں حقیر ہی سمجھتے ہیں اور اُن کے ساتھ وہی سلوک رواں رکھتے ہیں جو ایک کام نہ کرنے والی عورت سے رواں رکھا جاتا ہے۔بلکہ انہیں دو جگہ اپنی ذمے داریاں تقسیم کرنے کی بھی معاشرے میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے. ان کے کریکٹر کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے.نہ صرف یہ کہ وہ حد درجہ تضحیک کا شکار ہوتی ہیں بلکہ وہ پبلک راستوں میں بھی اتنی ہی غیر محفوظ ہیں.طعنے تشنے، پھبتیاں، اچٹتے فقرے اور ہوس بھری گندی نظروں کا سامنا کرتے ہوئے اپنی ذمے داریاں نبھانا آسان نہیں۔

ملازمت کرنے والی خواتین کے مسائل کا جائزہ لیا جائے اور ان کے حل کے لیے کاوش کی جائے۔ پنجاب اسمبلی میں خواتین کو گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی اور نفسیاتی تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز سے تحفظ کا بل منظور ہونا خوش آٗئند ہے۔پنجاب اسمبلی نے ایک ایسے مسودہ قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی و نفسیاتی تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز کرنے والے گرفت میں ہوں گے۔جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس مفتی محمد نعیم نے اس بل کو شریعت سے متصادم قرار دیاہے ، ان کے مطابق اس بل میں مرد کو عورت کا محکوم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی محمد نعیم کہنا تھا کہ خواتین کو شریعت نے جو حقوق مہیا کیے ان پر عمل کیاجائے تو خواتین پر تشدد کسی صورت ممکن نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے مل کر دیانت داری سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے حکومتی اداروں اور علماء کے بیچ اگر اس مسئلے پر تصادم دیکھنے میں آتا ہے تو وومن پروٹیکشن بل پر عمل درآمد ملک میں غیر یقینی صورتحال بھی پیدا کرسکتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ سب سے پہلے ہمیں تعلیم کا شعبہ مؤثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ شخصی تعمیر صحیح معنوں میں ممکن ہوسکے۔ معاشرے میں صحت مندانہ سوچ اور اچھی فضاکو فروغ دینے کے لیے اسلامی تعلیمات عملی زندگی میں رائج کرنے کی ضرورت ہے۔

Dr Rabia Akhtar
About the Author: Dr Rabia Akhtar Read More Articles by Dr Rabia Akhtar: 17 Articles with 13543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.