مارچ کے مہینہ میں ختم نبوت کی تحریک چلی جس میں ہزاروں
مسلمانوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے مر د جوان بچے بوڑھوں نے اپنے
عقیدے اور اسلام وپاکستان کی خاطر اپنی جان کی با زی لگا دی اور یو ں وہ
شہا دت کے رتبہ پر فائز ہو گئے ،حضورؐ کی عزت و ناموس کی خاطر جب مارچ 1953
کو لا ہور کے مال روڈ پر خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں ،مورخین لکھتے ہیں کہ
لاہور کے مال روڈ پر بجائے پانی کے خون بہہ رہا تھا جن کی قربانیوں کے
بدولت آج ہمارا عقیدہ محفوط ہے اور ا سعقیدے کے تحفظ کیلئے لوگوں نے دیوانہ
وار قربانیاں دیں اور قربانیاں دے کر یہ بتا گئے کہ گلشن کی آبیا ری کیلئے
ہم نے قسم کھائی تھی اور آج ہم نے اس کو پورا کر دیا ،یہ تحریک ایسی نہیں
تھی کہ بس باتوں میں بات ختم ہو جا تی نہیں نہیں ،بلکہ یہ غیرت و ایمان کا
مسئلہ تھا چونکہ مسئلہ حضورؐ کی عزت و ناموس کا تھا وہ کیسے خوش نصیب لوگ
ہیں جنہوں نے حضور ؐ کی عز ت و نا موس کی خاطر اپنی چھا تیوں پر گولیاں
کھائیں اپنے سینے چھلنی کرائے اور گنبد خضریٰ میں اپنے آقا سید االا ولین و
الا ٓخرین حضور ؐ کی ناموس پر قربان ہو گئے اور ہمیشہ کیلئے جنت کے مکین ہو
گئے،جب مارچ تین 1953 کی صبح تھی ، شہر لاہورمیں عملاً کرفیو نافذ تھا ،مگر
ختم نبوت کے پروانوں کو بھلاان پابندیوں کی کب پرواہ تھی ……پروانہ رسالتﷺ
کے شیدائی جوق درجوق نکلے …… ادھر قادیانیت نواز منصوبہ بندی کرچکے تھے ……بس
پھر کیا تھا …… گولیوں کا مینہ برسنے لگا ……ختم نبو ت کے پروانوں کی نعشیں
گرتی رہیں ، ادھر ختم نبوت کے نعرے تھے ……ادھر شمع رسالت کے پروانے سینے پر
گولیاں کھارہے تھے ……ادھر نعشوں کو چھانگا مانگا کے جنگلوں میں اجتماعی
قبروں میں دفنا کر نعشوں کی نئی صف بچھانے کیلئے میدان تیار ہورہا تھا ……اور
دیکھتے ہی دیکھتے دس ہزار متوالوں نے ساقی کوثرﷺ کی حرمت پر اپنی جانیں
قربان کردیں…… خونچکاں تاریخ رقم ہوگئی …… مگر کہنے والے آج بھی یہ کہتے
ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا ایک متنازعہ سیاسی فیصلہ تھا
۔7ستمبر1974کی شام تھی ، قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے وزیر اعظم
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم قادیانیوں کو غیر مسلم قراردینے کے حوالے سے تقریر
کررہے تھے ، اس تاریخی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کہا کہ
’’قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ پورے ایوان کا
فیصلہ ہے ،یہ ایک قومی فیصلہ ہے ، یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے ، یہ
فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے ،خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی
کرتا ہے ، یہ مسئلہ برسوں پرانا ہے ،جس پر 1953میں وحشیانہ طورپر قابو پانے
کی کوشش کی گئی ،اگر اب بھی عوامی خواہشات کو کچل کر کوئی عارضی حل نکال
لیا جاتا تو یہ مسئلہ دب تو جاتا مگر ختم نہ ہوتا ، پاکستان اسلام کی بنیاد
پر بنا ہے ، پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت جس چیز کو اپنے اعتقادات کے خلاف
سمجھتی ہے اس کے حق میں فیصلہ کرنا پاکستان کے تصور کو ٹھیس لگانے کے
مترادف ہوگا۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا مذہبی فیصلہ بھی ہے اور غیر مذہبی بھی ،
مذہبی اس لحاظ سے کہ یہ فیصلہ ان مسلمانوں کو متاثر کرتا ہے جو پاکستان میں
اکثریت میں ہیں اور غیر مذہبی اس لحاظ سے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ
اپنے شہریوں کے جائزمطالبات پورے کرے ، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا
حکومت کی نہیں پاکستان کی عوام کی کامیابی ہے ،اگر تمام جماعتوں کی جانب سے
تعاون اور مفاہمت کا جذبہ ہوتا تو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہیں
دیاجاسکتا تھا ۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قراردینا اگر متنازعہ سیاسی فیصلہ تھا تو اس فیصلے
سے قبل پاکستان کے سینے پر مرزائیت کے خنجر کس نے گھونپے ، قادیانی وزیر
خارجہ سر ظفراﷲ کے ایماء پر سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں پر دستخط کرکے
پاکستان کو غلامی میں کس نے دیا؟ 1965کی پاک بھارت جنگ میں قادیانیوں کی
فرقان بٹالین نے پاک فوج کو بے دست وپاک کیوں کیا ؟ پلاننگ کمیشن کے سابق
ڈپٹی چیئرمین ایم ایم احمد قادیانی نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی سازش
میں حصہ لے کر پاکستان کو دولخت کس کے کہنے پر کیا؟ نوبل انعام یافتہ
قادیانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے ایٹمی راز امریکہ کو کیوں
دیئے ؟ قادیانی پاکستان کے سینے پر مونگ دل رہے تھے ،پاکستان کے عوام کو
یرغمال بنا کر وہ اپنے استعمارانہ ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے اسلام کو اپنے
نشانہ پر رکھے ہوئے تھے ،قادیانیوں کو غیر مسلم قراردینا ایک خالصتاً قومی
،سیاسی اور مذہبی مسئلہ تھا اگر اس دجالی ٹولے کو اسلام کی صفوں سے باہر
نہیں نکالا جاتا تو آج نہ جانے کتنے بنگلہ دیش بن چکے ہوتے ، تاریخ گواہ ہے
کہ بانی پاکستان قائد اعظم مرحوم نے قادیانی گماشتے سر ظفراﷲ خان کو اہم
عہدے پر فائز کرنے کی مخالفت کی تھی ،تاریخ اس بارت کی بھی شاہد ہے کہ
برصغیر کے اس عظیم رہنما سے جب دورہ کشمیر کے موقع پر قادیانیوں کی بابت
دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت قادیانیوں کے
اسلام کے حوالے سے مشکوک ہے اور پاکستانی عوام کی اکثریت کافیصلہ ہی قبول
ہوگا۔
1953ء کے دس ہزار شہداء نے کیا ایک متنازعہ سیاسی مسئلہ کیلئے اپنی جان
جانِ آفریں کے سپرد کی تھی؟ 1974ء میں ربوہ میں طلبہ کی ٹرین پر قادیانی
غنڈوں کے حملے کے نتیجے میں ملک کے طول وعرض سے بچے ،بوڑھے ،جوان اور
عورتیں کیا کسی متنازعہ سیاسی فیصلے کیلئے نکلے تھے ؟ قادیانی خود اس بات
کے قائل ہیں کہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں ان کے مذہب سے متعلق متفقہ
فیصلہ پاکستانی عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے ، 8جولائی 2010ء کو عربی
جریدہ ہفت روزہ الاخبار میں قادیانی عبادتگاہ کے سربراہ شمشاد احمد صدیقی
نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’ پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کی
اکثریت قادیانیوں کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھتی ‘‘ ۔ جب خود قادیانی اس بات کو
تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت قادیانیت کوتسلیم نہیں کرتی تو
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کیلئے فیصلے کو متنازعہ کہنا حماقت ہے ،جمہوری
معاشروں میں اکثریت کے فیصلے کو ریاستی تائید حاصل ہوتی ہے اور قادیانیوں
کی حمایت میں پاکستان سمیت دنیا بھر کا مسلمان ایک لفظ سننے کو تیار نہیں ،
قادیانی کل بھی غیر مسلم تھے قادیانی آج بھی غیر مسلم ہیں ۔ |