۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ نام ونسب ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
امام الفقہاء حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاشمار ان جلیل القدرصحابہ
کرام علہیم الرضوان میں ہوتاہے جواپنے زمانے میں عظیم المرتبت مجتہدوفقیہ
تھے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی’’ معاذ بن جبل بن عمرو‘‘ ہے۔ اور
کنیت ’’ابوعبدالرحمن‘‘ ہے۔’’امام الفقہاء‘‘ کے لقب سے معروف ہیں۔آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کاتعلق مدینہ منورہ سے تھا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے۱۵۷مرویات
ہیں۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا نسب نامہ یہ ہے’’معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس
بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمرو بن ادی بن علی بن اسد ابوعبدالرحمن الانصاری
الخزرجی‘‘۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۳ص۱۸۴۷)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ قبول اسلام ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے امام الفقہاء حضرت معاذ بن جبل رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ انصارکے قبیلہ بنوخزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان ستر خوش
نصیبوں میں سے ایک ہیں جوتاجدارختم نبوت ،امام کائنات احمدمجتبیٰ محمدمصطفی
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے مکہ مکرمہ آئے تھے اور
بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے۔نبوت کے بارہویں سال جب مدینہ منورہ میں
اسلام کی دعوت شروع ہوئی توآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کے قبول کرنے میں
ذرابھی ترددسے کام نہ لیااورفوراًاسلام قبول کرلیا۔مدینہ منورہ میں
حضوراکرم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان
جو عام بھائی چارہ کرایا تھا اس کے تحت حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کا بھائی چارہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے قائم ہوا۔(ابن
سعد،واقدی)ابن اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے قائم ہوا تھا۔ابن ہشام نے ان کی تصحیح کی جعفربن ابی طالب
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس وقت مدینہ منورہ میں نہیں بلکہ سرزمین حبشہ میں
موجودتھے ۔اور۷ہجری کی ابتداء میں فتح خیبرکے موقع پرمدینہ منورہ
آئے۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے جب آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قاضی
اور معلم بنا کر یمن بھیجا تھا اس وقت آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عمرمبارک
اٹھارہ سال کی تھی ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ بدر ،احد،خندق سمیت تمام
غزوات میں آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے شریک رہے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ملک یمن کی جانب معلم یاامیر بن کرجانا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو ان سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس
کوئی فیصلہ آیا تو تم اسے کیسے حل کرو گے؟ عرض کیا کہ کتاب اﷲ کی روشنی میں
اس کا فیصلہ کروں گا۔حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے پوچھا اگر وہ
مسئلہ کتاب اﷲ میں نہ ملے تو کیا کرو گے ؟ عرض کیا پھر نبی کریم صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔حضورنبی کریم صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم نے پوچھا کہ اگر اس کا حکم میری سنت میں بھی نہ ملا تو کیا
کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کسی
قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس پر حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے
اپنا دست مبارک میرے سینے پر مار کر فرمایا اﷲ کا شکر ہے جس نے اپنے پیغمبر
کے قاصد کی اس چیز کی طرف رہنمائی فرما دی جو اس کے رسول کو پسند
ہے۔(مسنداحمد۲۰۷۴،سنن ابی داؤد،ج۲،ص۱۴۹)
حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں قاضی یا عامل بنا کر یمن روانہ فرمایا تو آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم الوداع کہنے کے لئے کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اور اس
دوران آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ان کو تلقین ونصیحت کرتے رہے۔ نیز اس وقت
حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تو اپنی سواری پر سوار تھے اور رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نصائح و ہدایت سے فارغ ہوئے تو فرمایا’’ معاذ میری
عمر کے اس سال کے بعد شاید تم مجھ سے ملاقات نہیں کر سکو گے۔ اور ممکن ہے
کہ تم جب یمن سے واپس لوٹو گے تو مجھ سے ملاقات کرنے کے بجائے میری اس مسجد
اور میری قبرمبارک سے گزرو۔ حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ سن کر
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی جدائی کے غم میں رونے لگے اور رسول کریم
صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف سے
منہ پھیر کر مدینہ منورہ کی جانب اپنا رخ کر لیا۔ پھر فرمایا " میرے زیادہ
قریب وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں (یعنی
خواہ وہ کسی رنگ و نسل، کسی ملک و قوم اور کسی طبقہ و مرتبہ کے
ہوں)۔(مشکوٰۃ شریف،جلدچہارم،حدیث ۱۱۵۲)
حضرت سیّدنا عبداﷲ ابن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارختم نبوت
،سرکارِ مدینہ ، قرارِ قلب و سینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے جب حضرت
سیّدنا معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو
ایک روز صبح کی نماز کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ
ہوئے اور ارشادفرمایا’’ اے گروہ ِمہاجرین و انصار! تم میں کون ہے جو (دین
اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے) ہمارا نمائندہ بن کر یمن جائے ؟ تو حضرت
سیدنا صدّیق اکبررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو پیش کر دیا
مگر سرکارِ مدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا اور دوبارہ
یہی ارشاد فرمایا: اے گروہ ِمہاجرین وانصار! تم میں کون ہے جو (دین اسلام
کی دعوت کو عام کرنے کے لئے) ہمارا نمائندہ بن کر یمن جائے ؟ تو حضرتِ
سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے اور عرض کی’’ یارسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم میں حاضر ہوں‘‘۔ مگر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے
بدستور سکوت فرمایا اور پھر وہی ارشاد فرمایا’’اے گروہ ِمہاجرین وانصار تم
میں کون ہے جو (دین اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے) ہمارا نمائندہ بن کر
یمن جائے؟ اب حضرتِ سیّدنا معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اورعرض
کی’’یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم میں (حاضر ہوں )! تاجدارختم نبوت صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: ہاں اے معاذ! تم ہی اس کام کے لئے ہو،
پھرتاجدارِختم نبوت صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’اے بلال رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ !ان کے لئے میرا عمامہ لاؤ‘‘۔ حضرت سیّدنا بلال رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے تاجدارختم نبوت صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ اقدس میں
عمامہ پیش کردیا۔سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں
سے حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سر پر عمامہ شریف باندھا اور پھر
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو رخصت کرنے کے لئے مدینہ شریف سے باہر تشریف لائے
اور دعاؤں سے نوازتے ہوئے الوداع فرمایا۔(تاریخ الخمیس فی احوال انفس
النفیس، ذکر معاذبن جبل، ۲۴۱/۲،واللفظ لہ،کتاب الثقات ،السیرۃ النبوی،السنۃ
التاسعۃ من الہجرۃ، ۷۴۱/۱)
سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے جب حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کویمن بھیجاتوارشادفرمایا’’تم عنقریب اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس
پہنچوگے جب تم ان کے پاس پہنچوتوسب سے پہلے انہیں یہ دعوت دیناکہ اﷲ کے
سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ’’محمدصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ‘‘اﷲ کے رسول
ہیں۔جب وہ اسمیں تیری اطاعت کرلیں توان کوبتاؤکہ اﷲ نے ان پردن رات کی پانچ
نمازیں فرض کی ہیں۔اورجب وہ یہ بات بھی مان لیں توان کوبتاؤکہ اﷲ تعالیٰ نے
ان پرصدقہ وزکوٰۃ فرض کیاہے ۔اوریہ صدقہ وزکوٰۃ ان کے دولت مندوں سے لیکران
کے غریبوں کودیاجائے گااورجب وہ اس بات کوبھی تسلیم کرلیں تودیکھوصدقے میں
چن چن کران کاعمدہ مال نہ لے لینااورہاں مظلوم کی بددعاسے ڈرتے رہناکیونکہ
اس کے اوراﷲ کے درمیان کوئی پردہ وحجاب نہیں ہوتا۔(صحیح بخاری،باب
اخذالصدقۃ من الاغنیاء۱۴۲۵)اس حدیث مبارکہ میں سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کودعوت دین کاطریق سکھارہے
ہیں۔کہ دعوت دین کامنہج واسلوب اوراسے بپاکرنے کاعملی طریق کیاہو۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ علم وعمل کے پیکر ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کواﷲ تعالیٰ نے علم کی گہرائی اورگیرائی
عطاکی تھی۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے زندگی بھر اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی
بجاآوری اورتاجدارختم نبوت صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے عشق ومحبت اورسنت
مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی پیروی میں کوئی کوتاہی نہ کی۔اسی طرح حقوق
العبادکی رعایت بھی بڑی شدت سے فرماتے رہے ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
دوبیویاں تھیں جب ایک کی باری ہوتی تودوسری کے گھرمیں پانی تک نہ پیتے
اوروضوتک نہ کرتے ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ درازقد،خوبرو،رنگ سفید،آنکھیں
بڑی،دانت چمکدار،بال گھنکریالے اور خوبصورت،خوش اخلاق،کشادہ دست،کریم النفس
اوربڑے سخی تھے۔حضرت عمروبن حموع بن جموع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوبت پرستی
اوربتوں سے متنفرکرنیوالوں میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاکردارتھا۔قبول اسلام
کے بعداپنی ساری زندگی تبلیغ اسلام،تبلیغ قرآن اورشرک کے خاتمے کے لئے وقف
کردی۔دین کے مسائل سیکھنے اورقرآنی علوم پڑھنے لگ گئے۔مسائل دین سیکھتے
سیکھتے اس مقام پرپہنچ گئے کہ تاجدارختم نبوت سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم نے اپنے اس غلام کویہ بشارت دے دی جس پربجاطورپر فخرکرسکتے ہیں۔جماعت
صحابہ میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کویہ سندعطاہوئی’’اعلم امتی بالحلال
والحرام معاذبن جبل‘‘’’ میری امت میں سب سے زیادہ حلال وحرام سے واقف
معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں‘‘۔
سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اپنی امت کو چار صحابہ کرام علیہم
الرضوان سے قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداﷲ بن عمررضی
اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے
ارشادفرمایا’’ چار شخصوں سے تعلیمات قرآن حاصل کرو۔حضرت عبداﷲ بن
مسعود،سالم مولیٰ ابی حذیفہ ،ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہم(صحیح
البخاری: ج۱ص۵۳۱،۵۳۷)
حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہ مجتہد ہیں جن کو اجتہاد کی سند خود
تاجدارِختم نبوت حضورنبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اپنی حیات طیبہ
میں دی اور امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے بھی ان کی تائید
فرمائی۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی علمی فضیلت وبزرگی کا اندازہ اس سے کیا
جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں فتویٰ دینے کی اہم ذمہ
داری آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد تھی اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے عہد خلافت میں بھی۔ جب معلم وقاضی ہو کر یمن چلے گئے تو حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے ’’معاذرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یمن
جا کر اہل مدینہ میں فقہ کا خلاء پیدا کردیا ہے۔امام ذہبی رحمہ اﷲ ان کا
تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔’’حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فقہاء اور
اونچے درجہ کے صحابہ کرام میں سے تھے‘‘۔(تذکرۃالحفاظ: ج۱ص۱۹رقم الترجمہ۸)
امیرالمومنین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ میں
لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’کہ جس شخص کو کوئی فقہی مسئلہ
درپیش ہو تووہ معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھ لیا کرے۔(المعجم
الاوسط للطبرانی: ج۳،ص۳۳،رقم:۳۷۸۳،تذکرۃالحفاظ للذہبی،ج۱ص۲۰) لوگ جوق درجوق
حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مسائل پوچھاکرتے تھے۔ حضرت اسود بن
یزید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’جب حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
یمن میں معلم یا امیر بن کر آئے تو ہم نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا کہ ایک شخص
فوت ہوگیا اور اس نے ورثاء میں ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی ہے۔اب وراثت
کیسے تقسیم ہوگی؟ تو حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی وراثت کا
نصف حصہ اس کی بیٹی کو دیا اور نصف اس کی بہن کو۔حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے لو گوں کو یہ مسئلہ بتایا تولوگوں نے بغیر مطالبہ دلیل کے
محض ان پر اعتماد کرتے ہوئے مسئلہ مان لیا ،اسی کا نام تقلید ہے کہ کسی
مجتہد کے قول کو بلامطالبہ دلیل مان لینا۔(صحیح البخاری ج۲ص۹۹۷)
ابو الاسود دیلی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ جس وقت یمن میں تھے تو ان کے سامنے ایک یہودی کی وراثت کا مقدمہ
پیش ہوا جو فوت ہوگیا تھا، اور اپنے پیچھے ایک مسلمان بھائی چھوڑ گیا تھا
حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ
فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام اضافہ کرتا ہے کمی نہیں کرتا اور اس حدیث سے
استدلال کر کے انہوں نے اسے وارث قرار دے دیا۔(مسنداحمدبن
حنبل،جلد۹،حدیث۲۰۷۲)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ شان ِصحابہ کرام ،بزبان مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم نے ارشادفرمایا’’کیاہی اچھے لوگ ہیں۔’’ابوبکر،عمر،ابوعبیدہ بن
جراح،اسیدبن حضیر،ثابت بن قیس بن شماس،معاذبن جبل اورمعاذبن عمروبن جموع
رضی اﷲ تعالیٰ عنہم‘‘(سنن ترمذی۳۷۹۵)
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم نے فرمایا’’ میری امت میں’’ ابوبکررضی اﷲ تعالیٰ عنہ ’’ہی میری امت کے
لوگوں کے حق میں سب سے زیادہ مہربان اور سب سے بڑے درد مند ہیں (کہ وہ
نہایت لطف ومہربانی اور درد مندی کے ساتھ لوگوں کو اﷲ کی طرف بلاتے ہیں اور
ان کو فلاح ونجات کے راستہ پر لگاتے ہیں ) اور میری امت کے لوگوں میں
’’عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘‘ اﷲ کے دین کے معاملات میں سب سے زیادہ سخت ہیں
(کہ نہایت سختی اور مضبوطی کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ
انجام دیتے ہیں ) اور میری امت کے لوگوں میں’’ عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘‘
سب سے سچے حیادار ہیں ، اور میری امت کے لوگوں میں سب سے بڑے فرائض داں
’’زید بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘‘ہیں اور میری امت کے لوگوں میں سب سے
زیادہ قرآن پڑھنے والے اور سب سے بڑے ماہر تجوید قرآن’’ ابی ابن کعب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ‘‘ہیں ، اور میری امت میں حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے
والے’’ معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘‘ ہیں اور ہرامت میں ایک امین ہوتا
ہے اور اس امت کے امین’’ عبیدہ بن الجراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ‘‘ہیں۔ (سنن
ترمذی،مسنداحمدبن حنبل ) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ حدیث حسن صحیح ہے اور
اس حدیث کو معمر نے بھی قتادہ سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور (معمر کی ) اس
روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ’’ : میری امت کے لوگوں میں حق کے مطابق سب
سے اچھا فیصلہ کرنے والے ’’علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘‘ہیں۔"(سنن ترمذی،مشکوۃ
شریف، ج۵ ،مناقب عشرہ مبشرہ،حدیث ۷۵۰)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ بشارت مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت معاذ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی سواری پر آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیچھے سوار تھے، حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہٖ وسلم نے (حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے) فرمایا ’’ اے معاذ بن جبل
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ! حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ’’ لبیک یا
رسول اللّٰہ و سعدیک‘‘! حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ تین مرتبہ
حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو
مخاطب کیا اور ہر مرتبہ حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہی الفاظ دہرائے۔
تیسری مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ جو کوئی سچے دل سے اس
بات کی شہادت (گواہی )دے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد
مصطفی اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں، اﷲ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔
حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا’’ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم ! کیا میں اس بات سے لوگوں کو مطلع نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ نہیں! اگر تم انہیں یہ بات بتا دو
گے تو وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھے رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے)
چنانچہ حضرت معاذرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث اپنے انتقال کے وقت بیان کی
تاکہ حدیث بیان نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہوں۔‘‘ (متفق علیہ)
سیدناحضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے پیچھے ایک گدھے پرسوارتھا ۔جسکانام
’’عفیر‘‘تھا۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے
معاذرضی اﷲ تعالیٰ عنہ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اﷲ کا کیا حق ہے ؟ میں
نے عرض کیا کہ اﷲ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں ، نبی کریم صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اﷲ کا حق یہ ہے کہ ) تم اسی کی عبادت کرو
اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اﷲ پر بندوں کا کیا حق ہے ؟ اگر وہ ایسا
کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اﷲ
انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔(مسنداحمد،جلد۹،حدیث۲۰۷۱)
حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفرمیں رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ تھا۔چلتے چلتے مجھے ایک صبح رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم کے قریب ہونے کاموقع ملا۔میں نے عرض کی اے اﷲ کے رسول صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم!مجھے کوئی ایساعمل بتائیں جومجھے جہنم سے دورکردے
اورجنت میں لے جائے ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا’’اے معاذرضی
اﷲ تعالیٰ عنہ!تونے بہت بڑے مسئلے کے متعلق سوال کیاہے۔لیکن جس کے لئے اﷲ
تعالیٰ اسے آسان کردے ۔اس کے لئے یہ انتہائی آسان ہے۔تواﷲ وحدہ لاشریک کی
عبادت کر،اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرا،نمازقائم کر،زکوٰۃاداکر،رمضان
المبارک کے روزے رکھ اوربیت اﷲ کاحج کر۔ (مسنداحمد۲۳۱/۵،سنن ترمذی ۲۶۱۶،سنن
ابن ماجہ۳۹۷۳)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ حکمران وقت کے بارے میں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے مروی ایک مفصل حدیث میں آپ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں’’ خبردار! اﷲ کی کتاب اور اقتدار جدا جدا ہونے
والے ہیں۔ ایسے میں کبھی کتابِ الٰہی سے جدا نہ ہونا۔ خبردار! تم پر ایسے
لوگ حکمران ہو جائیں گے جو تمھارے بارے میں (قرآنی تعلیمات کے خلاف) فیصلے
کیا کریں گے۔ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمھیں گمراہ کر دیں گے اور اگر
ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں موت کے گھاٹ اْتار دیں گے۔ صحابہ کرام
علہیم الرضوان نے عرض کیا’’ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم! ایسا ہو تو
ہم کیا کریں؟ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: وہی جو عیسیٰ بن مریم
کے ساتھیوں نے کیا’’انھیں آروں سے چیرا گیا، تختہ دار پر لٹکایا گیا (لیکن
انھوں نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا)۔ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت میں موت، اﷲ تعالیٰ کی
نافرمانی میں زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔ (طبرانی)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ اﷲ کی محبت کی خاطر کسی سے محبت کرنا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ابوادریس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ دمشق کی جامع مسجد
میں داخل ہوا وہاں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا
ہوا ، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف
ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ وہ امام الفقہاء حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
ہیں۔اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے
تھے۔ انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر
عرض کیا بخدا! میں اﷲ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم
دے کر پوچھا واقعی ؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے میری چادر کا
پلو پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا اور فرمایا تمہیں خوشخبری ہو کہ میں نے
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا
ہے میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت
کرتے ہیں میری وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں میری وجہ سے ایک
دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے
ہیں۔(مسنداحمدبن حنبل)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ جہادکرنیوالے اور شہادت کی تمنارکھنے والے کی فضیلت
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو مسلمان آدمی اﷲ کے راستہ میں اونٹنی
کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال (جہاد)کرے اس کے لئے جنت
واجب ہو جاتی ہے اور جو شخص اپنے متعلق اﷲ سے صدق دل کے ساتھ شہادت کی دعا
کرے اور پھر طبعی موت پا کر دنیا سے رخصت ہو تو اسے شہید کا ثواب ملے گا
اور جس شخص کو اﷲ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو وہ
قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران
جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی اور جس شخص کو اﷲ کے راستہ میں کوئی زخم لگ
جائے تو اس پر شہداء کی مہر لگ جاتی ہے۔(مسنداحمدبن حنبل،جلد۹،حدیث۲۰۸۰)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ بیت المقدس کاآبادہونا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا بیت المقدس کا آباد ہو جانا مدینہ منورہ کے بے آباد ہو جانے
کی علامت ہے اور مدینہ منورہ کا بے آباد ہونا جنگوں کے آغاز کی علامت ہے
اور جنگوں کا آغاز فتح قسطنطنیہ کی علامت ہے اور قسطنطنیہ کی فتح خروج دجال
کا پیش خیمہ ہوگی پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی ران یا کندھے پر
ہاتھ مار کر فرمایا یہ ساری چیزیں اسی طرح برحق اور یقینی ہیں جیسے تمہارا
یہاں بیٹھا ہونا یقینی ہے۔(مسنداحمد)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ
کاچارسودیناربھیجوانا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مالک الداررحمہ اﷲ کہتے ہیں کہ سیدنا امیرالمومنین حضرت عمرفاروق بن خطاب
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چار سو دینارتھیلی میں رکھ کراپنے غلام کوحکم دیا یہ
تھیلی سیدناحضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کودے آؤ۔ اورانہیں
بتاؤ کہ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ تھیلی آپ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے ہدیہ بھیجی ہے۔ اور پھر کچھ دیر وہیں رک کر دیکھنا کہ
وہ اس تھیلی کا کیا کرتے ہیں۔غلام وہ تھیلی لے کر روانہ ہوااورسیدنا حضرت
ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے عرض کی کہ امیرالمومنین حضرت
عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دیے ہیں اورکہاہے کہ اس رقم سے آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ اپنی ضروریات کوپورا کرلیں۔سیدناحضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے وہ تھیلی لیتے ہوئے عرض کیا’’اﷲ انہیں بہترین بدلہ عطا
فرمائے اور ان پر رحمتیں نازل کرے‘‘۔ اس کے بعد اپنی ایک خادمہ کو بلایا
اور کہا کہ یہ لو سات دینار فلاں کو دے آؤ، پانچ فلاں کو دے آؤ، پانچ فلاں
کو۔ یہاں تک کہ سارے کے سارے دینار اسی وقت مختلف لوگوں میں تقسیم کردیے
اور اپنی ضرورت کے لیے ایک دینار بھی نہ رکھا۔غلام نے حضرت عمرفاروق رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرہوکرساراواقعہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گوش
گزار کردیا۔ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چار سو دینار کی ایک اور
تھیلی تیار کی اور غلام سے کہا کہ یہ تھیلی حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے پاس لے جاؤ اور انہیں بھی کہنا کہ یہ تھیلی امیر المومنین نے آپ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کی ضروریات کے لیے بھیجی ہے اور وہاں بھی تھوڑی دیر رک کر
دیکھنا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔غلام وہ تھیلی لے کر حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ رقم آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے بھیجی ہے تاکہ آپ اسے
اپنی ضروریات پوری کرنے میں صرف کرلیں۔حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے فرمایا ’’کہ اﷲ ان کو بہتر صلہ دے اور ان پر رحمت کرے ‘‘اور پھر اسی وقت
اپنی خادمہ کو بلایا اور حکم دیاکہ اتنے اتنے دینارلے جاکر فلاں فلاں کے
گھردے آؤ۔اوراتنے اتنے فلاں کودے آؤ۔ اتنے میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کی بیوی نے پردے سے پیچھے سے جھانک کر کہا’’خدا کی قسم ہم بھی
بہت ضرورت مند ہیں ہمیں بھی کچھ دیجیے۔حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے تھیلی میں جھانکا تو اس میں دو دینار بچے تھے یہ دو دینار انہوں نے اپنی
بیوی کی طرف پھینک دیے۔غلام امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کے پاس لوٹ آیا اور سارا قصہ سنایا توامیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ خدا کی قسم یہ سب لوگ بھائی
بھائی ہیں اور ایک جیسے ہیں۔ (طبرانی فی الکبیر۶۴،الترغیب و الترہیب۳۵۸)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی دس وصیتیں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
نوجوان صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ و سلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، چنانچہ فرمایا
(۱) اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا
جائے اور جلا دیا جائے۔
(۲) اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے اہل اور مال چھوڑ
دینے کا حکم دیں۔
(۳) جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑو کیونکہ جو آدمی عمداً نماز چھوڑ
دیتا ہے اﷲ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
(۴) شراب مت پیو کیونکہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
(۵) اﷲ کی نافرمانی اور گناہ سے بچو کیونکہ نافرمانی کرنے سے اﷲ کا غصہ اتر
آتا ہے۔
(۶) جہاد میں دشمنوں کو ہرگز پیٹھ نہ دکھلاؤ اگرچہ تمہارے ساتھ کے تمام لوگ
ہلاک ہو جائیں۔
(۷) جب طاعون کی وباء (کینسر) پھیل جائے اور تم ان میں موجود ہو تو ثابت
قدم رہو یعنی ان کے درمیان سے بھاگو مت۔
(۸) اپنے اہل و عیال پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتے رہو۔
(۹) تادیباً اپنا ڈنڈا ان سے نہ ہٹاؤ۔
(۱۰) اور اﷲ تعالیٰ کے معاملہ میں انہیں ڈراتے رہو یعنی اہل و عیال میں سے
کسی کو سزاء یا تا دیبا کچھ مارنا پیٹنا ضروری ہو تو اس سے پہلو تہی نہ کرو
اور ان کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحت و تلقین کرتے رہا کرو اور دین کے احکام
و مسائل کی تعلیم دیا کرو اور ان کو بری باتوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ (مسند
احمد بن حنبل)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ وصال پُرملال ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
۱۸ھجری میں عمواس(رملہ اوربیت المقدس کے مابین واقع ایک بستی)میں طاعون
(کینسر)کی وباء پھیلی۔جوملک شام وفلسطین کے پورے علاقے میں پھیل گئی اس
وباء نے۲۵ہزارجانیں لیں۔حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات
بھی اسی سے ہوئی۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی دوبیویاں اوراکلوتے بیٹے
عبدالرحمان بھی طاعون میں مبتلاہوکراس دنیاسے رخصت ہوئے۔آخرمیں آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ اسی متعدی بیمارمیں مبتلاہوکراس فانی دنیاسے رخصت ہوئے ، انتقال
کے وقت آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بار بار کہتے تھے۔’’ الہٰی !یہ (سخت ترین
طاعون بعض اعتبار سے ) درحقیقت تیرے بندوں پر تیری رحمت ہے الہٰی !معاذ اور
معاذ کے اہل وعیال کو اس رحمت سے محروم نہ رکھ۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ
دم رخصت حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زبان پر کچھ اس طرح کے الفاظ تھے ۔
الہٰی ! موت کی سختی کم کردے جتنا تو چاہے قسم ہے تیری عزت کی تو خوب جانتا
ہے کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کہتے ہیں کہ ہم معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس آیت ( اِنَّ
اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا۔سورۃ النحل ۱۲۰)
کے مضمون میں حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دیا کرتے
تھے۔جب آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ آیت کریمہ پڑھی گئی توآپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے فرمایا’’کہ معاذبھی ایک امت تھے ۔اﷲ کے فرماں بردارتھے۔ان کے
متعلق آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے دریافت کیاگیاتوآپ نے فرمایا’’جانتے
ہو’’امت‘‘‘وہ شخص ہے جولوگوں کوخیرکی باتیں سکھاتاہے۔(فتح الباری
جلد۸،صفحہ۴۹۴)
منقول ہے کہ رحلت کے وقت آپ کے ساتھی رونے لگے تو ان سے پوچھا ’’ تم لوگ
کیوں رو رہے ہو ؟ ان سب نے کہا کہ ہم علم کو رو رہے ہیں جو آپ کی موت کے
سبب منقطع ہوا چاہتا ہے ، حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا’’ علم
اور ایمان لازوال ہیں قیامت تک باقی رہنے والے ہیں ، حق جس سے بھی ملے حاصل
کرو باطل پر جو بھی اس کی تردید ومخالفت کرو۔
اﷲ تعالیٰ کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی
الامین طٰہ ویٰسین
|