محبت اور برف

محبت اور برف میں کوئی واضح رشتہ تو نہیں سوائے اس بات کے کہ جب محبت نہ رہے تو اسے سرد مہری کہا جاتا ہے اور’ سرد‘ کا تعلق واضح طور پر برف سے جا ملتا ہے۔ یہ بات کوئی مستند حقیقت تو نہیں بس یوں ہی ایک خیال سا ہے جس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے:
کسی زمانے میں برف کا وجود نہ تھا ، اس زمانے میں لوگوں میں بہت زیادہ محبت اور پیار کا رشتہ قائم تھا۔ نفسا نفسی کو سانس لینے کی اجازت کم ہی ملتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ گرمی بڑھ گئی اور برف بنانا ضروری ہو گیا۔ برف بننے لگی اور محبت ٹھندا پانی پینے لگی جس سے خون کی تمازت میں کمی آگئی۔ خون کی گرمی کم ہونے سے محبت کی گرم جوشی بھی کچھ درجے نیچے آگئی۔

پھر برف بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں میں بھجوائی جانے لگی اور محبت کی گرم جوشی مذید مانند پڑ گئی۔ محبت کا گاڑھا خون سفید ہونے لگا اور شعور بڑھنے سے خون کے سفید خلیوں کی افادیت زیادہ واضح طور پر سمجھ آنے لگی۔ خون کی سفیدی کی اہمیت میں اضافہ ہوا اور گرمی کی شدت کم ہونے لگی۔

پھر یہ ہوا کہ چھوٹے شہروں میں بھی برف بنانے کی کارخانے لگنے لگے اور گھر گھر برف کی آمد شروع ہو گئی۔ پہلے جو برف صرف مالدار طبقہ ہی پیتا تھا اور اس کا خون ٹھنڈا ہوتا تھا اب وہی برف متوسط اور تھرڈ کلاس بھی پینے لگی تھی اور ان کا خون بھی ٹھنڈک کا متلاشی ہونے لگا تھا۔ خون کے سفید خلیوں کی اہمیت بھی پہلے سے زیادہ لوگوں کے شعور میں آ چکی تھی اس لئے خون کی سرخی اور گرمی کی ضرورت مذید کم ہو گئی تھی۔

پھر برف باہر سے آنے کی بجائے فریجوں کی شکل میں گھر گھر میں بننے لگی۔ جس فرد کا جی چاہتا نکال کے استعمال کر لیتا۔ اب برف کے آنے اور لانے کا انتظار ختم ہو چکا تھا اب برف انسان سے بس دو قدم کے فاصلے پر تھی اب اسے ٹھنڈا پانی پینے کی عادت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اب گھروں سے کولر بھی اٹھا دیئے گئے تھے اور فریج کو گرمیوں کی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جا چکا تھا۔ اب برف باہر نہیں بلکہ انسان کے اندر ہی سرایت کر گئی تھی۔ اب اس کا خون ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا بلکہ ہر وقت ٹھنڈا ہی رہتا تھا۔ اس کے خون کے سفید خلئے اتنے زیادہ ہو گئے تھے کہ اس کا رنگ بھی سفید ہو گیا تھا۔ وہ بہت مہذب اور صاف ستھرا لگتا تھا جبکہ اس کا خون بہت ٹھنڈا اور سفید ہو چکا تھا۔ اور محبت فریج کے اوپر والے سرد خانے میں خود کشی کر چکی تھی۔

دیہات ابھی اس برف سازی میں شہروں سے اس طرح پیچھے ہیں کہ ابھی وہاں ہر گھر میں فریج کا راج رائج نہیں ہوا۔ ابھی کافی گھروں میں فریج نے قدم رنجہ نہیں فرمایا۔ اور ابھی وہاں محبت کی ہوا خود غرضی کے دھوئیں سے مکدر نہیں ہوئی۔ وہاں ابھی ایک دوسرے اور تیسرے کا کچھ کچھ تعلق باقی ہے۔ اگرچہ دیہاتوں میں بھی کیبل بچھ گئی ہے۔ موبائل سگنل کی آمدورفت بھی جاری ہے۔ طوفانِ بد تمیزی شہروں کے ببعد اب دیہاتوں کا رخ کرنے کو پر تول رہا ہے۔ اور اسے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔اور گاؤں کی آب ہوا زیادہ دیر تک پسماندہ نہیں رہے گی۔ وہاں بھی تعلیم کا اثرو رسوخ قائم ہو گا۔ وہاں بھی ترقی ہو گی۔ وہاں بھی گھر گھر میں برف بنے گی اور وہاں بھی ذاتی معاملات کا فلسفہ اپنا اثر دیکھائے گا۔ انسان اکیلا ہو جائے گا۔مگر وہاں باتیں کرنے کے لئے درخت شاید مل سکیں گے جو کہ شہروں میں شہید کر دیئے گئے ہیں فطرت کے یہ محافظ اپنی ڈیوٹی با وردی ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر چکے۔ لیکن دیہاتوں میں ابھی بھی وہ اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔وہاں کے اکیلے انسان سے باتیں کرنے کے لئے درختوں کے پاس بہت ٹائم ہو گا۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283828 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More